اپنی شخصی ایمانداری کا حوالہ دےکر وزیر اعظم مودی بڑے سرمایہ داروں سے اپنے قریبی رشتوں کو لےکر ہو رہی تنقید کو نہیں ٹال سکتے۔
گزشتہ ہفتہ فرانس کے سابق صدر کے ذریعے کئے گئے انکشاف کی آنچ سے نریندر مودی کو نقصان پہنچ سکتا ہے، کیونکہ رافیل تنازعہ اب وزیر اعظم کے ساتھ انل امبانی کے رشتے پر مرکوز ہو گیا ہے-ایسا تعلق، جس کی وجہ سے، حزب مخالف کا الزام ہے کہ پبلک سیکٹر کی کہیں زیادہ تجربہ کار ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ(ایچ اے ایل)کی قیمت پر امبانی کی کمپنی کو ڈاسسو کے ساتھ ساجھے داری کا موقع مل سکا۔
تو اب یہ مدعا ‘ ہندوستان میں بننے والے ‘ ایئرکرافٹ کی اضافی قیمتوں کے بارے میں ہو رہی بحث کا نہیں رہا ہے۔اب مدعا لگاتار ہو رہے کرونی ازم کا ہے، جس کا سامنا مودی کو راہل گاندھی کے ‘سوٹ بوٹ کی سرکار’والےطنز کے بعد کرنا پڑ رہا ہے۔اگر یاد ہو تو اس وقت بھی وزیر اعظم نے بہت مدافعتی بیان دیا تھا کہ’میری پالیسیاں لوگوں کی بھلائی کے لئے ہیں، امبانی کے لئے نہیں۔ ‘
لیکن سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم ایک ظاہری بات کو دوہرانے کو مجبور کیوں ہیں؟ کچھ تو اس لئے کہ مودی کے لگاتار خود کو پاک-صاف اور فقیر ہونے کے دعویٰ کے باوجود ان کو اس نظریہ کا لگاتار سامنا کرنا پڑا کہ ان کی بڑے تجارتی گھرانوں سے قربت ہے، جن کے ممبروں کی وفاداری کی مدد سے وہ خود کو اقتدار میں بنائے ہوئے ہیں۔
بے شک یہ سیاسی بد عنوانی کی ایک شکل ہے، جو ہندوستان میں سیاسی فنڈنگ کے لئے کوئی شفاف سسٹم نہ ہونے کے سبب پنپتی ہے۔ایسے میں یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ بی جے پی کو بزنس گھرانوں یا گوتم اڈانی، مکیش امبانی، انل امبانی،اجئے پیرامل،روئیا فیملی جیسوں کے ذریعے چلائے جا رہے نجی اداروں کے ذریعے خریدے گئے کتنے بےنام انتخابی بانڈ مل رہے ہیں۔
اسی تناظر میں مودی کے سامنے ایک اور چیلنج ہے، جہاں ان پر یہ الزام ہے کہ ان کا بڑے کاروباریوں سے قریبی رشتہ ہے۔ سینئر بی جے پی رہنما مرلی منوہر جوشی کی صدارت والی ایک پارلیامانی کمیٹی کے ذریعے اب وزیر اعظم دفتر سے ‘رگھو رام راجن کی فہرست’پر جواب مانگا ہے۔
2015 میں آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن کے ذریعے بھیجی گئی اس فہرست میں ان کاروباریوں کے نام تھے، جنہوں نے بینکوں سے قرض لیا، دھوکہ دھڑی کرکے اس پیسے کو کسی دیگر مقصد میں لگایا اور قرض نہیں چکایا۔راجن نے پی ایم او سے مختلف ایجنسیوں سے اس کی تفتیش کروانے کی درخواست کی تھی کیونکہ بینکوں کے فنڈ کو ادھر ادھر بھیجنے سے متعلق کسی ممکنہ جرم کے معاملے میں جانے کا حق آر بی آئی کو نہیں ہے۔مرلی منوہر جوشی اس معاملے کو قریب سے دیکھ رہے ہیں اور انہوں نے پی ایم او اور متعلقہ وزارتوں سے اس کے دستاویز طلب کئے ہیں۔
ایسا بتایا جا رہا ہے کہ راجن کی فہرست میں شامل کاروباریوں کی قربت حکمرانوں سے ہے۔اس سے صاف ہوتا ہے کہ کیوں مختلف ایجنسیوں کے ذریعے اس کی تفتیش آگے نہیں بڑھی۔اگر کسی معاملے میں ہوئی بھی، تو یہ اسی طرح کے دوستانہ رویے سے ہو رہی ہے، جیسے باقی کئی معاملوں میں چل رہی ہے، جیسی بجلی کمپنیوں کے ذریعے بجلی کے آلات اور کوئلے کی خرید کے لئے کی گئی اوور-انوائسنگ کے معاملے، جن کے سبب 2.7 لاکھ کروڑ روپے کا سب سے بینک بڑا قرض این پی اے میں بدل گیا۔
پارلیامانی کمیٹی حکومت کی طرف سے ہوئی چوک کی وجہ تلاش کرےگی، جن کی وجہ سے محصول دہندگان کو اتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ راجن نے ہمیشہ یہ دلیل دی کہ بینک لون میں ہوئی کسی بھی دھوکہ دھڑی میں پائے جانے پر پروموٹر کا ذاتی سرمایہ سے اس سے ہوئے نقصان کی بھرپائی کی جانی چاہیے، جیسا کہ وجے مالیاکے معاملے میں ہوا۔مودی حکومت کے مالیا کو بینک فنڈ کے غلط استعمال کا پوسٹر بوائے بناکر دیگر بڑی مچھلیوں کو چھوڑ دینے کے پیچھے ایک رجحان نظر آتاہے۔
ایسے میں اگر سیاسی طور پر بات کریں، تو ‘راجن کی فہرست ‘کی پارلیامانی کمیٹی کے ذریعے تفتیش اور رافیل کو لےکر سامنے آ رہے واقعات کو لےکر مودی کو کئی سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔رافیل کو لےکر دی وائر کے ذریعے کچھ وقت پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ یہ تو صاف ہے کہ ڈاسسو اور ایچ اے ایل معاون پروڈکشن کو لےکر اپنے درمیان مسئلہ کو سلجھاکر ایک’ورک-شیئر’سمجھوتہ کر چکے تھے۔وزیر اعظم کے فرانس دورے سے کچھ ہفتوں پہلے کے ایک ویڈیو میں ڈاسسو کے سی ای او ایرک ٹرےپیئر، اپنے پارٹنر ایچ اے ایل کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں،جس سے بھی مودی کے کردار پر سوال اٹھتے ہیں۔
اس سے بھی خراب یہ ہے کہ فرانس کی طرف سے، موجودہ صدر سمیت، دئے گئے کسی بھی بیان میں سابق صدر فرانسوا اولاند کے الزامات کی سیدھی تردید نہیں کی گئی ہے۔سوموار کو فرانس کے ماتحت وزیر خارجہ جیاں بپتست لیموئین کا یہ کہنا کہ ‘اولاند کا بیان فرانس کے مفاد میں نہیں ہے’دکھاتا ہے کہ فرانس حکومت اولاند کے عوامی طور سے بیان دینے سے زیادہ ناراض ہے، نہ کہ اس بات سے کہ ان کے مطابق اولاند نے جو کہا وہ سچ نہیں ہے۔
یہ بات شیشہ کی طرح صاف ہے کہ ریلائنس ڈفینس کو ڈاسسو پر تھوپا گیا۔ اس کی وجہ سے اب تک پراسرار بنے ہوئے ہیں۔ سو بات کی ایک بات یہ ہے کہ سیاسی بد عنوانی کہیں زیادہ منظم اور اخلاقی طور پر مضبوط ہے۔اخلاقی طور پر بےحد کمزور حکومتی نظام میں ذاتی ایمانداری کے دعویٰ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ مودی کو یہ یاد رکھنا چاہیے۔
Categories: فکر و نظر