ترنگا لےکر آپ کانوڑ یاترا میں چل سکتے ہیں۔ گنیش وسرجن میں بھی اس کو لہرا سکتے ہیں۔ بد عنوانی مخالف تحریک میں بڑے ڈنڈوں میں باندھکر موٹرسائیکل پر دوڑا سکتے ہیں۔ ترنگا سے آپ مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے والوں کی لاش ڈھک سکتے ہیں، لیکن اس سے آپ اپنی بےپردگی ڈھک نہیں سکتے!
ترنگا کیا کسی کو دھوپ سے بچانے کا کام کر سکتا ہے؟ کیا وہ سکون دہ سایہ بن سکتا ہے؟ جن لوگوں نے ترنگا کا تصور کیا تھا، انہوں نے اس کو اسی طرح دیکھا تھا شاید۔ ترنگے کو دیکھتے ہوئے اطمینان کا احساس ؛کوئی سایہ سر پر ہے۔شاہ رخ نے ترنگے کو اسی طرح دیکھا۔ وہ کام سے لوٹ رہا تھا۔ ہندوستان کا ایک مزدور۔ 15 اگست کا دن گزر چکا تھا۔ یوم آزادی۔ جشن منایا جا چکا تھا، لیکن شاہ رخ اس وقت بھی کام پر تھا۔
بوجھا ڈھوتے ہوئے۔ بیل داری کا کام ریلوے اسٹیشن پر۔ کام سے لوٹتے ہوئے رات ہو چکی تھی۔ پھر بھی اس کی نظر کو سڑک پر ایک رنگ-برنگے کپڑے نے کھینچ ہی لیا، جتنے رنگ نے نہیں اتنا شاید اس کا سائز نے۔اس نے اس کو سڑک سے اٹھایا، پھیلایا اور اس کی آنکھیں چمک گئی ہوںگی تب۔ یہ سائز ٹھیک اس کے گھر کے دروازے کا سائز تھا۔ دروازہ، جو نہیں تھا۔ جگہ تو تھی، دروازہ نہیں۔
گھر کا مطلب پرداداری بھی ہے۔ ورنہ وہ سڑک کا حصہ ہے۔ لیکن بہت سارے گھر ہیں جن کو لکڑی یا لوہے کا دروازہ نصیب نہیں۔ وہ بھی گھر ہی ہیں جو اپنی رازداری پلاسٹک کے پردے سے ڈھکتے ہیں۔ جب ہوا ان کو اڑاتی ہے اینٹوں سے ان کو دباکر روک دیتے ہیں۔یہ ہماری نظر میں’تقریباً گھر’ہے،’تقریباً دروازے ‘والے گھر۔شاہ رخ کو اس کپڑے کو دیکھکر اپنے بغیر دروازے والے گھر کی یادآئی ہو۔ وہ فٹ آتا لگتا ہے دروازے پر۔
کپڑا معمولی نہ تھا۔ ترنگا تھا۔ قومی پرچم، لیکن یوم آزادی کے ڈھلتے ہی جس کے ہاتھ رہا ہوگا، اس کی گرفت ڈھیلی ہو گئی اور یہ پھسل پڑا۔ کون ہوگا جو اس وسعت کو اپنی گرفت سے سرکتے ہوئے بھی بےخبر رہا ہوگا؟یا جان بوجھ کر اس کو اس نے اب بےکار جانکر پھینک دیا ہوگا؟ آخریوم آزادی ختم ہو چکا تھا۔ پھر روز مرہ کے لئے ترنگا کس کام کا؟ وہ متروک پرچم اب ایک کپڑے کا ٹکڑا بھر تھا۔
سڑک پر پڑا رہا۔ اس کے بعد کئی پیر گزرے ہوںگے اس راہ۔ شاید اس کو کچلتے ہوئے بھی۔ لیکن اس کے قریب صرف شاہ رخ کے پیر ہی ٹھٹکے۔ کیا اس کے پیر میں آنکھیں تھیں؟ کن کے پیروں میں آنکھیں ہوتی ہیں؟ہم-آپ سڑک پر نگاہ نہیں ڈالتے، سڑک پر گرے کسی سکے کی امید کی یاد بچپن سے اب دستک دینے نہیں آتی۔ لیکن ہمارے آپ کے علاوہ ڈھیر سارے لوگ ہیں جو پھینک دی گئی چیزوں سے اپنی دنیا سجاتے ہیں۔
ایک پلاسٹک کی بوتل، ایک گھس گئی چپل، ایک ٹوٹا ہوا کھلونا!ان سے بھی گھر بنتا ہے۔شاہ رخ نے سوچا کہ یہ بڑا ترنگا اس کے گھر کو دھوپ اور دھول سے بچائےگا۔ اس نے گھر کے منھ پر اس کو ٹانگا۔ جیسا انداز کیا تھا اس نے ویسے ہی ترنگے نے پورے دروازے کو ڈھک لیا۔ اس گھر کی سب سے بڑی کمی پوری ہوئی۔ ترنگے کے سایہ نے اسے گھر کا درجہ دیا۔
شاہ رخ کو لیکن معلوم نہ تھا کہ اب ترنگے سے سکون نہیں، جنون پیدا کیا جاتا ہے۔ اور یہ کتنا عجیب ہے!جس ترنگے نے ایک فیملی کو، ایک ناخواندہ غریب، اس کی بیوی، دو بچوں اور بوڑھے ماں باپ کو اپنے سایے کے آغوش میں لیا تھا، اسی ترنگے کے ہلنے سے شاہ رخ کے پڑوسیوں کے دل میں نفرت کی لہر اٹھ رہی تھی۔ وہ ترنگا کیا جس کے نیچے ڈنڈا نہ ہو! جو رعب اور ہیبت نہ پیدا کرے!
ترنگا لےکر آپ کانوڑ یاترا میں چل سکتے ہیں۔ گنیش وسرجن میں بھی اس کو لہرا سکتے ہیں۔ بد عنوانی مخالف تحریک میں بڑے ڈنڈوں میں باندھکر موٹرسائیکل پر دوڑا سکتے ہیں۔ ترنگے سے آپ مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے والوں کے مردہ جسم کو ڈھک سکتے ہیں! لیکن اس سے آپ اپنی بےپردگی ڈھک نہیں سکتے!
خاص کر اگر آپ کا نام شاہ رخ ہے! شاہ رخ کو یہ بھی انداز نہ تھا، (حالانکہ وہ مظفرنگر کا رہنے والا ہے)کہ ترنگے کا سایہ ہندوستان میں شاہ رخ نام جیسے والوں کے لئے اب نہیں۔وہ اس کو جھککر سلام بھرکر سکتے ہیں، چوم نہیں سکتے۔ وہ اس کو کورنش بجا سکتے ہیں۔ اس سے ان کی وفاداری ظاہر ہوتی ہے اور مسلمانوں سے وفاداری بھر چاہیے۔ اس سے آگے بڑھکر اگر وہ اپناپن ظاہر کرنے لگے تو قانون اپنا کام کرنے لگتا ہے۔
شاہ رخ کے پڑوسیوں نے اس کے گھر کے سامنے مظاہرہ کیا۔ سوچیے، ایک غریب، ایک کمرےوالے فیملی کے دروازے کے باہر ایک بھیڑ نعرے لگاتی ہوئی-‘ ترنگے کی بے عزتی، نہیں سہے گا ہندوستان!دیش دروہی لوگوں کو جوتے مارو سالوں کو! ‘یہ راشٹروادی بھاشا ہے!اور پھر آئی پولیس۔ شیوسینا کے بہادروں نے ایک’غدار وطن ‘کو گھیر لیا تھا۔ پولیس نے اس کو دھر دبوچا!اور عدالت نے ترنگے کے غلط استعمال کے جرم کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے اس کو حراست میں بھیج دیا۔
شاہ رخ آزاد ہندوستان کی جیل میں رہکر ضمانت پر باہر نکلا ہے۔ ترنگا پولیس اسٹیشن میں پولیس کی حفاظت میں اپنی کھوئی عزت حاصل کرتا ہوا!ہر چیز اپنی جگہ پر۔یہ کون ملک ہے اور یہ کون لوگ ہیں؟ اور ہم کون ہیں؟ اور شاہ رخ کا اس ملک سے کیا رشتہ ہے؟
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر