ایک پانچ سال کی بچی کے طور پر مجھے دور سے دکھائی دینے والی بس ایک روشنی یاد ہے،جو جلتے ہوئے مسلمانوں سے اٹھ رہی آگ کی لپٹوں کی روشنی تھی۔
میرا نام نسرین حسین ہے۔ میری پیدائش ہندوستان کے مدھیہ پردیش ریاست کے ایک چھوٹے سے شہر کھنڈوا میں ہوئی تھی، جو کہ میرے نانا کا گھر تھا۔ میرے نانا پاس کے رستم پور گاؤں میں کسان تھے۔میرے دادا برہان پور کے ڈاکٹر تھے، جو اپنی فیملی کے ساتھ احمد آباد آ گئے تھے۔ یہی وہ شہر ہے جس کو میری ماں ذکیہ جعفری اپنا گھر کہتی تھیں۔
کسی بھی دوسری فیملی کی ہی طرح میرے والد کی فیملی بھی کام اور پڑھائی کے درمیان جدو جہد کر رہی تھی۔ وہ دو بیڈ روم کے چھوٹے سے گھر میں رہتے ہوئے ہندوؤں اور کچھ مسلمانوں کی ملی جلی کمیونٹی سے گھرے ہوکے خود کو محفوظ محسوس کرتے تھے۔
میرے والد وکالت کی پڑھائی کرتے ہوئے اپنا خرچ چلانے کے لئے ہمارے مقامی موٹرسائیکل مرمتی کی دکان کے مالک کبیر سیٹھ اور ہمارے مقامی کرانہ کی دکان کے مالک لکشمی سیٹھ کے یہاں ان کے حساب-کتاب کو دیکھنے کا کام کرتے تھے۔یہ ایک عام ہندوستانی گرہستی تھی،ایک عام ہندوستانی فیملی تھی۔ سوائے اس کے کہ ہم مسلمان تھے۔
1969 کے فسادات نے تصورسےبالاتر تباہی برپاکی۔ میری امی اس رات کو یاد کرتے ہوئے، جس رات آفت ہم پر ٹوٹ پڑی تھی، کہتی ہیں کہ ان کے پاس شیلف پر رکھی ان کی شادی کی واحد تصویر کو بھی اٹھانے کا وقت نہیں تھا۔جیسےجیسے فسادی بھیڑ گھروں کو جلاتے، لوٹ پاٹ کرتے اور لوگوں کا قتل کرتے ہوئے پاس آتی گئی، میری امی اور والد،میرے دادا-دادی،چچا-چاچی ہمارے اور سیکڑوں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اندھیرے اور انتشار کے درمیان اپنے اور اپنے بچوں کے لئے راستہ تلاش کرتے ہوئے بھاگے۔
ایک پانچ سال کی بچی کے طور پر مجھے دور سے دکھائی دینے والی بس ایک روشنی یاد ہے،جو جلتے ہوئے مسلمانوں سے اٹھ رہی آگ کی لپٹوں کی روشنی تھی، جن میں میرا گھر بھی شامل تھا۔ریل کی پٹریوں کے ساتھ-ساتھ گھنٹوں تک چلنے کے بعد میری فیملی ایک کوئلے سے لدی مال گاڑی پر چڑھ گئی۔
ہمارے ساتھ بڑی تعداد میں جان بچاکر بھاگنے والے اور بھی لوگ تھے۔ان سب کے پاس گھر کے نام پر برائے نام کے سامانوں والا جو گھر تھا، وہ راکھ ہو چکا تھا۔ اس کے بعد احمد آباد میں ملیچھ بن اسٹیڈیم میں پناہ گزین تمبو میں لمبے دنوں اور کھانے کے لئے لمبی قطاروں کی شروعات ہوئی۔
یہاں یہ یاد دلایا جانا چاہیے کہ میری پیدائش کے جمہوری ملک میں، میں کسی قدرتی تباہی کی وجہ سے پناہ گزین چھاؤنی میں نہیں تھی، بلکہ مسلمانوں کے خلاف بڑھتی نفرت کی وجہ سے تھی-نفرت کی سیاست، نفرت کو بھڑکانے والی تقریروں اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)اور وشو ہندو پریشد کی وجہ سے تھی۔
میرے والد اور ان کی طرف کی فیملی سیاست میں کافی فعال تھی۔ میرے دادا اور دادی جان (ہاں میری دادی جان بھی)،میرے والد،چچا اورچاچیاں-وہ تمام انگریزوں کے خلاف ہندوستان چھوڑو تحریک کے دوران جیل گئے تھے۔ان کومظاہرہ اور ریلیوں سے گرفتار کیا گیا تھا۔
1969 کے فسادات کے بعد میرے والد اپنے گھر میں واپس لوٹنے اور اس کی تعمیرنوکے لئے پرعزم تھے اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔ وہ واپس لوٹے اور انہوں نے اپنی فیملی اور پڑوسیوں کے ساتھ ملکراپنے گھر کی تعمیرنو کی۔ کبیر سیٹھ اور راما سیٹھ نے میرے ماں باپ کو اپنی دکان کے پیچھے ایک چھوٹے سے کمرے میں جگہ دی۔
میرے والد کی کوشش سے ہم ایک بار پھر بس گئے اور 1969 کے بعد ہم نے ایک بار پھر ایک نئی زندگی کی شروعات کی۔ ہم جیسےجیسے بڑے ہوتے گئے ہم نے اس علاقے میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ دوستیاں کیں، ہم ساتھ ساتھ اسکول جاتے تھے اور سماجی پروگرام میں ساتھ ساتھ شرکت کرتے تھے۔1983میں میری شادی کے بعد میں امریکہ میں بس گئی۔ میرے بچّے ہر گرمی میرے ماں باپ کے ساتھ احمد آباد میں گزارتے تھے۔
امی ہمیشہ یہ کہا کرتی تھیں کہ ہمارے والد کے عزم اور عطیے میں ملے جرمن کے برتن کے علاوہ ہمیں اور کس چیز کی ضرورت تھی؟عطیے میں ملے ان برتن کو کافی قرینے سے مشکل دنوں کی یاد میں 19، گلبرگ سوسائٹی کے نئے باورچی خانہ میں رکھا گیا تھا، جب تک کہ وہ میرے والد کے ساتھ 2002 میں راکھ میں نہیں بدل گئے۔جی ہاں،میں ہندوستان کے بارے میں، میرے ملک ؛ احمد آباد شہر، میرے گھر کے بارے میں بات کر رہی ہوں۔
میرا ذہن بار بار اس دن کی طرف چلا جاتا ہے اور میں اس لمحے کے بارے میں سوچنے سے خود کو دور رکھنا چاہتی ہوں،جب آر ایس ایس/وشو ہندو پریشد سے جڑی ہوئی یا اس سے ترغیب شدہ تشدد آمیز بھیڑ نے میرے 74 سالہ والد، سابق رکن پارلیامانٹ احسان حسین جعفری کو گھر سے کھینچ لیا تھا۔یہ 28 فروری 2002 کا واقعہ ہے۔
انہوں نے میرے والد کو گھسیٹکر باہر نکالا اور پولیس کچھ فٹ کی دوری پر احاطے کے باہر ایک وین میں تماشائی بنکر بیٹھی رہی، گویا کہ وہ ان کی موت کی تصدیق کا انتظار کر رہی تھی۔ انہوں نے ان کے زندہ رہتے ہوئے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئے۔اور جیسا کہ چشم دید گواہوں کا کہنا ہے انہوں نے آخری چوٹ ان کے سر پر کی۔انہوں نے ان کے سر کو ایک ترشول پر لٹکا دیا اور اس کو ناقابل یقین طریقے سے ‘جئے شری رام،جئے شری کرشن ‘کے نعروں کے ساتھ چاروں طرف گھمایا۔
جس وقت تک انہوں نے ان کے جسم کے حصوں کو جلایا،باقی کے غنڈوں نے بچوں،عورتوں اور آدمیوں کے ساتھ لوٹ پاٹ،ریپ اور قتل کا شکار بنایا۔جلتے ہوئے جسموں کے ساتھ، چھوٹے بچے پانی کے کھلے ٹینک میں کود پڑے۔جوانوں اور بوڑھوں کی ایک پوری کمیونٹی کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو جلاکر راکھ کر دیا گیا۔
یہ اصل میں اسی دن ختم نہیں ہو گیا۔ پورا گجرات جلتا رہا اور اقتدار میں بیٹھے لوگ فسادی گروپوں کو اکسانے کے لئے تقریر کرتے رہے، اخباروں نے حکمراں بی جے پی کی شہ پر فرضی خبریں پھیلائیں۔
احمد آباد کا گلبرگ سوسائٹی اور نرودا پاٹیا سے لےکر گجرات بھر کے گاؤوں تک ٹرکوں میں بھر بھر کر لاشوں کو گہرے کوئیں میں دفن کر دیا گیا تاکہ ثبوتوں کو مٹایا جا سکے۔اوپر اور نیچے کے تمام خداؤں، گھروں اور دلوں نے خاموشی اوڑھ لی۔
جس وقت گجرات جل رہا تھا اور عورتیں اور بچّے مدد کی دہائی لگاتے ہوئے سڑکوں پر بھاگ رہے تھے، اس وقت پولیس کے اعلیٰ افسروں نے کہا،؛ہمارے پاس آپ کو بچانے کا حکم نہیں ہے۔ ‘بی جے پی حکومت ریاست میں 2002 میں دن دہاڑے جو ہوا اس کی تصدیق ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں کی۔
یہ ناقابل یقین ہے۔لیکن ایسا ہندوستان بھر میں ہوتا ہے۔ سیاست اور اقتدار کے لئے ہم اتنے نیچے گر گئے۔ اتنے نیچے کہ ہم نے اپنے سماج کے ایک حصے کے ساتھ جو کیا، اس کے لئے ہمارے اپنے بچّے ہمیں پہچاننے سے انکار کر دیںگے۔میرے والد ایک وکیل ایک سیاستداں اور ایک شاعر تھے۔اپنی کتاب قندیل میں انہوں نے ہندوستان کے بارے میں لکھا :
ہر دل میں محبت کی اخوت کی لگن ہے
یہ میرا وطن میرا وطن میرا وطن ہے
سیاست نفرت کا کھیل ہے۔ الیکشن ہندومسلمان کے نام پر نفرت پھیلاکر لڑے جاتے ہیں۔یہ رکنا چاہیے۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ ہمارے معماروں نے ایک خوبصورت آئین بنایا۔اس کو ہمیں زندگی میں اتارنا چاہیے۔
(نسرین حسین ذکیہ جعفری اور احسان جعفری کی بیٹی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر