جن اخبارات کے ویب ایڈیشن یونی کوڈ اردو میں نہیں بلکہ تصویری شکل میں ہوتے ہیں ان کی بڑی قباحت یہ ہے کہ اس طرز کے اخبارات میں کوئی لفظ یا فقرہ تلاش نہیں کیا جا سکتا۔
اخبار کے مطالعے سے دلچسپی رکھنے والے اردو داں قارئین کو دو ڈھائی عشرہ قبل کا وہ رواج یاد ہوگا جب اخبار کے دفتر کی باہری دیوار پر تازہ شمارے کا ہر صفحہ ان شائقین کے مطالعے کے لیے چسپاں کیا جاتا تھا جو اخبار خرید کر پڑھنے سے قاصر ہوں۔ بالخصوص اس دور میں فلم بین طبقہ شام کے وقت سینما کے اشتہار ملاحظہ کرنے جمع ہوتا تھا کہ کون سی فلم کس تھیٹر میں دیکھی جا سکتی ہے؟
نامور مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے تو اپنا ایک مزاحیہ مضمون اسی موضوع پر تحریر کیا تھا کہ کس طرح انواع اقسام کے شائقین اتوار کی صبح “دیوارِ سیاست” (روزنامہ سیاست حیدرآباد کے دفتر کی دیوار) کے سائے تلے اخبار کے مطالعے کی تشنگی کو دور کرنے حاضری لگاتے تھے۔
زمانہ گو بدل گیا ہو مگر یہ روایت آج بھی نہیں بدلی۔
آج البتہ زمانے کے حساب سے طریقہ کار کچھ مختلف ہو گیا ہے۔ آج سائبر اسپیس کے غیر مرئی خلا میں اپنے ‘ڈومین’ مکان کی دیواروں پر اخباری صفحات چسپاں کیے جاتے ہیں!
انٹرنیٹ پر اخبار کی اپنی انفرادی شناخت اور گلوبل صارفین و قارئین تک رسائی کی خاطر آج کل تقریباً ہر اردو اخبار نے اپنی ویب سائٹ قائم کر رکھی ہے۔ پرنٹ اخبار اور ای-اخبار میں بنیادی فرق یہی ہے کہ پرنٹ اخبار کے تازہ شمارے کی رسائی کسی علاقے یا شہر یا ملک تک محدود ہوتی ہے جبکہ ای-اخبار جیسے ہی نیٹ پر نمودار ہوگا بس اسی لمحے وہ دنیا بھر کے قارئین کے مطالعے کے لیے دستیاب ہو جائے گا۔
جن اخبارات کے ویب ایڈیشن یونی کوڈ اردو میں نہیں بلکہ تصویری شکل میں ہوتے ہیں ان کی بڑی قباحت یہ ہے کہ اس طرز کے اخبارات میں کوئی لفظ یا فقرہ تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ صرف ایک خبر کی امیج ہی اتنے حجم کی ہوتی ہے کہ اس حجم میں یونی کوڈ کی کوئی دس تا پندرہ خبریں شائع ہو سکتی ہیں۔
اسی حجم کے مسئلے کے سبب اردو کے یہ تصویری اخبارات زیادہ دن کا مواد اپنی ویب سائیٹ پر محفوظ رکھنے سے قاصر ہیں۔ جبکہ دور حاضر کا تقاضا ہے کہ قاری کو اس کی تلاش پر نہ صرف گذشتہ دن کی خبر بلکہ کئی ماہ یا کئی سال پرانی خبر بھی ملنا چاہیے۔
موجودہ عالمی تکنیکی معیار کے مطابق انٹرنیٹ کا آج کا قاری (یا صارف) کسی بھی اخباری ویب سائٹ پر جو بنیادی سہولتیں چاہتا ہے ، وہ کچھ یوں ہیں؛
- ویب سائٹ پر کوئی بھی لفظ بآسانی تلاش کیا جا سکے اور تلاش کے نتیجے کے ذریعے قاری کو علم ہو سکے کہ تلاش شدہ لفظ کس خبر یا کس مصنف کے مضمون میں شامل ہے؟
- ہر خبر یا مضمون کو یا اس کے کسی حصہ کو کاپی / پیسٹ کرنے کے علاوہ علیحدہ سے پرنٹ کیا جا سکے۔
- ہر تحریر ایک انفرادی صفحہ کے ربط (link) کی شکل میں میسر ہو تاکہ یہ ربط قاری اپنے دوست احباب کو فارورڈ کر سکے یا فیس بک، ٹوئٹر، گوگل بز جیسی سوشل نیٹ ورکنگ سائیٹس پر شیئر کر سکے۔
- قاری کو اخبار کی ہر خبر یا مضمون پر تبصرہ کرنے کی سہولت حاصل ہو جو کہ متعلقہ تحریر کے نیچے شائع ہو۔
- کسی مصنف یا موضوع سے متعلق، محدود یا لامحدود زمانے پر مشتمل، تمام تحاریر یا تخلیقات کا ریکارڈ بشکل فہرست ملاحظہ کیا جا سکے۔
اپنے پچھلے مضمون “ہندوستانی اردو ویب سائٹس: کیا کہتے ہیں اعداد و شمار؟” کو تحریر کرتے ہوئے خیال گزرا کہ ہم چاہے ناقابل تلاش متن کی شکایت کریں مگر “تصویری اخبارات” کی بھی اپنی اہمیت قائم ہے۔ اسی ذیل کے چند اہم نکات ملاحظہ فرمائیں ؛
الف) اخبار کا کاغذ بوسیدہ ہو کر تباہ ہو سکتا ہے مگر اخبار کی ڈیجیٹل کاپی (امیج یا پی۔ڈی۔ایف شکل میں) محفوظ رکھی جا سکتی ہے۔
ب) اخبار کی ڈیجیٹل کاپی محققین کے لیے مستند حوالہ شمار ہوگی۔ کیونکہ آن لائن یونی کوڈ اخبار کے مواد میں ہر دم تبدیلی ممکن ہے۔ جبکہ کاغذی شکل کے اخبار کی ڈیجیٹل کاپی میں رد و بدل کا امکان نہیں۔
ج) کاغذی اخبار کی ڈیجیٹل کاپی اپنی لمبی زندگی کے سبب بعد کے ادوار میں ان محققین و مورخین کی مدد کا باعث بن سکتی ہے جو کسی مخصوص علاقے یا معاشرہ یا حالات کا کسی طےشدہ زمانے کے تناظر میں ریسرچ کر رہے ہوں۔
یہ واضح رہے کہ یہاں صرف ان ہندوستانی اخبارات کی فہرست پیش ہے، جو کاغذی شکل میں بہ پابندی شائع ہوتے ہیں اور اپنی ویب سائٹ پر یہی اخبار تصویری [image] یا پی۔ڈی۔ایف [pdf] شکل میں چسپاں کیے جاتے ہیں۔
اس فہرست میں درج ذیل اردو اخباری ویب سائٹ شامل نہیں؛
- جو کاغذی شکل میں شائع ہوتے ہیں، تصویری شکل میں اپنی ویب سائٹ پر چسپاں بھی ہوتے ہیں مگر ان کی متذکرہ ویب سائٹ یونی کوڈ اردو میں بھی موجود ہو۔ (بطور مثال حیدرآباد سے شائع ہونے والے اخبار: روزنامہ سیاست، اعتماد، منصف وغیرہ)
- جو کاغذی شکل میں شائع ہوتے ہیں، مگر خود کی ویب سائٹ نہیں یا ویب سائٹ پر شمارہ بہ پابندی اپلوڈ نہیں ہوتا یا تاحال جن کی ڈومین/ہوسٹنگ ختم ہو چکی ہو۔ (بطور مثال کولکاتا کا روزنامہ “آبشار” جس کا ڈومین ایکسپائر ہو چکا۔ ناندیڑ کا روزنامہ “کامل یقین” جس کی ویب سائٹ موجود نہیں۔ دہلی کا ہفت روزہ “مسرت” جس کی ویب سائٹ تو ہے مگر ای-پیپر اپلوڈ نہیں کیا جاتا۔)
- جو کاغذی شکل میں شائع نہیں ہوتے مگر تحریری (یا تصویری) شکل میں بطور آن لائن نیوز پورٹل معروف ہیں۔ (بطور مثال نیوز-18 ڈاٹ کام ، دی وائر اردو ڈاٹ کام، ساحل آن لائن ڈاٹ نیٹ، تعمیرنیوز ڈاٹ کام وغیرہ)
“اخبار مشرق” روزنامہ، 12 صفحات ، مقام اشاعت: کولکاتا، دہلی، رانچی، بھوپال، لکھنؤ، آسنسول، سلی گوڑی اور سرینگر۔ مدیر: ایم۔ ڈبلیو حق۔
“اردو ٹائمز” روزنامہ، 12 صفحات ، مقام اشاعت: ممبئی۔ مدیر: سعید احمد۔
“الجمیعۃ” ہفت روزہ، 16 صفحات ، مقام اشاعت: نئی دہلی۔ مدیر: محمد سلیم۔
“انقلاب” روزنامہ، 16 صفحات ، مقام اشاعت: ممبئی، دہلی، لکھنؤ، وارانسی، علی گڑھ، بریلی، میرٹھ، آگرہ، گورکھپور، پٹنہ، مظفرپور، بھاگلپور، کانپور اور الہ آباد۔ عبدالحمید انصاری نے 1938 میں اس اخبار کا اجرا کیا تھا، اب یہ “جاگرن” گروپ کی ملکیت ہے۔
“انوارِ قوم” روزنامہ، 8 صفحات ، مقام اشاعت: کانپور، لکھنؤ، فتح پور ، آغاز اشاعت: 1974۔ مدیر: زبیر احمد فاروقی۔
“اورنگ آباد ٹائمز” روزنامہ، 10 تا 12 صفحات ، مقام اشاعت: اورنگ آباد (مہارشٹرا)۔ مدیر: شعیب خسرو۔
“پیغام مادرِ وطن” روزنامہ، 12 صفحات ، مقام اشاعت: دہلی، احمدآباد اور ناگپور۔ مدیر: ایم رحمان عزیز۔
“تسکین” روزنامہ، 8 صفحات ، مقام اشاعت: جموں۔ مدیر: سید مقبول حسین کاظمی۔
“تعمیل ارشاد” روزنامہ، 12 صفحات ، مقام اشاعت: سرینگر۔ مدیر: آکاش امین بھٹ۔
“جدید ان دنوں” روزنامہ، 12 صفحات ، مقام اشاعت: نئی دہلی، جےپور، لکھنؤ، سہارنپور، پٹنہ، ممبئی، بنگلور۔ مدیر: ایس ایم آصف۔
“چٹان” روزنامہ، 8 صفحات ، مقام اشاعت: سرینگر ، آغاز اشاعت: 1985۔ مدیر: طاہر محی الدین۔
“خبریں” روزنامہ، 8 صفحات ، مقام اشاعت: نئی دہلی۔ مدیر: قاسم سید۔
“دعوت” سہ روزہ، 8 صفحات ، مقام اشاعت: ممبئی ، آغاز اشاعت: 1953۔ مدیر: پرواز رحمانی۔
“دورِ جدید” روزنامہ، 8 صفحات ، مقام اشاعت: دہلی، پٹنہ، رانچی۔ مدیر: محمد شہ روز طارق رضا۔
“رابطہ ٹائمز” روزنامہ، 8 صفحات ، مقام اشاعت: دہلی۔ مدیر: محمد اقبال خان۔
“راشٹریہ سہارا” روزنامہ، 12 صفحات ، مقام اشاعت: دہلی، ممبئی، کولکاتا، حیدرآباد، لکھنؤ، بنگلور، پٹنہ ، گورکھپور اور کانپور۔ سہارا انڈیا پریوار کی جانب سے فروری 1999 میں پہلی بار لکھنؤ سے اس روزنامہ کی اشاعت کا آغاز ہوا تھا۔ بعد ازاں دیگر شہروں سے بھی علیحدہ ایڈیشن جاری ہوئے۔۔
“رہبر” ہفت روزہ، 8 صفحات ، مقام اشاعت: سرینگر۔ بانی: غلام محی الدین رہبر ، مدیر: شاہد رہبر۔
“رہنمائے دکن” روزنامہ، 10 صفحات ، مقام اشاعت: حیدرآباد ، آغاز اشاعت: 1921۔ بانی: سید لطیف الدین قادری۔ مدیر: سید وقار الدین۔
“روزنامہ اردو” روزنامہ، 12 صفحات ، مقام اشاعت: لکھنؤ ، گورکھپور۔ ملکیت: پردیپ اوستھی، مدیر: اوشا اوستھی۔
“روشنی” روزنامہ، 8 صفحات ، مقام اشاعت: سرینگر ، آغاز اشاعت: 1943۔ مدیر: ظہور احمد شوریٰ۔
“سائبان” روزنامہ، 12 صفحات ، مقام اشاعت: پٹنہ، بھوپال اور دہلی ، آغاز اشاعت: اکتوبر 2003۔ موسس: عتیق مظفرپوری۔ مدیر: جاوید رحمانی۔
“سنگم” روزنامہ، 8 صفحات ، مقام اشاعت: پٹنہ۔ مدیر: ڈاکٹر ایم۔ اعجاز علی۔
“سیاسی افق” روزنامہ، 8 صفحات ، مقام اشاعت: دہلی اور رانچی۔ مدیر: امتیاز الدین۔
“صحافت” روزنامہ، 8 تا 12 صفحات ، مقام اشاعت: دہلی، لکھنؤ اور ممبئی۔ مدیر: امان عباس۔
“صدائے حسینی” روزنامہ، 12 صفحات ، مقام اشاعت: حیدرآباد اور بنگلور۔ مدیر: سید جعفر حسین۔
“فاروقی تنظیم” روزنامہ، 12 صفحات ، مقام اشاعت: پٹنہ، رانچی، دہلی۔ بیادگار: مولانا فاروق الحسینی ، مدیر: ایم۔ اے۔ ظفر۔
“قومی تنظیم” روزنامہ، 12 صفحات ، مقام اشاعت: پٹنہ، رانچی، لکھنؤ۔ مدیر: ایس۔ ایم۔ اشرف فرید۔
“متاعِ آخرت” روزنامہ، 8 صفحات ، مقام اشاعت: دہلی، بستی، لکھنؤ، کانپور۔ بانی و سرپرست: مفتی عبدالمعز مظاہری۔
“ملاپ” روزنامہ، 8 صفحات ، مقام اشاعت: حیدرآباد، جالندھر اور دہلی ، آغاز اشاعت: 1923۔ موسس: مہاشے خوشحال چاند جی۔ مدیر: نوین سوری۔
“ممبئی اردو نیوز” روزنامہ، 12 صفحات ، مقام اشاعت: ممبئی۔ مدیر: شکیل احمد عبدالرشید خان۔
“ہمارا سماج” روزنامہ، 8 تا 12 صفحات ، مقام اشاعت: دہلی اور پٹنہ۔ مدیر: ڈاکٹر خالد انور۔
“ہند سماچار” روزنامہ، 10 صفحات ، مقام اشاعت: جالندھر، چندی گڑھ، پانی پت، جموں۔ بانی: لالہ جگت نارائن ، مدیر: وجے کمار۔
“ہندوستان” روزنامہ، 4 صفحات ، مقام اشاعت: اورنگ آباد۔ مدیر: نایاب انصاری۔
“ہندوستان ایکسپریس” روزنامہ، 8 صفحات ، مقام اشاعت: دہلی۔ مدیر (پرنٹ): پرویز صھیب احمد ، مدیر (ویب سائٹ): شاہد الاسلام۔
“ھند نیوز” روزنامہ، 12 صفحات ، مقام اشاعت: دہلی، لکھنؤ، ہاپور اور دہرہ دون۔ مدیر: عبدالماجد نظامی۔
ہندوستان کے مختلف شہروں سے شائع ہونے والے اردو اخبارات کو ای پیپر کی شکل میں یہاں پڑھا جاسکتا ہے۔
(مضمون نگار حیدرآباد میں قیام پذیر ہیں اور آن لائن نیوز پورٹل “تعمیرنیوز” کے بانی اور اعزازی مدیر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر