خبریں

کیا ہےIIT-BHU کے ’آدرش بہو ‘بنانے والے اسٹارٹ اپ کا سچ؟

’ آدرش بہو ‘کی ٹریننگ کی خبر آنے کے بعد آئی آئی ٹی بی ایچ یو نے اسٹارٹ اپ ’ ینگ اسکلڈ انڈیا ‘ سے کسی بھی طرح کا تعلق ہونے سے انکار کیا ہے لیکن مقامی اخباروں کو کھنگالیں تو اس کو ’ آئی آئی ٹی بی ایچ یو کا اسٹارٹ اپ ‘ بتانے والی تمام خبریں لمبے وقت سے چھپتی رہی ہیں۔

استارٹ اپ ینگ اسکلڈ انڈیا کے سی ای او نیرج شریواستو (کولاژ : درگ چندر)

اسٹارٹ اپ ینگ اسکلڈ انڈیا کے سی ای او نیرج شریواستو (کولاژ : درگ چندر)

نئی دہلی :گزشتہ 3 ستمبر کو ہندی روزنامہ امر اجالا کے وارانسی ایڈیشن میں ‘ آئی آئی ٹی بی ایچ یو میں اچھی بہو بننے کی ملے‌گی ٹریننگ ‘ عنوان سے ایک خبر چھپی۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ خبر تیزی سے وائرل ہوئی۔ تمام دیگر میڈیا اداروں اور نیوز ایجنسیوں نے اسی اخبار کی خبر کی بنیاد پر اس کو چھاپا اور نشر کیا۔ اس پر کئی لوگوں نے سوال کھڑے کئے اور تنازعہ کھڑا ہو گیا۔

اس کو لےکر سوشل میڈیا پر آئی آئی ٹی بی ایچ یو کی کافی کرکری ہوئی، جس کے بعد آئی آئی ٹی بی ایچ یو انتظامیہ کی نیند کھلی۔ اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے ان کے ذریعے بھیجی گئی پریس ریلیز بھی اسی اخبار میں چھپی، جہاں انہوں نے اس اسٹارٹ اپ اور ایسے کسی ٹریننگ پروگرام سے اپنے جڑاؤ  سے انکار کیا۔ اخبار نے آئی آئی ٹی بی ایچ یو انتظامیہ کی صفائی کچھ یوں چھاپی ہے؛

پانچ دن بعد منگل کو آئی آئی ٹی انتظامیہ نے صفائی دی۔ آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے پریس اینڈ پبلسٹی سیل کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ایسا کوئی کورس  آئی آئی ٹی میں نہیں چلایا جا رہا ہے اور نہ ہی ادارہ ایسے کسی بھی ٹریننگ یا کورس  کی حمایت کرتا ہے۔ آئی آئی ٹی کا ینگ اسکلڈ انڈیا سے کوئی لینادینا بھی نہیں ہے۔

BHU-6

اس کے ساتھ ہی انڈین ایکسپریس اخبار میں آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے رجسٹرار ڈاکٹر ایس پی ماتھر کا بیان چھپا، جس میں انہوں نے کہا، ‘ اس طرح کے موضوع پر آئی آئی ٹی بی ایچ یو میں کوئی تربیت یا کورس  دستیاب یا منصوبہ بند نہیں ہے۔ ینگ اسکلڈ انڈیا ایک ذاتی اسٹارٹ اپ ہے اور آئی آئی ٹی بی ایچ یو کا اس اسٹارٹ اپ کے ذریعے منصوبہ بند کسی ٹریننگ پروگرام سے کسی بھی طرح کا تعلق نہیں ہے۔ ‘

جس اخبار کا حوالہ ہم شروعات میں دے رہے ہیں اسی اخبار میں چھپی اس خبر میں کہا گیا ہے کہ آئی آئی ٹی بی ایچ یو کی طرف سے کی گئی مذمت کے بعد ینگ اسکلڈ انڈیا اسٹارٹ اپ کے سی ای او نیرج شریواستو بھی بیک فٹ پر آ گئے ہیں اور اپنی ہی بھیجی پریس ریلیز سے یوٹرن لے لیا ہے۔ اخبار نے اس ادارہ کے ذریعے اس خبر کو چھاپنے سے پہلے اور چھپنے کے بعد بھیجی گئی پریس ریلیز کے ساتھ لکھا؛

منگل کو پریس ریلیز جاری کر کے سی ای او نیرج شریواستو نے بھی اس بات کو مستردکر دیا ہے کہ وہ بیٹی کو ‘ آدرش بہو بنانے جیسا کوئی نصاب چلا رہے ہیں جبکہ 31 اگست کو نیرج نے ‘ بیٹی سے کشل  بہو بننے تک کے سفر کا سارتھی  بنے‌گا اسٹارٹ اپ ینگ اسکلڈ انڈیا ‘ عنوان سے پریس ریلیز جاری کی تھی۔ آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے مالویہ انوویشن سینٹر ینگ اسکلڈ انڈیا نام سے اسٹارٹ اپ چل رہا ہے۔ نیرج شریواستو اس کے سی ای او ہیں۔ ان کی طرف سے اسکل ڈیولپمنٹ  کے تحت کئی خبریں بھیجی گئی ہیں۔ اسی سلسلے میں 31 اگست کو بھی ینگ اسکلڈ انڈیا کے سی ای او نیرج کی طرف سے دوپہر 2:14 بجے ای میل کے ذریعے ‘ بیٹی سے کشل بہو ‘ عنوان سے خبر بھیجی گئی۔ خبر چھپی تو آئی آئی ٹی بی ایچ یو کی خوب کرکری ہوئی۔ ‘

دلچسپ یہ ہے کہ یہ خبر چھپی، وائرل ہو گئی، تب اس سے متعلق سارے فریقین  کی صفائی آ گئی، لیکن اگر وارانسی کے گزشتہ کچھ مہینوں کے اخبار پلٹیں‌گے تو پائیں‌گے کہ اسی ادارہ کے حوالے سے آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے نام سے کئی خبریں چھپ چکی ہیں، لیکن خبر چھاپنے والے میڈیا اداروں نے اس پر کوئی جانچ ہی نہیں کی۔

کسی بھی رپورٹر  یا مدیر نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اگر آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے نام سے خبر چھپ رہی ہے تو اس میں آئی آئی ٹی انتظامیہ سے متعلق کسی آدمی کا بیان کیوں نہیں ہے؟ اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ ایک اسٹارٹ اپ اپنے کسی ٹریننگ پروگرام کے لئے آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے نام کا استعمال کیسے کر سکتا ہے؟آدرش بہو کی ٹریننگ کو لےکر چھپی خبر نشر کرنے میں بھی بنیادی طور پر جس اخبار کی خبر کا حوالہ دیا ہے، اس ادارے نے صرف پریس ریلیز کی بنیاد پر اس اسٹارٹ اپ کی خبریں چلائیں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب ہر دن سیکڑوں کی تعداد میں پریس ریلیز آ رہی ہیں، تو ان میں سے ایک نجی  اسٹارٹ اپ کی  پریس ریلیز بار بار کیوں چھاپی جا رہی ہے؟

گزشتہ کئی مہینوں سے مقامی اخباروں میں شائع مختلف خبروں میں ینگ اسکلڈ انڈیا کو آئی آئی ٹی بی ایچ یو کا اسٹارٹ اپ بتایا گیا ہے۔

گزشتہ کئی مہینوں سے مقامی اخباروں میں شائع مختلف خبروں میں ینگ اسکلڈ انڈیا کو آئی آئی ٹی بی ایچ یو کا اسٹارٹ اپ بتایا گیا ہے۔

دوسرا سوال ان خبروں کی زبان پر ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں میں شائع ہوئی تقریباً ہر خبر میں ہیلپ لائن نمبر اور موبائل نمبر دیا گیا ہے، ایسا عام طورپر   اشتہار والی خبروں میں ہی دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف سوال اٹھتا ہے کہ جب وارانسی کے مقامی اخبار آئی آئی ٹی بی ایچ یو سے کسی ادارہ کے جڑاؤ  سے متعلق کوئی خبر لگاتار چھاپ رہے ہیں تو بی ایچ یو انتظامیہ کے ذریعے اس کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا گیا؟

یہ ماننا مشکل ہے کہ وارانسی کے اہم اخباروں میں آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے نام سے ایک نجی  اسٹارٹ اپ کی خبریں لگاتار چھپ رہی ہیں لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کو اس بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں چل رہا ہے۔ بنارس سے چھپنے والے اخباروں کو کھنگالے تو جتنی بار بھی اس اسٹارٹ اپ سے متعلق خبر چھاپی گئی ہے، اس میں ہر بار اس کو ‘ آئی آئی ٹی بی ایچ یو کا اسٹارٹ اپ ‘ بتایا گیا ہے۔ صاف دکھتا ہے کہ ینگ اسکلڈ انڈیا نے تب تک میڈیا اداروں کو دھوکے میں رکھا، جب تک آئی آئی ٹی انتظامیہ کی صفائی نہیں آ گئی۔

ینگ اسکلڈ انڈیا کے فیس بک پیج اور اس کے سی ای او نیرج شریواستو کی فیس بک ٹائم لائن پر بھی آپ کو ایسی کئی خبریں مل جائیں‌گی، جن کو پڑھ‌کر ایسا  لگتا ہے کہ اس اسٹارٹ اپ کا آئی آئی ٹی بی ایچ یو سے جڑاؤ  ہے۔ آدرش بہو کی ٹریننگ والی خبر کا اہم رجحان کے میڈیا میں نشر ہونے کے بعد نیرج شریواستو نے مختلف میڈیا اداروں کو ای میل کرکے کہا کہ اسٹارٹ اپ ینگ اسکلڈ انڈیا کے ذریعے ‘ آدرش بہو بنانے جیسا کوئی بھی کورس  نہیں چلایا جا رہا ہے، جبکہ امر اجالا کو ادارہ کے ذریعے بھیجی گئی پریس ریلیز صاف کہتی ہے کہ ‘ بیٹی سے کشل بہو بننے تک کے سفر کا سارتھی  بنے‌گا اسٹارٹ اپ ینگ اسکلس انڈیا۔ ‘

امر اجالا کے  وارانسی ایڈیشن میں دو ستمبر کو شائع خبر۔

امر اجالا کے  وارانسی ایڈیشن میں دو ستمبر کو شائع خبر۔

جب دی وائر کے ذریعے   نیرج شریواستو سے اس تنازعہ پر بات کی گئی تب انہوں نے اس ساری غلطی کا ٹھیکرا میڈیا پر پھوڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا نے بغیر جانچ کئے خبر چھاپ دی ہے۔ نیرج نے کہا، ‘ ینگ اسکلڈ انڈیا بےروزگاری پر کام کرنے والا ایک اسٹارٹ اپ ہے، جو سبھی اسٹوڈنٹس  کو پروفیشنل اسکلس کی ٹریننگ دیتا ہے۔ ونیتا پالیٹکنک  کے ساتھ مل‌کر اسٹوڈنٹس کو پروفیشنل اسکل، کانفیڈینس بلڈنگ کے ساتھ ساتھ جاب انٹرویو اسکلس کی بھی ٹریننگ دیتا ہے۔ اس کا  آدرش بہو بنانے جیسے کورس  سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کا آئی آئی ٹی بی ایچ یو سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ‘

ری پبلک ٹی وی سے ہوئی بات چیت میں بھی نیرج صاف کہتے سنے جا سکتے ہیں، ‘ اس کورس  کو ڈیزائن کرنے میں بی ایچ یو کا کوئی رول  نہیں ہے۔ ینگ اسکلڈ انڈیا ایک انڈی پینڈنٹ باڈی   ہے۔ انڈی پینڈنٹ  اسٹارٹ اپ ہے۔ ‘ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ بی ایچ یو کی کتنی مدد ملتی ہے، تو ان کا جواب ہوتا ہے، ‘ یہ وہاں کا اسٹارٹ اپ ہے۔ جو اسٹارٹ اپ کو ہیلپ کرتا ہے انکیوبیشن سینٹر اس نے ہمیں جگہ دی ہے۔ بس اتناہی رول  ہے۔ وہاں کے پروفیسر اور بچوں سےا ہمارا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ‘

یعنی صاف ہے کہ بیتے کچھ وقت سے اس ادارہ کے آئی آئی ٹی بی ایچ یو سے جڑاؤ  کے نام پر خبریں اخباروں میں چھپتی رہیں اور بڑی تعداد میں نوجوانوں کو گمراہ کیا جاتا رہا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ اگر ‘ آدرش بہو کی ٹریننگ سے  تعلق خبر پر شور  نہیں مچتا تو ینگ اسکلڈ انڈیا کے آئی آئی ٹی بی ایچ یو سے جڑے ہونے  کی خبریں اخبار میں چھپتی رہتیں اور بےروزگار نوجوانوں کو لگتا کہ وہ آئی آئی ٹی بی ایچ یو سے جڑے  کسی ادارے سے اسکل ٹریننگ لے رہے ہیں۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا اس پورے معاملے میں آئی آئی ٹی بی ایچ یو انتظامیہ، ینگ اسکلڈ انڈیا اسٹارٹ اپ اور میڈیا نے مل‌کر نوجوانوں کو ٹھگنے کا کام کیا ہے؟ کیا میڈیا اور یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ پتا تھا کہ ایک نجی  اسٹارٹ اپ آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے نام کا غلط استعمال کر رہا ہے؟ کیا اس پوری  گڑبڑ میں شامل لوگوں نے جان بوجھ کر ایک نجی  اسٹارٹ اپ کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے؟ یا پھر صرف  لاپرواہی  کی وجہ سے اس پر دھیان نہیں دیا گیا!

دی وائر نے اس معاملے پر آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے رجسٹرار ڈاکٹر ایس پی ماتھر سے رابطہ کیا۔ ان کے دفتر کے ذریعے ای میل پر سوال بھیجنے کو کہا گیا، ہم نے سوال بھیج دئے ہیں۔ اس رپورٹ کی اشاعت تک ان کا جواب نہیں ملا ہے۔ جواب ملنے کے بعد اس کو اس رپورٹ میں جوڑ دیا جائے‌گا۔ ای میل پر دی وائر نے نیرج شریواستو سے سوال کیا تھا، ‘ آپ کا ینگ اسکلڈ انڈیا ایک نجی  اسٹارٹ اپ ہے لیکن اس کے باوجود آپ کے نجی  اسٹارٹ اپ کو ‘ آئی آئی ٹی بی ایچ یو کا اسٹارٹ اپ ‘ بتاکر مقامی میڈیا میں کئی خبریں آپ کے فون نمبر اور بیان کے ساتھ پچھلے کئی مہینے سے چھپتی رہی ہیں۔ پھر آپ نے ان کی تردید کیوں نہیں کی؟ ‘

جس پر نیرج شریواستو نے ای میل سے جواب دیا ہے، ‘ ینگ اسکلڈ انڈیا بےروزگاری پر کام کرنے والا ایک اسٹارٹ اپ ہے جو تمام طالب علموں کو پروفیشنل اسکلس کی ٹریننگ دیتا ہے، جو ونیتا پالیٹکنک  کے ساتھ مل‌کر طالب علموں کو پروفیشنل اسکل، کانفیڈینس بلڈنگ کے ساتھ ساتھ جاب انٹرویو اسکلس کی بھی ٹریننگ دیتا ہے۔ اس کا ‘ آدرش بہو بنانے ‘ جیسے کورس  سے کوئی لینا دینا نہیں ہے! ‘ یہ وہی جواب ہے جس کو وہ وضاحت کے طور پر  پہلے ہی بھیج چکے ہیں۔ ‘ آئی آئی ٹی بی ایچ یو کا اسٹارٹ اپ ‘ ہونے سے متعلق سوال پر ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔

02 اپریل 2017 کے اخبار میں چھپی ایک خبر میں نیرج شریواستو کو آئی آئی ٹی بی ایچ یو کا اسٹوڈنٹ بتایا گیا تھا۔

02 اپریل 2017 کے اخبار میں چھپی ایک خبر میں نیرج شریواستو کو آئی آئی ٹی بی ایچ یو کا اسٹوڈنٹ بتایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ امر اجالا اخبار کی تقریباً ایک سال پرانی خبر میں نیرج شریواستو کو آئی آئی ٹی بی ایچ یو کا اسٹوڈنٹ  بتایا گیا ہے۔ جب دی وائر نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے آئی آئی ٹی بی ایچ یو سے پڑھائی سے انکار کیا۔ اس معاملے پر دی وائر کے ذریعے مقامی میڈیا سے بھی رابطہ کیا گیا، جس میں انہوں نے اپنی غلطی مانی کہ نیرج شریواستو کے ذریعے بھیجی گئی پریس ریلیز پر صحیح سے جانچ نہیں کی گئی، ساتھ ہی انہوں نے آئی آئی ٹی بی ایچ یو انتظامیہ کے رویے پر بھی سوال اٹھائے۔

امر اجالا وارانسی کے مقامی مدیر راجیندر ترپاٹھی نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘ جب یہ معاملہ میرے علم میں آیا ہے تب ہم نے اس کی جانچ کرائی۔نیرج شریواستو نام کے آدمی نے جو پریس ریلیز بھیجی، اس میں آئی آئی ٹی بی ایچ یو کا ذکر ایسے ہوتا تھا، جیسے سرکاری میل میں ہوتا ہے۔ میل کو دیکھ‌کر آپ کو یہ نہیں لگے‌گا کہ یہ آئی آئی ٹی بی ایچ یو سے کچھ الگ معاملہ ہے۔ ہمارے رپورٹر  سے یہ غلطی ہوئی کہ اس نے کبھی جانچ کی کوشش نہیں کی۔ ‘

متعلقہ خبر میں اخبار کے ذریعے لگاتار فون نمبر چھاپے جانے پر انہوں نے کہا، ‘ عموماً کسی خبر میں فون نمبر نہیں چھاپا جاتا ہے، اس میں ہمیں فون نمبر نہیں چھاپنا چاہیے  تھا۔ یہ غلطی  سے ہو گیا۔ ہم ان کے  مارکیٹنگ مینجر نہیں ہیں۔ ہم اس کو صرف پریس ریلیز کی طرح لے رہے تھے۔ کسی بھی میڈیا دفتر میں جیسے پریس ریلیز چھپتی ہے یہ بالکل اسی طرح سے ہے۔ ‘

آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے رویے پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘ ہمارے رپورٹر  سے غلطی ہوئی ہے کہ انہوں نے ٹھیک سے جانچ نہیں کی، لیکن ہمارا سوال آئی آئی ٹی بی ایچ یو انتظامیہ سے ہے کہ پانچ چھے مہینے سے خبریں چھپ رہی تھیں، تو انہوں نے اس کی تردید کیوں نہیں کی؟ یہ غلطی صرف امر اجالا سے نہیں ہوئی ہے، بنارس کے زیادہ تر میڈیا اداروں نے اس کو ایسے ہی لیا ہے۔ ‘