اب تک ہماری جمہوریت کی تاریخ یہی رہی ہے کہ جس نے بھی اقتدار کے نشےمیں خود کو ووٹر سے بڑا سمجھنے کی حماقت کی،ووٹراس کو اقتدار سے بے دخل کرکے ہی مانے۔صاف ہے کہ ووٹ کی ایسی سیاست سے ووٹر کو نہیں، ان کو ہی ڈر لگتا ہے جو ڈرانے کی سیاست کرتے ہیں۔
اقتدار کی نظر میں ملک اورشہریوں کے دوررس مفادات نچلی سطح پر چلی جائیں اور ان کے رہنماؤں کی سوچ کا دائرہ اس سے اس انتخاب تک سمٹ جائے تو ان کے منہ سے عام طور پر ویسے ہی’پھول’جھڑتے ہیں، جیسے ان دنوں وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ کے منہ سے جھڑ رہے ہیں۔اس لئے کہ تب نہ اپنی بد عنوانی، بد عنوانی لگتی ہے، نہ اپنی سیاست، سیاست۔ نہ خود کے ووٹ کی سیاست میں کوئی برائی دکھتی ہے، نہ اپنے فریب اور جھوٹ میں۔
اس لئے اپنے گریبان میں جھانکے بغیر انہی سب کو لےکر مخالفین پر برسنے میں وہ مزہ آتا ہے کہ پوچھیے مت۔اور بات ہے کہ اس کے باوجود بے دخلی کا گہرا بیٹھا ہوا ڈر جاتا نہیں ہے اور مختلف شکلوں میں اس کااظہار ہوتا رہتا ہے۔بھوپال میں اپنی پارٹی کے کارکنان کے مہاکنبھ میں وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ ڈر ان کے مخالفین کے ووٹ کی سیاست کی دیمک کی شکل میں سامنے آیا، تو انہوں نے کہا کہ ان دیمکوں نے ملک کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور بی جے پی ملک کو ان سے آزاد کرانے کی ذمہ داری نبھائےگی۔
البتہ، جیسی کہ ان کی پرانی عادت ہے، انہوں نے یہ بتانے سے پرہیز کیا کہ کیسے نبھائےگی؟شاید اس ڈر سے کہ لوگ یہ نہ پوچھنے لگیں کہ جس پارٹی کی پوری تاریخ ہی اکثریت کے ووٹ کی سیاست کرنے کی ہے، وہ اس سیاست کو ختم کرنے چلےگی تو کیا خودہی خود کو ڈھیر سارے پریشانیوں میں نہیں الجھا لےگی؟یوں، پوچھنے کی ہی بات ہو تو کوئی یہ بھی پوچھ ہی سکتا ہے کہ جمہوریت میں ووٹ کی نہیں تو اور کس چیز کی سیاست ہوگی؟ اگر یہ سیاست دیمک جیسی ہے تو کیا نوٹوں کی سیاست میں امکان اور مستقبل تلاش کئے جائیںگے؟
اگر نہیں تو جو ووٹ کی سیاست کا دیمک سے موازنے کی کیا تک ہے؟ جمہوریت کی تو بنیاد ہی اسی اصول پر مبنی ہے کہ وہ عوامی نمائندے ہی اقتدار سنبھالیں، جن کو زیادہ ووٹ حاصل ہوں۔سو، ووٹ کی سیاست جمہوری اقتدارکی تبدیلی کا اہم آلہ ہے، جس کے تحت زیادہ ووٹ پانے والوں کو اقتدار سونپی جاتی ہے۔ وزیر اعظم کو یاد ہو تو 2014 میں وہ خود بھی اسی طرح اقتدار میں آئے تھے۔ایسے میں سوال مناسب ہے کہ تب ووٹ کی سیاست سے ان کی تکلیف کا سبب کیا یہ ڈر ہے کہ جن لوگوں نے 2014 میں ان کو ووٹ دیا تھا، اب کسی اور کو ووٹ دےکر ان کو اقتدار سے ہٹا سکتے ہیں؟
اگر ہاں، تو کوئی ان کی مدد نہیں کر سکتا کیونکہ ایسا کرنا ووٹروں کا حق ہے اور وہ بہترجانتے ہیں کہ ووٹ کی سیاست نہ ہو، تو تاناشاہی آ جائےگی اور جو ایک بار اقتدار میں آ جائےگا، من مرضی فیصلہ لےگا، مخالفین پر ظلم کرے گا اور سوال پوچھنے والےکو غدار وطن کہےگا۔دنیا کے کئی ممالک میں اس طرح کے سیاسی چکر چلتے رہے ہیں اور ہمارے ملک میں تو ووٹ کی سیاست کے رہتے ہوئے بھی چل ہی رہے ہیں۔ کئی لوگوں کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔
یہ تو ہمارے رائےووٹروں کی دانش مندی کا نتیجہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں بھلےہی ان کو ذات، مذہب، زبان، ریاست اور علاقہ وغیرہ کی بنیاد پر بانٹکر اپنے-اپنے ووٹ بینک بناتی رہی ہیں،جمہوریت اپنی چال چلتی رہی ہے اور رائےدہندگان نے کسی بھی قسم کی تاناشاہی کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا ہے۔اب تک کی ہماری جمہوریت کی تاریخ تو یہی ہے کہ جس نے بھی اقتدار کے تکبر میں خود کو رائےدہندگان سے بڑا سمجھنے کی حماقت کی، رائےدہندگان اس کو اقتدار سے بےدخل کرکے ہی مانے۔ یہ ثابت کرکے کہ وہ چاہیں تو ووٹ کی سیاست کو دیمک کے بجائے جمہوریت کا سیمنٹ بھی بنا سکتے ہیں۔
صاف ہے کہ ووٹ کی ایسی سیاست سے رائےدہندگان کو نہیں، ان کو ہی ڈر لگتا ہے جو ڈرنے اور ڈرانے کی سیاست کرتے ہیں۔ یہی ثابت کرتے ہوئے بی جے پی صدر امت شاہ دہلی کے پوروانچل مہاکنبھ میں ووٹ کی سیاست کی دیمک کے برعکس گھس پیٹھیوں کی دیمک تلاش کرلائے۔رو میں بہے تو کہہ گئے، ‘کروڑوں کی تعداد میں گھس آئے وہ ۔وہ کھانا کھا رہے ہیں،جو ہمارے غریبوں کو کھانا چاہیے۔وہ نوکریاں بھی لے رہے ہیں، جو بےروزگاروں کو ملنی چاہیے۔ وہ ہمارے ملک میں دھماکہ کراتے ہیں، جس میں بہت سارے لوگ مارے جاتے ہیں۔دیمک کی طرح چاٹ گئے ہیں وہ ملک کو۔ ‘
اپنے اس بیان کو لےکر شاہ تھوڑا بھی ذمہ دار ہوتے، جسے حزب اقتدار کا صدر ہونے کے ناطے ان سے توقع کی جاتی ہے، تو ان کو یہ بھی بتانا ہی چاہیے تھا کہ کروڑوں کی تعداد میں دراندازوں کے گھس آنے کی ان کی جانکاری کا ماخذ کیا ہے؟اگر انہوں نے خود یہ گنتی کرائی ہے تو کس کی طرف سے اور کیا حکومت نے ان کو اس کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے؟ یہ پچھلے چار ساڑھے چار سالوں میں گھس آئے، تب تو نریندر مودی حکومت کی نااہلیت کی نشانی ہے ہی، اس کے پہلے سے موجود ہیں توبھی یہ بتانے کی ذمہ داری اسی پر ہے کہ اپنے اب تک کی مدت میں وہ ان کے خلاف ہاتھ پر ہاتھ تھامے کیوں بیٹھی رہی اور اب انتخابات کے وقت کیوں جاگی ہے؟
پھر کیوں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو اپنی پارٹی کے صدر کی طرح ملک میں دھماکوں میں ان کا ہاتھ ہونے کا پتہ نہیں ہے؟ کیوں ان کی پارٹی صدر کے اس قول کے برعکس، کہ نوکریاں دراندازوں کو چلی جا رہی ہیں، ایک اور مرکزی وزیر نتن گڈکری کہتے ہیں کہ نوکریاں تو ہے ہی نہیں؟کیا اس لئے کہ وہ سب کے سب چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی بہانے ملک میں ہرکوئی ڈرتا رہے-کوئی کروڑوں دراندازوں سے تو نہ جانے کب اکھاڑکر پھینک دئے جانے سے؟ اگر ان کا یہ کہنا سچ ہے کہ حزب مخالف کی طرف سے ان کے سامنے کوئی سنگین چیلنج پیش ہی نہیں کیا جا رہا اور آگے آنے والے انتخابات میں ان کی ایسی جیت ہونے جا رہی ہے، جس کو دیکھکر مخالفین کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیںگی تو وہ لوگوں کو ڈرانے پر کیوں اترے ہوئے ہیں؟
کہیں یہ خوف ان کی بے دخلی کے ڈر کا اظہار تو نہیں ہے؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ٹھیک ہے کہ 2019 کے لوک سبھا اور اس سے پہلے راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کی اسمبلیوں کے انتخابات جیتنا ان سب کے لئے بہت معنی رکھتا ہے،لیکن اس کے لئے بہتر راستہ یہ تھا کہ وہ اپنے ڈرنے-ڈرانے والے مدعوں اور ان سے جڑے تکبر کے پار جاکر ایسی نظریں پیدا کرتے، جن سے دیکھ پاتے کہ ساڑھے چار سالوں کے اقتدار میں ان کی وعدہ خلافیوں نے ملک کے عام لوگوں کا کیا حال بنا ڈالا ہے؟
کیوں ان سے اکتائے لوگ اب یہاں تک کہنے کو مجبور ہو رہے ہیں کہ آپ سے اپنے وعدے کے مطابق اچھے دن نہیں لائے جاتے، تو ہمارے وہ برے دن ہی واپس کر دیجئے، جب پٹرول کی قیمتوں میں اچھال اور روپے میں گراوٹ کو لےکر، اور تو اور، آپ خود بھی بپھرتے گھومتے تھے اور حکومت اتنی بہری نہیں ہوئی تھی۔ایسی نظروں سے وہ یہ بھی دیکھ سکتے تھے کہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں وزیر اعظم کے عہدے کے لئے نریندر مودی کی امیدواری کی حامی رہی مہاراشٹر نونرمان سینا کا بھی اب ان کی حکومت سے موہ بھنگ ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے صدر راج ٹھاکرے کو منموہن حکومت اچھی لگنے لگی ہے۔
وہ کہنے لگے ہیں کہ ملک کے لوگ معیشت کے معاملے میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے علم اور سنجیدگی کی کمی محسوسکر رہے ہیں کیونکہ مودی حکومت ایسے معاملوں پر فیصلے لینے میں بےحد کمزور ثابت ہو رہی ہے۔اس حوالہ سے، وزیر اعظم نریندر مودی الزام لگاتے رہے ہیں کہ کانگریس کو ملک میں اتحادی نہیں مل رہے تو وہ پاکستان میں حامی تلاش رہی ہے، جبکہ یہاں ان کے خاص اتحادی بھی کانگریس کی اس حکومت کو کامپلی مینٹ دے رہے ہیں، جس کو بے دخل کر وہ وزیر اعظم بنے۔
اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ منموہن سنگھ نے اپنے وقت میں ملک کو اقتصادی اصلاحات اور آزادی کے راستے پر اہم ترین بنایا، تو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟انتخاب جیتنے کے لئے ہی صحیح، وزیر اعظم، ان کی حکومت اور پارٹی ان ساری بے اطمینانیوں پر قابو پانے کی ایماندار کوششوں میں لگ جائیں تو ان کا بھی بھلا ہو اور ملک کا بھی۔
(کرشن پرتاپ سنگھ آزاد صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر