حکومت کی جانب سے دی وائر کی ویب سائٹ کو بلاک اور پھر اَن بلاک کرنے پر ادارے کا بیان
دی وائر ہندوستان اور دنیا بھر میں اپنے قارئین کو صحیح، واضح اور ضروری خبریں، معلومات اور تجزیہ فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
دی وائر ہندوستان اور دنیا بھر میں اپنے قارئین کو صحیح، واضح اور ضروری خبریں، معلومات اور تجزیہ فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
سی پی آئی لیڈر ڈی راجہ نے وزیر اطلاعات و نشریات کو لکھے خط میں کہا ہے کہ دی وائر جیسی ذمہ دار ویب سائٹ کو بلاک کرنا غلط ہے۔ ڈیجیٹل نیوز آرگنائزیشنز کی تنظیم ڈی جی پب نے بھی اس قدم کی مذمت کی ہے۔
نومئی 2025 کو دی وائر کے متعدد قارئین نے اطلاع دی کہ وہ دی وائر کی انگریزی ویب سائٹ دی وائر ڈاٹ اِن کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ اس بارے میں دی وائر کا بیان۔
سوموار کو حیدرآباد میں دی وائر تیلگو ویب سائٹ کا اجرا کیا گیا۔ اس کے پس پردہ خیال یہ ہے کہ ہندوستان نہ صرف ریاستوں بلکہ زبانوں کا بھی وفاقی ڈھانچہ ہے اور تمام زبانوں کے قارئین کو اپنے وقت کی سب سے صحیح خبر ملنی ہی چاہیے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو الیکٹورل بانڈ سے متعلق تفصیلات الیکشن کمیشن کو سونپنے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے درمیان بینک کی ویب سائٹ سے الیکٹورل بانڈ سے متعلق کچھ دستاویز ہٹا دیے گئے ہیں۔ ڈیلیٹ کیے گئے ویب پیج میں عطیہ دہندگان کے لیے رہنما خطوط اور اکثر پوچھے جانے والے سوال یا ایف اے کیو شامل تھے۔
کشمیر میں صحافیوں اور رپورٹنگ کی صورتحال پر بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں وادی کےبعض صحافیوں اور مدیران سے بات چیت کی ہے، جنہوں نے بتایا ہے کہ وہ واقعات کی رپورٹنگ کے حوالے سےحکام کی طرف سے پیدا کیے گئے ‘خوف اور دھمکی’ کے ماحول کی وجہ سے ‘گھٹن’محسوس کر تے رہے ہیں۔
ویڈیو: سری نگر واقع نیوز ویب سائٹ ‘دی کشمیر والا’ کو بلاک کر دیا گیا ہے اور اس کے ٹوئٹر اور فیس بک پیج کو بھی بلاک کیا جا چکا ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد صوبے میں میڈیا کے حالات کیا ہیں، بتا رہے ہیں اجئے کمار۔
آزاد میڈیا آرگنائزیشن ‘دی کشمیر والا’ کے بانی مدیر فہد شاہ دہشت گردی کے الزام میں 18 ماہ سے جموں کی جیل میں بند ہیں، جبکہ اس کے ٹرینی صحافی سجاد گل بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جنوری 2022 سے اتر پردیش کی جیل میں بند ہیں۔ ادارے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کی اس کارروائی کے علاوہ انہیں سری نگر میں اپنے مالک مکان سے دفتر خالی کرنے کا نوٹس بھی ملا ہے۔
جن اخبارات کے ویب ایڈیشن یونی کوڈ اردو میں نہیں بلکہ تصویری شکل میں ہوتے ہیں ان کی بڑی قباحت یہ ہے کہ اس طرز کے اخبارات میں کوئی لفظ یا فقرہ تلاش نہیں کیا جا سکتا۔
آج کل ہندوستان میں یہ مفروضہ عام ہے کہ اردو کی بقا کا دارومدار مدارس اور دینی اداروں اور تنظیموں پر ہے، کیونکہ عربی کے بعد اسی زبان میں مذہبی مواد کی کثرت ہے۔ اس کے باوجود افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ معروف و مقبول دینی جماعتوں کے نیوز پورٹل یا ویب سائٹس اردو یونیکوڈ میں دستیاب نہیں ہیں۔