حقوق انسانی

بٹلہ ہاؤس’انکاؤنٹر‘ : 10 سال بعد بھی سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ عاطف اور ساجد کیسے مارے گئے؟

گزشتہ 10 سالوں میں پولیس کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔یہ ابھی تک ثابت ہونا باقی ہے کہ 13 ستمبر کے بلاسٹ میں ان ملزموں کا ہاتھ تھا،جن  کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

Azamgarh_BH

نئی دہلی: بٹلہ ہاؤس ‘انکاؤنٹر’کے 10 سالوں بعد بھی یہ بنیادی سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ عاطف اور ساجد کیسے مارے گئے تھے؟ یہ کہنا ہے حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والے کارکن  اور جامعہ ٹیچرس سالیڈیریٹی اشوسیشن (JTSA) کی رکن ڈاکٹر منیشا سیٹھی کا۔ڈاکٹر سیٹھی پچھلے 10 سالوں سے اس کیس کو فالو کر رہی ہیں۔ وہ آگے کہتی ہیں؛ ایسا معلوم ہوتا ہے عاطف اور ساجد کی موت کا معاملے  لیگل بلیک ہول میں چلا گیا ہے۔ انہوں دی وائر کو بتایا کہ آج تک اس معاملے میں کوئی انکوائری نہیں ہوئی ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ تو این ایچ آر سی(2008) اور انسپکٹر موہن چند شرما کی موت کے معاملے میں جو فیصلہ (جولائی 2013) کیا تھا ،انہوں نے کہا کہ دونوں ہی ‘تفتیش’ میں عاطف اور ساجدکی موت اور اس سے متعلق سوالات کا جواب نہیں دیا گیا۔

واضح ہو کہ 13 ستمبر 2008 کو دہلی میں سلسلہ وار بم دھماکوں کے بعد 19 ستمبر کی صبح جامعہ نگر کے بٹلہ ہاؤس علاقے میں ایک’انکاؤنٹر’ہوا تھا، جس میں دہلی پولیس نے دو مبینہ دہشت گردوں(عاطف امین اور محمد ساجد ) کو مار گرانے کا دعوٰی کیا تھا۔ اس ‘انکاؤنٹر میں ایک پولیس انسپکٹر بھی شدید طور پر زخمی ہوا تھا، جس کی بعد میں موت ہو گئی۔ ساتھ ہی پولیس نے یہ دعوٰی بھی کیا تھا کہ موقع واردات سے دو لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

اس کے بعد پولیس نے جامعہ نگر، دہلی کے دوسرے علاقوں اور اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ سے تقریباً ایک درجن مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا اور  انڈین مجاہدین نامی ایک دہشت گرد تنظیم سے ان کا تعلق ہونے کا دعوٰی کیا تھا۔ لیکن حقوق انسانی کی تنظیموں اور ملزمین کے رشتے داروں نے پہلے دن سے پولیس کے طریقہ کار اور دعووں کے متعلق سوالات قائم کئے تھے اور پورے معاملے کی جانچ سپریم کورٹ کے ایک سیٹنگ جج کے ذریعے کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔جس کو اس وقت کی مرکزی کانگریس حکومت نے نہیں مانا۔ ملک بھر میں مظاہرے ہوئے۔ ایک بار اعظم گڑھ سے پوری ٹرین بھر کر ہزاروں لوگ دہلی آے، جنتر منتر پر  مظاہرہ کیا پر کچھ نہیں ہوا۔ یہاں تک کے اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل بھی داخل کیا گیا لیکن اس کا نتیجہ بھی صفر ہی رہا۔ اور جانچ کا حکم اس لئے نہیں دیا گیا کیونکہ حکومت کا موقف تھا کہ ایسا کرنے سے پولیس کا مورل ڈاؤن ہو جائے گا۔

پچھلے 10 سالوں میں اس کیس کے حوالے سے پولیس کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔ یہ ابھی تک ثابت ہونا باقی ہے کہ 13 ستمبر کے بلاسٹ ان ملزموں نے ہی انجام دئے تھے جن  کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔ معاملہ دہلی کے اسپیشل کورٹ میں چل رہا ہے، اور وکلاء کا ماننا ہے کہ فیصلہ آنے میں کم از کم 1 سال کا وقت لگے گا۔

اس معاملے میں ملزم ضیاء الرحمن کے وکیل ایڈووکیٹ ایم ایس خان نے دی وائر کو بتایا کہ ہیں  مکمل یقین ہے کہ ہم یہ کیس جیتیں گے کیونکہ اس پورے معاملے میں پولیس کیس میں کوئی دم نہیں ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا آپ نے اپنے مؤکل کے لئے ضمانت پر رہا کرنے کے کہ عرضی دی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کوئی عرضی اس لیے نہیں دی کیونکہ ایسے معاملے میں عام طور پر ضمانت منظور نہیں کی جاتی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے اس معاملہ میں ضیاء کے والد عبدالرحمن کو بھی ملزم بنایا گیا تھا لیکن کورٹ نے ان کے خلاف مقدمے کو خارج کرتے ہوئے باعزت بری کر دیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے فرضی دستاویز بناکر عاطف، ساجد اور اس کے ساتھیوں کو بٹلہ ہاؤس کے اس فلیٹ میں رہنے دیا جہاں ان کا’انکاؤنٹر’ ہوا تھا۔

ایک دوسرے وکیل نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں اپنے مؤکل کے لئے ضمانت کی عرضی دی تھی لیکن وہ منطو نہیں ہوا۔ لہذا، اس معاملے میں گرفتار تمام نوجوان آج بھی جیل میں ہیں۔ اس درمیان کئی ملزموں کے قریبی رشتے داروں کی موت ہو گئی ہے۔  ساتھ ہی ان مقدمات میں لگاتار پیروی میں لگے ہونے کی وجہ سے ملزمین کی فیملیز کو معاشی بدحالی کا  بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔حقوق انسانی کی تنظیم رہائی منچ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ان موتوں کی   وجہ صدمہ ہے۔جانکاروں کا ماننا ہے کہ؛ صدمہ کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ گرفتار نوجوانوں کو ایک سے زیادہ مقدموں میں ملزم بنایا گیا ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مقدمہ میں بری ہو جانے کے باوجود ان کو دوسرے مقدمہ میں جیل میں رہنا پڑےگا،اور جب تک وہ سبھی مقدموں میں بری ہونگے تب تک ان کی زندگی برباد ہو چکی ہوگی۔

Batla_Houses_10th_anniversaryBatlaHouses10thanniversary

دریں اثنا آج لکھنؤ میں رہائی منچ کی جانب سے بٹلہ ہاؤس ‘انکاؤنٹر’ کی 10 ویں برسی کے موقع پر ایک کنونشن کا انعقاد کر رہی ہے۔ رہائی منچ کے جنرل سکریٹری راجیو یادو نے دی وائر کو بتایا کہ؛ اس پروگرام کے دو مقاصد ہیں، پہلا یہ کہ ہم بٹلہ ہاؤس معاملہ کو بھولے نہیں ہیں اور اس معاملے میں انصاف ملنا ابھی بھی باقی ہے۔ دوسرا یہ کہ آج ملک بھر میں سماجی کارکنوں کی گرفتاری ہو رہی، ان میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے بٹلہ ہاؤس کے متاثرین اور اعظم گڑھ کے لوگوں کا مصیبت کے وقت ساتھ دیا تھا۔ ایسے میں اس پروگرام کے ذریعے ہم یہ پیغام بھی دینا چاہیے ہیں کہ ہم ان سماجی کارکنوں کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس موقع پر ‘سازش، صدمہ اور سیاست’ کے عنوان سے ایک رپورٹ بھی ریلیز کیا جائے گا، جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں دہشت گردی سے لڑنے کے نام پر ایک خاص کمیونٹی (مسلمان) کے ساتھ کس طرح کی زیادتی ہوئی ہے۔

راجیو نےیہ بھی کہا کہ؛ ان سب چیزوں کی شروعات کانگریس کے دور اقتدار میں ہوئی تھی  اور وہ کسی بھی طرح سے اس سے اپنا پلا نہیں جھاڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری رائے میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، بھلے ہی آج کانگریس اقتدار میں نہ ہو۔ غور طلب ہے کہ گزشتہ دنوں رہائی منچ کے کچھ سرکردہ ممبران کانگریس پارٹی شامل ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے کچھ حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ کیا رہائی منچ اپنے پرانے موقف پر قائم ہے یا نہیں۔

رہائی منچ کے علاوہ انہی سوالوں کو لیکر آنے والی 26 تاریخ کو JTSA بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک پروگرام منعقد کرنے جا رہی ہے، جس میں نامور وکیل کالن گونجالوس، پرشانت بھوشن اور ایڈووکیٹ ستیش ٹمٹہ اظہار خیال کریں گے۔  اس موقع پر The A to Z of UAPA: A Concerned Citizen’s Guide to Unlawfulness کا اجراء بھی ہوگا۔