ایک حساس پڑوسی کے برعکس ہندوستان نے اس خطے میں اپنے آپ کو ایک غیر متوازن پاور کے روپ میں پیش کیا ہے۔پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی نیت سے ہندوستان جنوبی ایشیا ئی تعاون تنظیم سارک میں ایک ذیلی گروپ بنانے کی پلاننگ میں مصروف ہے۔
نومبر 2014 کو کاٹھمنڈو میں سارک سربراہ کانفرنس اور بعد میں بنگلہ دیش کے دورہ کے موقعہ پر وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ان کے انتخابی نعرےسب کا ساتھ ، سب کا وکاس کا اطلاق پڑوسی ممالک پر بھی ہوتا ہے۔ یعنی ہندوستان کی ترقی و خوشحالی میں وہ پورے جنوبی ایشیا ء کو شامل کروانا چاہتے ہیں۔ مگر پچھلے ساڑھے چار سالوں کی ہندوستانی خارجہ اور سیکورٹی پالیسی نیز حقائق و واقعات کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک حساس پڑوسی کے برعکس ہندوستان نے اس خطے میں اپنے آپ کو ایک غیر متوازن پاور کے روپ میں پیش کیا ہے۔
گو کہ یہ نئی پالیسی نہیں ہے، مگر مودی حکومت کے دوران اس کو ایک نئی جہت اور طاقت ملی ہے۔ مالدیپ سے لیکر سری لنکا و نیپال حتیٰ کہ بھوٹان بھی ایک جمہوری اور سیکولر پڑوسی ہندوستان سے اس درجہ خائف ہیں ہے کہ تعلقات کے سلسلے میں چین کے ساتھ زیادہ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ابھی حال ہی میں نیپال نے ہندوستان میں ہورہی سات ملکی خلیج بنگال تعاون کونسل کی جنگی مشقوں سے آخری وقت شرکت کرنے سے معذوری ظاہر کی، جوہندوستانی وزارت خارجہ کیلئے ایک بڑا دھچکا ہے، کیونکہ دس دن قبل ہی وزیر اعظم مودی نے کاٹھمندو میں خلیج بنگال سربراہ کانفرنس میں شرکت کی تھی اور اس کی کامیابی کا خاصا ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا۔
اب جو خبریں چھن چھن کر باہر آرہی ہیں، لگتا ہے کہ نیپالی وزیر اعظم کے پی اولی کے کہنے پر نیپال نے بطور احتجاج اپنے آپ کو ان مشقوں سے الگ کر دیا۔ کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ نئی دہلی کاٹھمندو میں تختہ پلٹنے کی تیاریا ں کر وارہا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے مقابل نیپال کمیونسٹ پارٹی کے چیرمین پشپ کمار دھل المعروف پراچنڈہ کو تاج پہنانے کی سعی کر رہا ہے۔ جس وقت نیپال نے یہ فیصلہ کیا، تو پراچنڈہ اس وقت ہندوستان کے دورے پر تھے اور وزیر اعظم مودی سے ہم کلام تھے۔ پراچنڈہ کا نئی دہلی میں ایک سربراہ مملکت کی طرح استقبال کیا گیا۔
مودی نے ان کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک تبادلہ خیال کیا۔ اپنے تین روزہ دورے کے دوران وہ وزیر خارجہ سشما سوراج، وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کے علاوہ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ سے بھی ملے۔نیپال میں ہندوستان کیلئے ترپ کا پتہ روایتی طور پر نیپالی کانگریس ہوتی تھی، مگر چونکہ یہ پارٹی عوامی منڈیٹ سے محروم ہوگئی ہے اسلئے اب کمیونسٹ پارٹی کے اندر پراچنڈہ اور انکے ساتھیوں پر داؤ لگانے اور اندرونی اختلافات کو ہوا دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کیونکہ کے پی اولی کو ہندوستان مخالف اور چین کے نزدیک سمجھا جاتا ہے۔
2016میں اولی نے سرحد بند کرنے اور خوراک و دیگر وسائل کی ترسیل روکنے کے ایشو کو لیکر اقوام متحدہ میں ہندوستان کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ افغانستان کی طرح نیپال بھی چاروں طرف خشکی سے گھرا ہو ا Landlocked ملک ہے اور آمد و رفت کیلئے ہندوستان پر منحصر ہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعقات اگر بقائے باہمی، نیک نیتی و سب کا ساتھ اور سب کا وکاس پر مبنی ہوں، تو خطے کیلئے یقیناً عطیہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ مگر جب ہدف پاکستان کو الگ تھلگ کرنا اور چین کے ساتھ تعقات استوار کرنے والے ممالک کو سزا دینا جیسے عنصر خارجہ پالیسی کے جز بنائے جائیں تو خطہ میں عدم استحکام پیدا ہونا یقینی ہے۔
پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی نیت سے ہندوستان جنوبی ایشیا ئی تعاون تنظیم سارک میں ایک ذیلی گروپ بنانے کی پلاننگ میں مصروف ہے اور دوسری طرف سارک کے مقابل خلیج بنگال تعاون تنظیم جس میں بنگلہ دیش، بھوٹان، میانمار، سری لنکا اور تھائی لینڈ شامل ہیں کو بڑھاوا دینے اور مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسکے علاوہ ایران اور افغانستان کے ساتھ ملکر مغربی سرحدوں پر بھی پاکستان کو الگ تھلگ اور ہیجان میں مبتلا کرکے رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
پڑوسی ممالک میں سزا و جز ا کا ایک سلسلہ بھی اب ہندوستان نے شروع کیا ہے۔ 2013میں بھوٹان کے وزیر اعظم جگمے تھنلے کی حکومت کو ہرانے میں ہندوستان کی خفیہ ایجنسیوں نے مبینہ طور پر کلیدی رول ادا کیا۔ کیونکہ وہ چین کے ساتھ سرحدی تنازعات براہ راست ہمیشہ کیلئے نپٹانا چاہتے تھے۔ انتخابی مہم کے دوران ہندوستان نے پیٹرول، ڈیزل و مٹی کے تین کی ترسیل بھوٹان کو روک دی تھی اور تھنلے کے انتخابات میں ہارنے کے بعد ہی دوبارہ جاری کی گئی۔
2015 کے سری لنکا میں ہوئے انتخابات میں تو مہندرا راجہ پکشے نے الزام لگایا تھا کہ انکو اقتدار سے باہر کروانے میں ہندوستانی ایجنسیوں کا رول ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی پسندیدہ حکومت کو برقرار رکھنے کیلئے مراعات کی سوغات تو جاری ہے ہی، انتخابی عمل کیلئے وزیر اعظم مودی کے صوبہ گجرات میں بنی الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں فراہم کروائی جارہی ہیں۔ خود ہندوستان میں سیاسی جماعتیں ان مشینوں پر اعتراضات درج کرواتی آرہی ہیں اور ان کا الزام ہے کہ ان کی پروگرامنگ کرکے ووٹ حکمران جماعت کو ٹرانسفر کر دئے جاتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات ہے کہ پڑوسی ممالک میں فوجی آپریشن کرکے ان کا کھلے عام اعتراف کرکے انتخابی فائدہ اٹھانے کے فراق میں صورت حال کو پیچیدہ کرایا جا رہا ہے۔ پچھلے سال شمال مشرقی ریاستوں میں سرگرم عسکریت پسندوں کے تعاقب میں میانمار (برما) کی حدود میں ہندوستانی کمانڈو دستوں نےایک آپریشن کیا۔گو کہ اس آپریشن کے تانے بانے میانمار کی حکومت کی خفیہ رضامندی سے ملے ہوئے تھے، اور اس طرح کی کارروائیاں ماضی میں بھی کم و بیش چار بار ہوئی ہیں، مگر جس طرح بیان بازی کا سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ نہ صرف دیگر پڑوسی ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، بلکہ میانمار حکومت کے لیے بھی سب کی اور ناراضگی کا سبب بن گئی۔
فوجی ذرائع کے مطابق یہ طے ہوا تھا کہ ماضی کی طرح میڈیا کو بتایا جائے کہ یہ آپریشن ہندوستانی سرحدی حدود میں ہی ہوئے ، مگر جب فوجی ترجمان وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹرزمیں میڈیا کے سامنے تحریری بیان کی آخری سطریں پڑھ رہا تھا، ہندوستانی وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات راجہ وردھن سنگھ راٹھور نے سوشل میڈیا پرپے درپے ٹوئٹ کرکے اطلاع دی کہ یہ آپریشن میانمار کے سرحدی حدود کے اندر کیے گئے اور یہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کے لیے ایک پیغام ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ”یہ وزیر اعظم کی طرف سے کیا گیا ایک تاریخی فیصلہ تھا۔” بتایا جاتا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے وزیر اعظم نریندر مودی کو مشورہ دیا کہ اس فوجی کارروائی کی تفصیلات عام کردی جائیں اور اس کے لیے انہوں نے ایبٹ آباد (پاکستان) میں ہوئے اس امریکی فوجی آپریشن کی مثال دی، جس میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو نشانہ بنایا گیا۔ امریکی انتظامیہ نے اس آپریشن کی بھر پور تشہیر کی تھی تاکہ دنیا کو باور کرایا جائے کہ اسامہ کی تلاش ختم ہوچکی ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا دونوں آپریشنز کا موازنہ کیا جاسکتا ہے؟ ہندوستانی اسپیشل فورسز کی طرف سے اس طرح کے آپریشنز کوئی نئی بات نہیں لیکن پہلے ان کی تشہیر نہیں کی جاتی تھی۔ قارئین کو یاد ہوگا، فروری 2000ء میں لائن آف کنٹرول کے پار کوٹلی ضلع کے نکیال سیکٹر کے لانجوٹ گاؤں میں ایک رات تقریباً 16 افراد کوتیز دھار ہتھیارو ں سے قتل کیا گیا تھا۔ 90 سالہ بزرگ اور ایک جوان جوڑا زندہ تو بچ گئے تھے، مگر ان کے اعضا جسم سے جدا کردیے گئے تھے۔ قاتلوں نے جائے واردات پر ایک ہندوستانی گھڑی اور ایک پرچہ رکھا تھا جس پر تحریر تھا:”اپنا خون اب کیسا لگ رہا ہے‘‘۔
اگرچہ پاکستان برسوں سے اس قتل عام کا ذمہ دار ہندوستان کی اسپیشل فورسز کو ٹھہراتا آرہا ہے، مگر ہندوستان نے سرکاری طور پر ہمیشہ اس کی تردید کی ہے، مگر غیر سرکاری اور خفیہ اداروں کے ذرائع کے مطابق یہ آپریشن ڈودہ اور راجوری کے اضلاع میں عسکریت پسندوں کی طرف سے اسی عرصے میں ہندو دیہاتیوں کے قتل عام کے جواب میں کیا گیا تھا۔ ہندوستان میں کمانڈو دستوں کے دس الگ ادارے ہیں جن میں فوج اور وزارت داخلہ کے تحت نیشنل سکیورٹی گارڈ کے کمانڈوز کی تعداد 15000 سے زیادہ ہے جنہیں حرب و ضرب کے علاوہ غیر ملکی زبانوں خاص طور پر چینی ، پشتو اور اردو کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے۔
شمالی کشمیرکے دوردراز دیہاتوں میں اکثر رات کو شلوار قمیض میں ملبوس پشتولہجے میں اردو بولنے والے مسلح افراد نمودار ہوتے تھے جو مقامی افراد خانہ سے کھانے کی فرمائش کرتے تھے یا اس گاؤں میں چھپے عسکریت پسندوں سے ملنے کی خواہش ظاہرکرتے تھے۔ لوگ انہیں عسکریت پسند جان کر ان کی فرمائشیں پوری کر دیتے تھے۔ اس کے بعد پورے گاؤں کی شامت آجاتی تھی۔ اگلے دن قریبی ملٹری کیمپ یا اسی گروپ کا قہر اس گاؤں پر نازل ہوجاتا تھا۔ کچھ اسی طرح کے تیور چند ہندوستانی وزیروں نے 1998ء میں دکھائے تھے، جب اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ایٹمی دھماکے کروائے تھے۔
ایک وزیر مدن لال کھرانہ نے کہا تھا کہ پاکستان اب صر ف زمین کا انتخاب کرے،کہاں ہندوستان سے لڑنا چاہتا ہے؟ مگر اس کے نو دن بعد ہی پاکستان نے دھماکے کرکے حساب برابرکردیا تھا۔ اسی لئے حکومت کے اندر بھی چند افسران کا کہنا ہے کہ طاقت کا مظاہرہ کرنا تو ٹھیک بات ہے مگر ”خطے میں شدت پسندی یا علیحدگی تحریکوں کے خاتمے کے لیے آخرکار حکومت کو سفارتی طریقے اختیارکرنا ہوں گے‘‘۔کانگریسی حکومتیں1971ء کے بعد خطے میں ہندوستان کو ایک بارعب پاورکے طور پر منوانے کی کوششوں میں مصروف تھیں مگر یہ بیل کبھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔
اس لیے کسی بھی جنوبی ایشیائی ملک کے ساتھ ہندوستان کے رشتے سدھر نہیں سکے۔ 60 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بنگلہ دیش کے سوا کسی پڑوسی، حتیٰ کہ بھوٹان کے ساتھ بھی سرحدوں کا حتمی تعین بھی نہیں ہوسکا۔ اسی لیے شاید 1977ء میں جب جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تواس وقت کے وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی نے پڑوسی ممالک کے ساتھ اشتراک کی تجویز رکھی مگر اس حکومت کا جلد ہی خاتمہ ہوگیا۔ اس پالیسی کا اعادہ 1996ء میں اندر کمارگجرال نے کیا مگر وہ ایک کمزور حکمران تھے۔
ایک سال بعد واجپائی ایٹمی دھماکہ کرکے کشیدگی کو نقطہ انتہا تک لے گئے، چند ماہ بعد ہی انہیں ادراک ہوگیا کہ ایٹم بم اپنی جگہ مگر اشتراک کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اپنے چھ سالہ دورمیں پارلیامنٹ حملہ اور کارگل کے ہوتے ہوئے بھی وہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کوشاں رہے اور دیگر پڑوسی ممالک کا خوف دور کر کے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ بھارت ایک غیر متوازن پاور نہیں بلکہ ان کی ترقی میں معاون بن سکتا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں کا بنگلہ دیش اور میانمار کے ساتھ اشتراک اور جنوبی ریاست تامل ناڈو کا سری لنکا کے ساتھ اشتراک اسی دور کی پیداوار ہیں اور اسی پالیسی کو من موہن سنگھ نے اپنی کمزوریوں کے باوجود جاری رکھا۔
مگر مودی اب اس گیم کو تبدیل کرکے دوبارہ سابق کانگریسی حکومتوں کی روش پر چل پڑے ہیں، یعنی پڑوسی ممالک کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھا جائے اور پاکستان کے اردگرد حصار قائم کیا جائے۔ حکمران بی جے پی سمجھتی ہے کہ پاکستان کے خلاف عوامی جذبات کو ابھارکراور پاکستان پر تنقید کرکے وہ زیادہ ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔ جوں جوں انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں اس میں اور شدت آتی جائیگی۔ دانشمندی اسی میں ہے کہ زمینی سطح پر ہندوستان کو کوئی ایسا موقعہ نہ دیا جائے جس سے حالات مزید کشیدہ ہوں ، مگر سفارتی ذرائع کا استعمال کرکے دنیا کو باور کرایا جائے کہ ہندوستان کے اقدامات سے جنوبی ایشیاء ایک نئے سنگین خطرے سے دوچار ہورہا ہے اور اسکا خمیازہ دنیا کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر