ستمبر 2016 میں اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پریکر اور فرانس کے وزیر دفاع کے درمیان رافیل قرار پر دستخط ہوئے تھے، اس کے ٹھیک پہلے وزارت دفاع کے ایک سینئر افسر نے رافیل لڑاکو ہوائی جہازوں کی قیمتوں کو لےکر سوال اٹھائے تھے اور اس کو فائل میں درج کیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کے سشانت سنگھ کی خبر پڑھیے گا۔ ستمبر 2016 میں اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پریکر اور فرانس کے وزیر دفاع کے درمیان رافیل قرار پر دستخط ہوئے تھے، اس کے ٹھیک پہلے وزارت دفاع کے ایک سینئر افسر نے رافیل لڑاکو ہوائی جہازوں کی قیمتوں کو لےکر سوال اٹھائے تھے اور اس کو فائل میں درج کیا تھا۔ یہ افسر کانٹریکٹ نیگوشی ایشن کمیٹی کے ممبر بھی تھے۔ ڈیفنس منسٹری میں ان کا عہدہ جوائنٹ سکریٹری کا تھا۔ ان کا کام تھا کابینہ کی منظوری کے لئے نوٹ تیار کرنا۔
ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ جوائنٹ سکریٹری کے اعتراض کی وجہ سے کابینہ کی منظوری میں وقت لگ گیا۔ ان کے اعتراض کو درکنار کرنے کے بعد ہی قرار پر سمجھوتہ ہوا تھا۔ جب ان سے سینئر درجے کے افسر یعنی ایکویزیشن (خرید-فروخت) کے ڈائریکٹر جنرل نے اس اعتراض کو درکنار کر دیا۔ جوائنٹ سکریٹری اور ایکویزیشن مینجر نے جس فائل پر اپنا اعتراض درج کیا تھا وہ اس وقت سی اے جی کے پاس ہے۔ ہندوستان کے Comptroller and Auditor General of Indiaکے پاس۔
دسمبر کےونٹر سیشن میں سی اے جی اپنی رپورٹ سونپنے والی ہے۔ ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ سی اے جی اپنی رپورٹ میں اعتراض اور اعتراض کو درکنار کرنے کے پورے عمل کو درج کر سکتی ہے۔ رافیل ہوائی جہاز یا کسی بھی دفاعی خرید کے لئے Contract Negotiation Committee (سی این سی) کےایئر فورس چیف تھے۔ فرانس کی ٹیم سے درجنوں بار بات چیت کے بعد آخری قیمت کے نتیجہ پر پہنچا گیا تھا۔ جوائنٹ سکریٹری کی اہم دلیل 36 رافیل ہوائی جہازوں کی بنچ مارک قیمت کو لےکر تھی۔
ان کا کہنا تھا 126 رافیل ہوائی جہازوں کے لئے جو بنچ مارک قیمت طے تھی اس سے کہیں زیادہ 36 رافیل ہوائی جہازوں کے لئے دی جا رہی ہے۔ بنچ مارک مطلب بنیادی قیمت۔ ایک قیمت ہے رافیل کے بنیادی ڈھانچے کی اور دوسری قیمت ہے اس کو حفاظتی ضروریات کے مطابق لیس کرنے کے بعد کی۔ پہلی قیمت کو ہی بنچ مارک قیمت کہتے ہیں۔
یو پی اے کے وقت 126 لڑاکو ہوائی جہازوں کے لئے ٹینڈر نکلا تھا۔ اس کے بعد انڈین ائیر فورس نے 6 ہوائی جہاز کمپنیوں کے ہوائی جہاز کو ٹیسٹ کیا تھا۔ یہ سبھی فائنل راؤنڈ کے لئے چنے گئے تھے۔ رافیل کے ساتھ جرمنی کے یوروفائٹر سے بھی بات چیت چلی تھی۔ اعتراض درج کرانے والے جوائنٹ سکریٹری نے کہا تھا کہ یوروفائٹر تو ٹینڈر میں کوٹ کی گئی قیمت میں 20 فیصد کی چھوٹ بھی دے رہی ہے۔ تو یہ کافی سستا پڑےگا۔ یوروفائٹر نے یہ چھوٹ تب دینے کی پیشکش کی تھی جب مودی حکومت بن چکی تھی۔ جولائی 2014 میں۔
جوائنٹ سکریٹری نے لکھا ہے کہ رافیل سے بھی 20 فیصد کی چھوٹ کی بات ہونی چاہیے کیونکہ اس کا حریف 20 فیصد کم پر جہاز دے رہا ہے۔ رافیل اور یوروفائٹر دونوں میں خاص فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی بہترین لڑاکو ہوائی جہاز مانے جاتے ہیں۔ جوائنٹ سکریٹری کے نوٹ میں یہ بات بھی درج ہے کہ انڈین ایئر فورس کے پاس سکھوئی 30 ہوائی جہازوں کا جو بیڑا ہے اس کی تعمیر ہندوستان ایئرونوٹکس لمیٹڈ کر رہا ہے۔
انڈین ایئر فورس اس پیسے میں زیادہ سکھوئی 30 ہندوستان ائیرونوٹکس لمیٹڈ سے ہی خرید سکتی ہے۔ سکھوئی 30 بھی بہترین لڑاکو ہوائی جہازوں میں ہے اور اس وقت انڈین ایئر فورس کے لڑاکو ہوائی جہازوں کی قیادت کرتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اگست 2016 میں وزیر دفاع منوہر پریکر نے اس نوٹ پر غور کیا تھا۔ اس کے لئے ڈیفنس ایکویزیشن کاؤنسل ہے جس کو ڈی اے سی کہتے ہیں۔ اسی میٹنگ میں 36 رافیل ہوائی جہازوں کی خرید کی منظوری دی گئی تھی اور کابینہ کو تجویز بھیجی گئی تھی۔
اس میٹنگ میں ہی جوائنٹ سکریٹری کے اعتراض کو خارج کیا گیا۔ جوائنٹ سکریٹری ایک مہینے کی چھٹی پر چلے گئے۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں ڈی اے سی نے رافیل ڈیل کو منظوری دے دی۔ صحافی روہنی سنگھ نے ٹویٹ کیا ہے کہ ایکویزیشن کے ڈائریکٹر جنرل اسمتا ناگراج کے ریٹائر ہونے کے بعد حکومت نے احسان چکا دیا۔ ان کو یو پی ایس سی کا ممبر بنا دیا۔ کمال ہے جس نے اعتراض کیا اس کو چھٹی پر اور جس نے سمجھوتہ کیا اس کو ریٹائرمنٹ کے بعد تنخواہ لینے کا جگاڑ۔
اس افسر کے چھٹی پر چلے جانے کے بعد ایک نئے افسر سے کابینہ کے لئے نوٹ تیار کروایا گیا، جس کو ستمبر 2016 کے تیسرے ہفتے میں منظوری دی گئی۔ 23 ستمبر 2016 کو ہندوستان کے وزیر دفاع اور فرانس کے وزیر دفاع کے درمیان 59262 کروڑ کی ڈیل پر دستخط ہوئی ۔ فرانس کے سابق صدر فرانسوا اولاند نے بھی کہا تھا کہ اصل ڈیل 126 کی تھی لیکن ہندوستان میں نئی حکومت بن گئی اور اس نے تجویز کو بدل دیا، جو ہمارے لئے کم دلکش تھی کیونکہ یہ صرف 36 ہوائی جہازوں کے لئے تھی۔
وزیر دفاع نرملا سیتارمن نے کہا تھا کہ ہندوستان کی ہندوستان ایئرونوٹکس لمیٹڈ کمپنی 126 رافیل نہیں بنا سکتی تھی اس لئے انل امبانی کی ریلائنس ڈیفنس کے ساتھ ڈاسسو ایویشن نے قرار کیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ انل امبانی کی نئی-نئی کمپنی 126 ہوائی جہاز نہیں بنا سکتی تھی اس لئے اس کو فائدہ پہنچانے کے لئے 36 ہوائی جہازوں کا قرار کیا گیا؟
نرملا سیتارمن کے بیان میں جھول ہے۔ انھیں نہیں پتا کہ وہ کس بات کی صفائی دے رہی ہیں۔ ہوائی جہاز تو فرانس میں ہی بننا تھا، پھر 126 بھی بن سکتا تھا۔ ڈاسسو کے پاس تو اپنا ہوائی جہاز بنانے کی صلاحیت تھی۔ اس کو کیوں 36 ہوائی جہاز بنانے کے لئے کہا گیا؟ کیا ڈاسسو ایویشن نے کہا تھا کہ ہم 126 ہوائی جہاز نہیں بنا سکتے ہیں۔ آپ 36 ہی لیجئے۔ پوری حکومت ہند امبانی کے بچاؤ میں اتر گئی ہے۔ اس معاملے میں حکومت ہند نے کبھی غلط ثابت نہیں کیا ہے۔ وہ ہمیشہ ہی امبانی کا بچاؤ کرتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ مودی سرکار نہیں، امبانی سرکار ہے۔ اگر امبانی کے لئے ہی حکومت کو کام کرنا ہے تو اگلی بار بی جے پی اپنا نعرہ بدل لے۔ پوسٹروں پر لکھ دے-اب کی بار امبانی سرکار۔ چونکہ امبانی کا بچاؤ کرنا ہے اس لئے پاکستان کو لایا گیا۔ ہندی کے اخباروں اور چینلوں کو مینج کر رافیل ہوائی جہاز ڈیل کو لےکر حکومت غلط فہمی پھیلا رہی ہے۔ عوام تک اصلی بات نہیں پہنچ رہی ہے۔
امبانی کو فائدہ پہنچانے کا الزام لگا تو ایک کارپوریٹ کے لئے وزیر اعظم تک مخالف جماعت کانگریس پر الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان سے گٹھ بندھن ہو گیا ہے۔ پوری بی جے پی پاکستان-پاکستان کر رہی ہے۔ کیا وہ اس لئے کر رہی ہے تاکہ پاکستان-پاکستان کے شور میں راہل گاندھی کا امبانی-امبانی سنائی نہ دے۔ ہندی کا اخبار ایک حکومت کی چمچہ گری میں ہندی کے قارئین کا قتل کر رہے ہیں۔
میری یہ بات یاد رکھیےگا۔ رافیل ڈیل کی ہر خبر کو غور سے پڑھیے۔ دیکھیے اس میں کتنی ڈیٹیل ہے۔ یا صرف پاکستان-پاکستان ہے۔ ہندی کے اخبار ہندی کے قارئین کو لاش میں بدل دینا چاہتے ہیں تاکہ اس کے اوپر حکومت کے جھوٹ کا کفن ڈالا جا سکے۔ رام نام ستیہ ہے۔ رام نام ستیہ ہے۔
(بہ شکریہ رویش کمار فیس بک پیچ)
Categories: فکر و نظر