یو پی اے نے 06-2005سے14-2013 کےدرمیان جتنا پیٹرول-ڈیزل کی ایکسائز ڈیوٹی سے نہیں وصول کیا اس سے تقریباًتین لاکھ کروڑ روپے زیادہ اکسائزڈیوٹی این ڈی اے نے 4 سال میں وصول کیا ہے۔
تیل کی بڑھی قیمتوں پر تیل وزیر دھرمیندر پردھان کی دلیل ہے کہ یو پی اے حکومت نے 1.44 لاکھ کروڑ روپے تیل بانڈ کے ذریعے جٹائے تھے جس پر سود کی دین داری 70000 کروڑ بنتی ہے۔مودی حکومت نے اس کو بھرا ہے۔ 90 روپے تیل کے دام ہو جانے پر یہ صفائی ہے تو اس میں بھی جھول ہے۔حکومت نے تیل کے ذریعے آپ کا تیل نکال دیا ہے۔آنندھوں چکرورتی نے حساب لگایا ہے کہ یو پی اے نے06-2005 سے 14-2013کے درمیان جتنا پیٹرول-ڈیزل کی ایکسائز ڈیوٹی سے نہیں وصول کیا اس سے تقریباً تین لاکھ کروڑ روپیے زیادہ اکسائز ڈیوٹی این ڈی اے نے 4سال میں وصول کیا ہے۔ اس وصولی میں سے دو لاکھ کروڑ چکا دینا کوئی بہت بڑی رقم نہیں ہے۔
یو پی اے حکومت نے 06-2005 سے14-2013 تک 6 لاکھ 18 ہزار کروڑ پیٹرولیم مصنوعات سے ٹیکس کے طور پر وصول کیا۔مودی حکومت نے15-2014 سے لےکر 2017 کے درمیان 8 17152 کروڑ وصول کیا ہے۔اس سال ہی مودی حکومت پیٹرولیم مصنوعات سے ڈھائی لاکھ کروڑ سے زیادہ کمانے جا رہی ہے۔ اس سال کا جوڑ دیں تو مودی حکومت چار سال میں ہی 10 لاکھ سے 11 لاکھ کروڑ آپ سے وصول چکی ہوگی۔ تو دھرمیندر پردھان کی یہ دلیل بہت دم دار نہیں ہے۔آپ تصور کریں آپ نے دس سال کے برابر چار سال میں اس حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات کے ذریعے ٹیکس دیا ہے۔ جبکہ حکومت کے دعویٰ کے مطابق اس کے چار سال میں پچیس کروڑ سے زیادہ لوگوں نے گیس سبسیڈی چھوڑ دی ہے۔ پھر بھی آپ سے ٹیکس چوسا گیا ہے جیسے خون چوسا جاتا ہے۔
The Modi government EARNED Rs.8,17,152 crore from excise duties ALONE between 2014-15 to 2017-18.
That is MORE than the UPA's excise earnings in its ENTIRE 10 years.
Therefore, Rs.2 lakh crore is pocket change in comparison. https://t.co/nf9Rz7dQE7 via @TOIBusiness
— Aunindyo Chakravarty (@AunindyoC) September 11, 2018
آنندیو چکرورتی نے اپنے اندازے کا سورس بھی بتایا ہے جو ان کے ٹوئٹ میں ہے۔ اب تیل بانڈ کی کہانی سمجھیں۔ 2005 سے کچّے تیل کا دام تیزی سے بڑھنا شروع ہوا۔ 25 ڈالر فی بیرل سے 60 ڈالر فی بیرل تک پہنچا۔ تب تیل کے دام حکومت کے قابو میں تھے۔حکومت تیل کمپنیوں پر دباؤ ڈالتی تھی کہ آپ کی لاگت کا دس روپیہ ہم چکا دیںگے آپ دام نہ بڑھائیں۔حکومت یہ پیسہ نقد میں نہیں دیتی تھی۔ اس کے لئے بانڈ جاری کرتی تھی جس کو ہم آپ یا کوئی بھی خریدتا تھا۔
تیل کمپنیوں کو وہی بانڈ دیا جاتا تھا جس کو تیل کمپنیاں بیچ دیتی تھیں۔ مگر حکومت پر یہ لون بنا رہتا تھا۔ کوئی بھی حکومت اس طرح کا لون فوراً نہیں چکاتی ہے وہ اگلےسال پر ٹال دیتی ہے تاکہ جی ڈی پی کا بہی کھاتہ ٹھیک ٹھاک لگے۔تو یو پی اے حکومت نے ایک لاکھ 44 ہزار کروڑ کا تیل بانڈ نہیں چکایا۔ جس کو این ڈی اے نے بھرا۔ کیا این ڈی اے ایسا نہیں کرتی ہے؟مودی حکومت نے بھی کھاد سبسیڈی اور انڈین فوڈ کارپوریشن اور دیگر کو ایک لاکھ کروڑ سے کچھ کا بانڈ جاری کیا جس کی ادائیگی اگلےسال پر ٹال دیا۔
دسمبر 2017 کے کیگ رپورٹ کے مطابق 17-2016 میں مودی حکومت نے 103331 کروڑ روپے کی سبسیڈی پیمنٹ ٹال دیا تھا۔ یہی الزام مودی حکومت یو پی اے پر لگا رہی ہے۔جبکہ وہ خود بھی ایسا کر رہی ہے۔ اس ایک لاکھ کروڑ کی پیمنٹ ٹال دینے سے جی ڈی پی میں مالی نقصان تقریباً0.06 فیصد کم دکھےگا۔آپ کو لگےگا کہ مالی نقصان قابو میں ہے۔اب یہ سب تو ہندی اخباروں میں چھپےگا نہیں۔ چینلوں میں دکھےگا نہیں۔ فیس بک بھی رفتار دھیمی کر دیتا ہے تو کروڑوں لوگوں تک یہ باتیں کیسے پہنچیںگی۔ صرف وزیر کا بیان پہنچ رہا ہے جیسے کوئی دعا ہو۔
(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر