گجرات نے شیروں کے تحفظ پر کافی محنت کی ہے، لیکن یہ بھی نظر آتا ہے کہ ان کی کوشش صرف گجرات کے شیروں تک محدود ہے، جبکہ ضرورت ایک قومی نظریے کی ہے۔
ایک ہفتے کے اندر گِر علاقے میں 12 ایشیائی شیروں کی موت ہو گئی۔ اس کے لئے کئی وجہیں دی جا رہی ہیں-شیروں کی آپسی لڑائی، پھیپھڑوں کا انفیکشن پھیلنا اور زہر دینا۔ مختصر اً کہیں تو یہی وہ خطرے ہیں، جن کا سامنا ہندوستان میں شیروں کو کرنا پڑتا ہے۔ پھر بھی، گجرات کے ان شیروں کا معاملہ زیادہ بات چیت میں بنے رہنے والے باگھوں سے الگ ہے۔ آج کی تاریخ میں دنیا میں ایشیائی شیر صرف گرکے اسی علاقے میں پائے جاتے ہیں۔
کبھی ہریانہ، راجستھان اور مدھیہ پردیش جیسے ملک کے کئی علاقوں میں پائے جانے والے یہ تاریخی شیر اب صرف گجرات کے گر میں ہی بچے ہیں۔ ‘ نسل کے لئے بہترین معیار ‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے 2013 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو ایک ‘ ماحولیاتی پالیسی ‘ اپنانے کا حکم دیا جس کے تحت شیروں کو کسی دیگر قدرتی رہائش گاہ میں دوبارہ بسایا جا سکے۔
یہ فیصلہ قومی اور ماحولیاتی دونوں نقطہ نظر سے ہی دوررس تھا : اس میں نہ صرف آنے والی نسلوں کی وراثت کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور نسل کے موروثی مستقبل کو بھی، بلکہ اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ ایشیائی شیروں کا ٹھکانہ نہ صرف گجرات بلکہ ہندوستان ہونا چاہیے۔
کسی چھوٹی جگہ پر کسی آبادی کو محدود رکھنے پر Genetic depressionاور وبا کے خطرے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ گجرات نے شیروں کے تحفظ پر کافی محنت کی ہے، لیکن یہ بھی نظر آتا ہے کہ ان کی کوشش صرف ‘ گجرات کے شیروں’ تک محدود ہے، جبکہ ضرورت ایک قومی نظریے کی ہے۔ ریاستی حکومت کے ذریعے اب ایشیائی شیروں کو ‘ گِرکے شیر ‘ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس معاملے میں ریاستی حکومت کی سوچ ‘ گجراتی غرور ‘ تک محدود ہے۔
اسی لئے وہ اپنی ساری پالیسیوں میں دیگر شیروں کو شامل کرنے یا شیروں کے تحفظ کے لئے زیادہ وسیع سائنسی حکمت عملی اپنانے سے انکار کر رہی ہے۔ ٹھیک اسی وقت پر ہوئی شیروں کی حالیہ موتیں دکھاتی ہیں کہ گِر نیشنل پارک ایک قدرتی رہائش گاہ کی صورت میں شیروں کے لئے کافی نہیں ہے۔گر علاقہ اور ساتھ ہی شہروں میں بھی شیروں کو ہرجگہ دیکھا جا چکا ہے۔ ان کی موت ٹرین سے ٹکرانے سے بھی ہوئی ہے اور کنوئیں میں گرنے سے بھی۔
شیروں کے ہائی وے اور سڑک پار کرتے ویڈیو سامنے آنا عام بات ہو چکی ہے۔ گجرات کے سمندری ساحلوں پر شیروں کو دیکھا گیا ہے، جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ گِر علاقہ اب چھوٹا پڑ گیا ہے۔ انسانوں کے ساتھ یہ ہم آہنگی کب تک چلےگی، کوئی کہہ نہیں سکتا ؛ مزے کے لئے جنگلی شیروں کو پھنسانے جیسی کئی غیر قانونی حرکتیں بھی سامنے آئی ہیں۔
دی وائلڈلائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا اور مدھیہ پردیش جنگل محکمے نے ساتھ ملکر مدھیہ پردیش کے کونو-پالپور Sanctuaryمیں شیروں کی قدرتی رہائش گاہ کے تحفظ پر کام کیا تھا، لیکن دونوں ہی ریاستوں میں بی جے پی حکومت ہونے کے باوجود ہوئی سیاست میں پھنسی یہ sanctuary ابتک شیروں کے انتظار میں ہے۔
ایک ماحولیاتی امید یہ بنتی ہے کہ اگر شیروں کو مدھیہ پردیش لے جایا جاتا ہے، تو یہ آبادی گر میں پھیلنے والی وبا اور بیماریوں سے بچ سکتی ہے، جس سے آخرکار ایک نئے ماحول میں بس رہی آبادی کو موروثی مضبوطی پانے میں مدد ملےگی۔
حالانکہ گجرات کو ابتک کسی بھی طرح کا تحفظ یا قانونی ہدایت نہیں ملی ہیں، لیکن ابھی ہوئی 12 شیروں کی موت کے بعد گرکے شیروں کو لےکر ریاستی حکومت کے محدود نظریے میں تبدیلی آنی چاہیے۔ کسی تاریخی sanctuary کو شیر دینا گجرات کی ہار نہیں ہوگا۔ان کی دیکھ ریکھ کے لئے حامی بھرنا ہی ہوگا۔
Categories: فکر و نظر