ملک میں ارب پتیوں کی تیزی سے بڑھتی تعداد کے درمیان آپ روتے رہیے کہ سیاست کا زوال ہو گیا ہے اور اب وہ سماجی خدمت یا ملک کی خدمت کا ذریعہ نہیں رہی،ان اکثریت والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہوں نے اس حالت کو سماجی و ثقافتی پہچان بھی دلا دی ہے۔
ملک کےایم پی اور ایم ایل اے کے ذریعے حال کے سالوں میں ساری تنقید کو ٹھینگا دکھاکر کر لیا گیا اندھادھند اضافہ (ایم پی کے تناظر میں 6 سالوں میں چارگنا)سے پہلے تک ہم ان کی تنخواہ-بھتہ پر خوب باتیں کیا کرتے تھے۔
زور دےکر کہتے تھے کہ ان کو خود، من مانے طریقے سے ان کو بڑھانے کا حق تو نہیں ہی ہونا چاہیے۔ لیکن اب انہوں نے ‘ کوئی کیا کر لےگا ‘ جیسی ٹھسک سے حزب اور پارٹیوں کی ساری لائنیں توڑکر اس بابت ایسی ‘اتفاق رائے ‘بنا لی ہے کہ اس پر بات کرنے کے لئے کچھ بچا ہی نہیں۔
جس پر کئی منطق داں ہیں کہ بات چلتے ہی کئی ترقی یافتہ ممالک کی مثال دےکر کہنے لگتے ہیں کہ ان ممالک میں ایم پی اور ایم ایل اے کو بہت زیادہ، جبکہ ہمارے ملک میں بہت کم تنخواہ ملتی ہے۔
لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان ممالک کے لوگوں کی اوسط آمدنی کیا ہے، ہم ہندوستانیوں کی آمدنی اس کے مقابلے کہاں ٹھہرتی ہے اور ہمارے عوامی نمائندوں کی تنخواہوں کا ہمارا بدحال گزر-بسر سے کوئی واسطہ ہوگا یا وہ ہمیشہ ‘ غریب عوام کے امیر خادم ‘ ہی بنے رہیںگے؟
اس وقت حزب اقتدار اور حزب مخالف دونوں میں غالباً بی جے پی رکن پارلیامان ورون گاندھی ہی تنخواہ میں اضافہ کے واحد ناقد ہیں۔ لیکن کیا پتا، ان کو بھی معلوم ہے یا نہیں کہ اتر پردیش اسمبلی میں ایک بار ایک ایم ایل اے اپنی جماعت کی تنخواہ میں اضافہ کی مخالفت کرنے کھڑے ہوئے تو باقی ایم ایل اے نے ایک سر میں ڈپٹکر ان کو خاموش کرا دیا تھا۔
یہ کہہکرکہ ‘ آپ کو نہیں لینا اضافی تنخواہ، تو مت لیجئے، مگر ہمارے لینے میں رکاوٹ مت ڈالیے۔ ‘
یہ تب ہے، جب اس بیچ ملک میں ایک ایسی نسل نے بھی ہوش سنبھال لی ہے، جو کہتی ہے کہ سیاہ اور سفید کرنے کے ایسے ہی ‘ حق ‘ ملتے رہیں تو اس کے کئی ‘باصلاحیت’ممبر خزانے سے ایک بھی ٹکا لئے بنا ایم پی اور ایم ایل اے کی ساری’ذمہ داری’نبھانے کو تیار ہیں۔ پھر ان کو اتنی موٹی موٹی تنخواہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟
وہ یہ بھی پوچھتی ہے کہ ان ایم پی اور ایم ایل اے کے رہتے ان کے تو ان کے، ان کے بینکوں کے خستہ حال پرانے کاروبار بھی خاصے تیز کیوں دوڑنے لگتے ہیں؟کیا اس کے پیچھے ان کی اپنی’طاقتوں ‘کے فائدےمند استعمال کا کوئی علادینی نسخہ یا کہ چراغ نہیں ہے؟ ہے تو کل وقتی سیاست کرتے ہوئے بھی وہ اس چراغ کو اتنی اہلیت سے اور دن رات کیسے جلائے رکھتے ہیں؟
ان سوالوں کے برعکس ایسے امیر ایم پی اور ایم ایل اے بھی ہیں، جو سرعام کہتے ہیں کہ ان کو جو تنخواہ ملتی ہے، وہ تو ان کی جیب خرچکے برابر بھی نہیں ہے۔سیاستدانوں کی عیش والی زندگی کی روشنی میں اس کو غلط بھی نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
خاص طور پر جب راجیہ سبھا مکمل طور سے ساہوکاروں کے جلسے میں بدلکر کروڑپتیوں اور ارب پتیوں کے حوالے ہو گئی ہے تو لوک سبھا میں بھی ان کی دو تہائی سے زیادہ اکثریت ہو گئی ہے۔
ملک میں ارب پتیوں کی تیزی سے بڑھتی تعداد کے درمیان روتے رہیے آپ کہ سیاست کا زوال ہو گیا ہے اور اب وہ عوام، سماج یا ملک کی خدمت کا ذریعہ نہیں رہی،ان اکثریت والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہوں نے اس حالت کو سماجی اور ثقافتی پہچان بھی دلا دی ہے۔
تبھی تو اب پنچایت کے نمائندوں کے گھروں کے آگے بھی مہنگی گاڑیاں کھڑی، معاف کیجئےگا، نمائش کی جانے لگی ہیں اور مرکزی سماجی انصاف اور اتھارٹی کے وزیر رام داس اٹھاولے کہتے نہیں شرماتے کہ میں وزیر ہوں، اس لئے مجھے پیٹرول-ڈیزل کے داموں سے فرق نہیں پڑتا۔
اسی لئے ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس(اے ڈی آر)کا وہ سروے بھی کسی کو حیران نہیں کرتا،جس میں ملک بھرکے موجودہ 4086 ایم ایل اے میں سے 3145 کی آمدنی کا ان کے ذریعے حلف نامہ میں دئے تفصیلات کی بنیاد پر تجزیہ کیا گیا ہے۔
سروے کے مطابق ان کی اوسط سالانہ آمدنی 24.59 لاکھ روپے ہے اور کسی کو بھی اس کو عوام کی اوسط آمدنی کے برعکس رکھنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔
اس مطالعے میں شامل 25 فیصد ایم ایل اے نے کاروبار یا کاروبار کرنے کا دعویٰ کر رکھا ہے، جبکہ 24 فیصد نے کھیتی-کسانی کرنے کا۔ کون جانے، ان کے نزدیک زراعت کو آمدنی کا ذریعہ بتانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ زراعت کی آمدنی محصول کے دائرے میں نہیں آتی۔
دھیان دینے والی ایک بات یہ بھی ہے کہ جن 63 فیصد ایم ایل اے نے اپنی تعلیمی صلاحیت گریجویٹ یا اس سے زیادہ بتائی ہے ان کی اوسط آمدنی 20.87 لاکھ روپے ہے اور 5ویں سے 12ویں تک کی تعلیمی صلاحیت رکھنے والے 33 فیصد ایم ایل اے کی اوسط آمدنی 31.03 لاکھ روپے ہے۔
یعنی کم پڑھے لکھے ایم ایل اے کی آمدنی اعلیٰ تعلیم یافتہ ایم ایل اے سے زیادہ ہے۔ ملک میں تعلیم کے فضول ہونے کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے؟
دلچسپ یہ ہےکہ سروے کے یہ سارے تجزیے ایم ایل اے کی اپنی مرضی سے کیا گئے اعلان پر مبنی ہیں، جن کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انہوں نے پریم چند کے ‘ نمک کا داروغہ ‘ منشی ونشی دھر کے والد کی یہ نصیحت بےحد قرینے سے گانٹھ باندھ رکھی ہے کہ ‘عہدے کی طرف دھیان مت دینا، وہ تو پیر کی درگاہ ہے۔ نگاہ چڑھاوے اور چادر پر رکھنا۔ ماہانہ تنخواہ تو چودھویں کا چاند ہے، جو ایک دن دکھائی دیتا ہے اور گھٹتے-گھٹتے غائب ہو جاتا ہے۔ اوپری آمدنی بہتا ہوا ماخذ ہے، جس سے ہمیشہ پیاس بجھتی ہے۔ تنخواہ انسان دیتا ہے اسی سے اس میں اضافہ نہیں ہوتا۔اوپری آمدنی ایشور دیتا ہے اسی سے اس کی برکت ہوتی ہے۔ ‘
اس اوپری آمدنی کا ہی نتیجہ ہے کہ ایم پی اور ایم ایل اے کے کم یا زیادہ تنخواہ کا مدعا پوری طرح غیر مناسب اور پرانی سیاسی اخلاقیات ایک دم سے مٹ چکی ہیں، جبکہ عوامی نمائندوں کی عزت اپنی نچلی سطح پر جا پہنچی ہے۔
ان کی عیش والی زندگی دیکھکر نئی نسل بار بار سوال پوچھتی ہے کہ کیا ملک کی سیاست ہمیشہ سے لوٹ کھسوٹ کا مترادف رہی ہے؟ اس کو ہمیشہ کے لئے ایسی لوٹ-کھسوٹ کے حوالے نہیں کرنا تو ہمیں اس کو یہ بتانا ہی ہوگا کہ نہیں، جو لوگ ایسا کہتے ہیں، وہ صحیح نہیں ہیں اور ہماری جمہوری سیاست کی زیادہ مثال ان کے خلاف ہیں۔
ان مثالوں کے لئے تھوڑا پیچھے جاکر جدید ہندوستان کے معمار پنڈت جواہرلال نہرو سے ہی شروع کریں تو کہا جاتا ہے کہ وہ بےامیر فیملی سے تھے۔ اتنے کہ کئی لوگ ابھی بھی طنزیہ انداز سے کہتے ہیں کہ اس فیملی کے کپڑے بھی پیرس میں دھوئے جاتے تھے! لیکن انہوں نے کس طرح کی طرز زندگی اپنا رکھی تھی، اس کو جاننے کے لئے ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد کی ایک مثال ہی کافی ہوگی۔ نواسے راجیو گاندھی پڑھنے کے لئے انگلینڈ گئے تو ان کو باقاعدہ خرچ بھیجنے کی ذمہ داری پنڈت نہرو پر ہی تھی۔
ایک بار راجیو کو کچھ زیادہ پیسوں کی ضرورت پڑی اور انہوں نے اس بابت بتایا تو ان کو جواب ملا، ‘ تمہاری پریشانی جانکر تکلیف ہوئی۔ میرا یقین کرو، میں جو کچھ تم کو بھیج پا رہا ہوں، وہی میں اپنی تنخواہ سے افورڈ کر سکتا ہوں۔ میری کتابوں کی رائلٹی بھی اب بہت کم ملتی ہے۔ لگتا ہے، اب کم لوگ مجھے پڑھتے ہیں۔ مگر تم وہاں خالی وقت میں کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟ مجھے معلوم ہے کہ دوسرے ممالک سے جانے والے زیادہ تر طالب علم وہاں کام کرتے ہیں۔ اس طرح تم کو بھی سکون ملے گا اور مجھے بھی۔ ‘
اس سیکھکے بعد راجیو گاندھی نے خود کئی معمولی سمجھے جانے والے کام کئے اور اپنا خرچ چلایا۔ کہتے تو یہاں تک ہیں کہ وزیر اعظم رہتے ہوئے اپنی ضعیفی کے باوجود نہرو نے اپنے دفتر کی اوپری منزل کے لئے لفٹ لگوانے سے اس لئے انکار کر دیا تھا کہ ان کو اس پر ہونے والا خرچ بےکار لگتا تھا۔
اس کی منظوری انہوں نے تب دی تھی جب ایک دن ان کو پتا چلا کہ ولّبھ بھائی پٹیل آئے تھے اور نیچے سے ہی ملازمین سے کہہکر چلے گئے کہ میرے گھٹنے سیڑھیاں چڑھنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں ورنہ جواہرلال سے ملتا۔
سردار ولبھ بھائی پٹیل وزیر داخلہ تھے تو ان کا بیٹا دہیابھائی پٹیل نے گجرات سے ایک اخبار نکالا۔ اس میں کچھ اشتہار چھپے اور سردار کو پتا چلا کہ مشتہرین کی منشاء ان کو ‘ خوش ‘ کرکے اپنا کام نکالنے کی ہے تو پہلے تو انہوں نے بیٹے کو اخبار بند کرنے کو کہا، پھر دوسرے اخباروں میں اطلاع چھپوا دی کہ سردار اور ان کے بیٹے میں کوئی تعلق نہیں ہے۔
راجدھانی میں اپنے مکان اور موٹر کار کا خواب تک نہ دیکھنے والے سردار کا اس سبب بیٹے سے تعلق ٹوٹا تو آخری سانس تک ٹوٹا ہی رہا۔ وہ دنیا سے گئے تو ان کے بینک کھاتے میں صرف ایک ہزار تین سو پچانوے روپے تھے۔
گلزاری لال نندا نے، جنہوں نے ملک کے بحران کی گھڑیوں میں کچھ وقت کے لئے وزیر اعظم کے عہدے کی ذمہ داری بھی سنبھالی، کبھی بھی اپنی زندگی کی قدروں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ بھلےہی زندگی بھر کرایے کے معمولی سے مکان میں رہے۔ ایک بار کرایا نہیں دے پائے تو مکان کے مالک نے ان کا سامان باہر پھنکوا دیا تھا۔ بینک میں بھی وہ اپنے پیچھے دو ہزار چار سو چوہتر روپیہ ہی چھوڑ گئے تھے۔
ایسے ہی کانگریس کے ایک بلند خیال اورسادگی پسند رہنما تھے-رفیع احمد قدوائی۔ پیشے سے وکیل تھے پر کبھی وکالت نہیں کی۔ ملک کے آزاد ہونے سے اپنی موت تک وہ مرکز میں وزیر رہے۔ لیکن ان کے نہ رہنے پر ان کی بیوی اور بچوں کو اتر پردیش میں بارابنکی کے اس ٹوٹے-پھوٹے آبائی گھر میں واپس لوٹ جانا پڑا، جہاں دن میں سورج کی روشنی اور رات میں چاند کی شعاعیں کمرے کو روشن کرتی تھیں یعنی اس کا چھجہ تک ٹوٹا ہوا تھا۔ رفیع صاحب اپنی فیملی کو راجدھانی میں ایک گھر بھی نہیں دے گئے تھے، انہوں نے اقدار اور اخلاقیات سے سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔
سینئر کانگریسی رہنما کیلاش ناتھ کاٹجو بنگال کے گورنر تھے تو ان کے بیٹے وشوناتھ کاٹجو کو برٹن کی لال املی کمپنی میں ڈائریکٹر بننے کی تجویز ملی۔ کیلاش ناتھ نے سنا تو بیٹے کو خط لکھا، ‘ مجھے معلوم ہے کہ میرے عہدہ کی وجہ سے تم کو یہ تجویز نہیں مل رہی۔ نہ میں جس ریاست میں گورنر ہوں، وہاں مل رہی ہے۔ ایک والد کے طور پر تم کو اس عہدے کی تجویز ملتا دیکھکر مجھے فخر کا احساس بھی ہو رہا ہے۔ پر ایک کام کرنا۔ جس دن تم یہ عہدہ منظور کرو، مجھے اطلاع دے دینا۔ میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دوںگا۔ ‘
آچاریہ جیبی کرپلانی نے بھی گلزاری لال نندا کی طرح اپنی زندگی کرایے کے ایک کمرے میں ہی کاٹی۔ اتر پردیش کی وزیراعلیٰ رہیں ان کی بیوی سچیتا کرپلانی وزیراعلیٰ تھیں توبھی گھر کے سارے کام خود کرتی تھیں، کیونکہ نوکر رکھنے کی ان کی حیثیت نہیں تھی۔
ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اور لال بہادر شاستری کی ایمانداری اور اخلاقیات کے قصّہ تو آج بھی عام ہیں، لیکن نئی نسل کو یہ بھی جاننا ہی چاہیے کہ دس سال مرکزی وزیر رہے ٹی پی سنگھ بھی اپنے پیچھے صرف 217 روپے ہی چھوڑ گئے تھے۔
نہرو کابینہ میں وزیر عابد علی سائیکل سے ہی پارلیامنٹ آتے جاتے تھے اور ایک وقت ان کے پاس کپڑوں کا دوسرا جوڑا بھی نہیں تھا۔ رات میں لنگی پہنکر کپڑے دھوتے اور سکھاکر اس کو ہی اگلے دن پہنکر پارلیامنٹ جاتے تھے، لیکن انہوں نے لوٹ کھسوٹ کا کوئی ادنیٰ الزام بھی نہیں جھیلا۔
نو بار ایم پی اور ایک بار وزیر داخلہ تک رہے کمیونسٹ رہنما اندرجیت گپت آخر تک ویسٹرن کورٹ کے اپنے چھوٹے سے کمرے میں ہی رہے اور کبھی اپنے لئے کوئی بنگلہ مختص نہیں کرایا۔ ان کی اپنی گاڑی بھی نہیں تھی۔ جہاں بھی جاتے، آٹو رکشے میں بیٹھکریا پیدل جاتے۔ ہیرین مکھرجی بھی نو بار رکن پارلیامان رہے۔ وہ ساری تنخواہ اور بھتہ پارٹی فنڈ میں دے دیتے اور 200 روپے میں مہینے بھر گزارا کرتے تھے۔
سابق آئی اے ایس ایچ وی کامتھ کی کل جائیداد تھی-ایک جھولے میں دو جوڑی کرتا پاجامہ۔ جب تک ایم پی رہے، انہوں نے ویسٹرن کورٹ کے ایک کمرے میں رہائش کی۔
نیشنلسٹ بھوپیندر نارائن منڈل ایم پی رہتے ہوئے بھی سفر کے وقت اپنا سامان خود اپنے کندھے پر اٹھاتے تھے اور بہت ضروری ہونے پر بھی کسی اور کو اٹھانے نہیں دیتے تھے۔ انتخابی حلقے میں بیل گاڑی سے دورے کرتے تھے۔ شیوشنکر یادو 1971 میں اندرا لہر میں مشترکہ سوشلسٹ پارٹی کے کل فاتح تین امیدواروں میں سے ایک تھے، مگر 1977 کی عوامی لہر میں ٹکٹ لینے سے انہوں نے اس لئے انکار کر دیا تھا کہ جب وہ ایم پی تھے تو کئی لوگ ان سے غلط کاموں کی پیروی کرنے کو کہتے تھے۔ موت کے وقت ان کے پاس صرف سات روپے تھے۔
مزے کی بات یہ کہ غلامی کے دنوں میں انگریزوں سے دو-دو ہاتھ اور آزادی کے بعد ملک کی تعمیر میں لگے رہے ان رہنماؤں میں سے کسی نے بھی کبھی کسی پریشانی کی شکایت نہیں کی۔ نہ ہی اپنے لئے کبھی کسی سے کچھ مانگا۔
افسوس کی بات ہے کہ آج کی زوال پذیر سیاست میں وہ شاید ہی کسی کے رول ماڈل رہ گئے ہیں۔ اسی لئے ہماری کم سے کم میں اسٹریم کی سیاست ملک کی آزادی کے وقت برٹش قانون سازمجلس میں حزب مخالف کے رہنما ونسٹن چرچل کی اس ‘ پیشین گوئی ‘ کو صحیح ثابت کرنے لگی ہے کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہندوستان بہت تیزی سے صدیوں پہلے کی غارت گری اور عہد وسطیٰ کی لوٹ-کھسوٹکے دور میں واپس چلا جائےگا کیونکہ ہندوستانی رہنماؤں کی جو نسل ہم سے لڑ رہی ہے، یہ ختم ہوگی تو ہندوستانی پھر اپنے ‘اصلی رنگ ‘ میں آ جائیںگے۔
(کرشن پرتاپ سنگھ آزاد صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر