سماعت کے دوران جسٹس عبدالنذیر نے کہا کہ ؛مسجد اسلام کا جزو لاینفک ہے اس موضوع پر فیصلہ مذہبی عقائد کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہونا چاہیے ،اس پر غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے۔
نئی دہلی : سپریم کورٹ نے مسجدمیں نماز اسلام کا لازمی حصہ ہے یا نہیں کے بارے میں ہائی کورٹ کے 1994 کے فیصلے کو پھر سے غور و فکر کے لیے پانچ رکنی آئینی بنچ کے پاس بھیجنے سے جمعرات کو انکار کر دیا ۔ یہ مدعا ٹائٹل سوٹ تنازعہ کی شنوائی کے دوران اٹھا تھا۔موجودہ وقت میں یہ مدعا اس وقت اٹھا جب چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی سہ رکنی بنچ نے اس معاملے میں 2010کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج دینے والی عرضی پر شنوائی کر رہی تھی ۔ عدالت نے رام جنم بھومی –بابری مسجد زمینی تنازعہ پر اپنے فیصلے میں زمین کو تین حصوں میں بانٹ دیا تھا۔
Ayodhya land dispute case will not be referred to a larger bench: Justice Bhushan on behalf of him and CJI Dipak Misra #SupremeCourt pic.twitter.com/bAQQlOxfcE
— ANI (@ANI) September 27, 2018
عدالت کی سہ رکنی بنچ نے 2:1 کی اکثریت والے فیصلے میں کہا تھا کہ 2.77 ایکڑ زمین کو تین فریقوں سنی وقف بورڈ ،نرموہی اکھاڑہ اور رام للا میں برابر بانٹ دیا جائے۔جسٹس اشوک بھوشن نے اپنی اور چیف جسٹس دیپک مشرا کی جانب سے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ موجودہ معاملے میں 1994 کا فیصلہ معنی نہیں رکھتا کیوں کہ مذکورہ فیصلہ حصول اراضی کے سلسلے میں سنایا گیا تھا۔
Ayodhya matter (Ismail Faruqui case): Justice Ashok Bhushan says there are two opinions – one by Justice Bhushan and CJI Dipak Misra, and second by Justice S Nazeer. #SupremeCourt
— ANI (@ANI) September 27, 2018
حالاں کہ اس بنچ کے تیسرے رکن جسٹس عبدالنذیر اکثریت کے فیصلے سے متفق نہیں تھے ۔سپریم کورٹ کے ستمبر 2010کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں پر اب 29اکتوبر کو شنوائی ہوگی۔سماعت کے دوران جسٹس عبدالنذیر نے کہا کہ ؛مسجد اسلام کا جزو لاینفک ہے اس موضوع پر فیصلہ مذہبی عقائد کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہونا چاہیے ،اس پر غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے۔
سرکار مسجد کی زمین کو اپنے قبضے میں لے سکتی ہے ، اس فیصلے پر از سر نو غور کرنے سے سپریم کورٹ نے انکار کر دیا ۔کورٹ نے کہا کہ ایودھیا زمینی تنازعہ سے یہ معاملہ الگ ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں