خبریں

’ایمرجنسی‘اور’آپریشن بلیو اسٹار‘اندرا گاندھی کی سنگین غلطیاں : نٹور سنگھ

اپنی نئی کتاب میں کانگریس کے سینئر رہنما نٹور سنگھ نے لکھا ہے کہ اکثر اندرا گاندھی کو جابر بتایا جاتا ہے۔کبھی کبھار ہی یہ کہا گیا کہ وہ خوبصورت، باوقار اور شاندار انسان کے ساتھ ایک صاحب فکر ،انسانیت پرست اور پڑھنےوالی خاتون تھیں۔

اندرا گاندھی (فوٹو : رائٹرس)

اندرا گاندھی (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی:کانگریس کے سینئررہنما اور سابق وزیر خارجہ کنور نٹور سنگھ کا ماننا ہے کہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1975 میں ایمرجنسی نافذ کرکے اور 1984 میں’  آپریشن بلیو اسٹار’کو انجام دینے کی منظوری دےکر دو سنگین غلطیاں کیں،لیکن ان کے باوجود وہ ایک بڑی  اور طاقت ور وزیر اعظم ،صاحب فکراور انسانیت پرست رہنماتھیں۔

نٹور سنگھ نے سال 1966 سے 1971 تک اندرا گاندھی کے دور وزیر اعظم میں سول سروس کے افسر کے طور پر اپنی خدمات دی۔ وہ 1980 کی دہائی میں کانگریس میں شامل ہو گئے اور راجیو گاندھی کی حکومت میں کابینہ وزیر بنے۔سابق وزیر خارجہ نے اپنی نئی کتابTreasured Epistlesمیں سابق وزیر اعظم کے بارے میں لکھا ہے؛اکثر اندرا گاندھی کو سنگین، چبھنے والی اورجابربتایا جاتا ہے۔ کبھی کبھار ہی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خوبصورت، خیال رکھنے والی، باوقار ،شاندار انسان،صاحب فکر انسانیت پسند اورپڑھنے والی خاتون تھیں۔ ‘

Treasured Epistles

یہ کتاب خطوط کا مجموعہ ہے۔کانگریسی رہنما نے اپنی کتاب میں ان خطوط کو شامل کیا ہے، جو ان کو ان کے دوستوں، معاصر اور شریک کاروں نےان کی غیر ملکی خدمات کے دنوں سے لےکر وزیر خارجہ کے عہدے کے دوران تک لکھیں۔اس کتاب میں اندرا گاندھی، ای ایم فارسٹر، سی۔ راج گوپالاچاری، لارڈ ماؤنٹ بیٹن، جواہرلال نہرو کی دو بہنیں-وجئےلکشمی پنڈت اور کرشنا ہوتھیسنگ، آر کے نارائن، نیرد  سی چودھری، ملک راج آنند اور ہان سوئین کے خطوط کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

نٹور سنگھ کا کہنا ہے کہ ان باوقار لوگوں نے الگ طرح سے ان کی زندگی پر اپنا اثر ڈالا، جس کی وجہ سے دنیا کو دیکھنے کا ان کا نظریہ  وسیع اور ثروت مند ہوا۔1980 میں لوک سبھا انتخاب جیتنے کے بعد اندرا گاندھی نے نٹور سنگھ کو خط لکھا تھا۔اس وقت وہ پاکستان میں ہندوستان کے ہائی کمشنر تھے۔

گاندھی نے خط میں لکھا تھا، ‘اصل مسائل اب شروع ہوئے ہیں۔  لوگوں کو کافی امیدیں ہیں لیکن سیاسی اور اقتصادی طور پر حالات بہت پیچیدہ ہیں۔  Optimistic رہ‌کر میں مدد نہیں کر سکتی اور مجھے کوئی شک نہیں کہ اگر صرف ہمارے رہنما اور لوگ صبر اور رواداری کے ساتھ اگلے کچھ مہینے پتھریلے راستے پر چلیں تو ہم اس کو پار‌کرکے اس جگہ پہنچ جائیں‌گے جہاں سے ایک بار پھر ترقی ممکن ہوگی۔ ‘

اسی طرح کے دوسرے خطوط کے حصے  روپا کی طرف سے شائع اس کتاب میں شامل کئے گئے ہیں۔جیسے-راجگوپالاچاری نے ایک بار نٹور سنگھ کو بتایا تھا کہ انہوں نے ہی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو تقسیم کا مشورہ دیا تھا کیونکہ تقسیم ہی واحد راستہ تھا۔

اسی طرح جب نٹور سنگھ اس بات پر اڑے رہے کہ مہاتما گاندھی تقسیم کے خلاف تھے تو راج گوپالاچاری نے کہا تھا، ‘گاندھی بہت عظیم شخص تھے، لیکن انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس وقت کیا ہو رہا تھا۔  وہ غلط فہمی سے آزاد شخص تھے۔  جب ان کو محسوس ہوا کہ ہم لوگ تقسیم کو لےکر متفق ہیں تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ سب لوگ متفق ہیں تو میں آپ کا ساتھ دوں‌گا۔یہ کہہ‌کر انہوں نے اگلے دن دہلی چھوڑ دیا تھا۔  ‘

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)