سپریم کورٹ نے کہا کہ سرو شکشا ابھیان اور بچوں کے ایڈمیشن جیسی چیزوں کے لئے آدھار ضروری نہیں ہے۔ کورٹ نے کہا کہ کوئی بھی پرائیویٹ کمپنی آدھار کی مانگ نہیں کر سکتی ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو اپنے فیصلے میں مرکز کی اسکیم آدھار کو آئینی طور سے درست بتایا ہے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے بدھ کو اپنے فیصلے میں کہا کہ بہترین ہونے کے مقابلے میں انوکھا ہونا بہتر ہے۔ آدھار پر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس اے کے سیکری، چیف جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس اے ایم کھانولکر کی طرف سے لکھے گئے فیصلے میں کورٹ نے کہا کہ موبائل اور بینک اکاؤنٹ کو آدھار سے لنک کرنا غیر آئینی ہے، اس لئے اس کو ہٹایا جاتا ہے۔
کورٹ نے کہا کہ سرو شکشا ابھیان اور بچوں کے ایڈمیشن جیسی چیزوں کے لئے آدھار ضروری نہیں ہے۔ کورٹ نے کہا کہ کوئی بھی پرائیویٹ کمپنی آدھار کی مانگ نہیں کر سکتی ہے۔ سی بی ایس ای اور نیٹ(این ای ٹی ) جیسے داخلہ امتحان کے لئے آدھار ضروری نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بچوں کے ماں باپ کی اجازت لےکر ہی داخلہ کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ اےکے سیکری نے یہ بھی کہا کہ آدھار بل کو منی بل کی طرح پاس کیا جا سکتا تھا۔
کورٹ نے آدھار بل کے آرٹیکل 47 کو بھی ختم کر دیا جس میں لکھا گیا ہے کہ ‘ کسی بھی کام کے لئے۔ ‘ کورٹ نے کہا کہ یہ قانون نہیں ہے۔ کورٹ نے کہا کہ آدھار کے خلاف درخواست گزاروں کے الزام آئینی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی ہے، جن کی وجہ سے ملک سرکاری نگرانی والی ریاست میں بدل جائےگا۔ کورٹ نے کہا کہ آدھار کے لئے یو آئی ڈی اے آئی نے منیمم ڈیموگرافک اور بایومٹرک اعداد و شمار اکٹھا کیا ہے۔ بنچ نے کہا کہ آدھار سماج کے محروم طبقے کو مضبوط بناتا ہے اور ان کو پہچان دیتا ہے۔
جسٹس اے کے سیکری نے فیصلے میں کہا، ‘ ڈپلی کیٹ آدھار کارڈ حاصل کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ‘ انہوں نے کہا کہ فیصلے میں انسان کو عزت دینے کے خیال کو توسیع دی گئی ہے۔ جسٹس سیکری نے کہا کہ آدھار اسکیم کی تصدیق کے لئے کافی سکیورٹی سسٹم ہے۔ جتنی جلدی ممکن ہو اعداد و شمار کی حفاظت کے لئے مضبوط نظام بنایا جائے۔ بنچ نے نجی کمپنیوں کو آدھار کے اعداد و شمار جمع کرنے کی اجازت دینے والے آدھار قانون کے اہتمام 57 کو رد کر دیا ہے۔
کورٹ نے کہا کہ سی بی ایس ای، نیٹ، یو جی سی آدھار کو ضروری نہیں کر سکتے ہیں اور اسکولوں میں داخلہ کے لئے بھی یہ ضروری نہیں ہے۔ بنچ نے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ غیر قانونی مہاجرین کو آدھار نمبر نہ دیں۔ جسٹس سیکری نے کہا، کسی بھی بچے کو آدھار نمبر نہ ہونے کی وجہ سے فائدہ / سہولیات سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے لوک سبھا میں آدھار بل کو منی بل کے طور پر منظور کرنے کو برقرار رکھا اور کہا کہ آدھار قانون میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو کسی آدمی کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کرتا ہو۔
اس فیصلے کے مطابق آدھار کارڈ / نمبر کو بینک کھاتے سے لنک / جوڑنا ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح ٹیلی کام سروس فراہم کرنے والے صارفین کو اپنے فون سے آدھار نمبر کو لنک کرانے کے لئے نہیں کہہ سکتے ہیں۔ بنچ نے کہا کہ انکم ٹیکس ریٹرن بھرنے اور پین کارڈ بنوانے کے لئے آدھار ضروری ہے۔ آئینی بنچ کے ممبر جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اشوک بھوشن بھی شامل تھے اور ان دونوں ججوں نے اپنے فیصلے الگ الگ لکھے ہیں۔
حالانکہ جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ آدھار غیر آئینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ منی بل کی بنیاد پر آدھار قانون کو پاس کرنا غیر آئینی ہے۔ ایک ایسے بل کو منی بل کے طور پر منظور کرنا جو کہ منی بل کی صورت میں نہیں ہے، یہ آئین کے ساتھ دھوکہ دھڑی ہے۔ جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ مکمل طور سے آدھار پروگرام پرائیویسی کی پوری طرح خلاف ورزی کرتا ہے۔
کورٹ نے کہا کہ آدھار سرکاری اسکیموں کے لیے مانگا جائے گا اور اگر کسی کا بایومیٹرک ڈیٹا فیل کرتا ہے تو اس کو صرف اسی بنیاد پر فائدے سے محروم سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسی حالت میں آدمی سے دوسرے سرٹیفیکٹ کی مانگ کی جا سکتی ہے۔
آدھار پر سپریم کورٹ کا پورا فیصلہ یہاں پڑھیں۔
Aadhaar Judgment by on Scribd
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں