گاندھی جی کے قتل میں آر ایس ایس کا ہاتھ ہونے کے معاملے کو عدالتی کارروائی پر چھوڑنا مناسب ہے۔لیکن تاریخ نگاری ان کے قتل کے پیچھے چھپے نظریہ کو پکڑنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
منشی پریم چند کی کہانی پنچ پرمیشور میں جمن شیخ کی خالہ جمن شیخ سے کہتی ہیں-‘بیٹا کیا بگاڑکے ڈر سے ایمان کی بات نہ کہوگے؟ ‘پچھلی کئی دہائیوں سے گاندھی جی کے قتل کے بارے میں ایمان کی جو بات بگاڑکے ڈر سے نہیں کہی جا رہی تھی، راہل گاندھی نے کہہ دی۔اسی سے تلملاکر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کورٹ-کچہری کا سہارا لینا چاہتی ہے کیونکہ گوپال گوڈسے کے لفظوں میں کہیں تو ‘آر ایس ایس نے کوئی(تحریری)تجویز منظور نہیں کی تھی کہ جاؤ اور گاندھی کو مار دو۔ ‘آر ایس ایس جانتی ہے کہ معاملہ پوری طرح سیاسی اور نظریاتی ہے اور آر ایس ایس کو پتا ہے کہ ان مورچوں پر اس کی دلیل بےحد کمزور ہے۔
ہندوستان میں گاندھی جی کے قتل کی پہلی کوشش 25 جون 1934 کو ہوئی تھی جب ان کی کار پر پونے میں بم پھینکا گیا۔ 1944 میں ایک بار پھر پنچ گنی میں تقریباً بیس لڑکے بس میں بھرکر آئے اور دن بھر گاندھی-مخالف نعرے لگاتے رہے۔پھر ان کا رہنما ناتھو رام گوڈسے گاندھی جی پر چھرا لےکر لپکا جس کو وہاں موجود بھلارے گروجی اور منی شنکر پروہت نے دبوچ لیا۔ لیکن ان کی کوئی شکایت پولیس میں درج نہیں کرائی گئی۔
1944 میں ہی گاندھی جی کی وردھا واقع سیواگرام آشرم میں ناتھو رام کے پاس چاقو بر آمد ہوا۔گاندھی جی کے پرسنل سکریٹری پیارےلال اس واقعہ کو لکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ صبح ہی ان کو ضلع کے ایس پی نے اطلاع دی تھی کہ ‘سویم سیوک’سنگین شرارت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سوال معقول ہے کہ یہ’سویم سیوک’کون ہیں جن کا ذکر پیارےلال کر رہے ہیں اور اس وقت ناتھو رام گوڈسے اور ان نام نہاد ‘سویم سیوک’میں بھلا کیا تعلق تھا؟
اس کے بعد 29 جون 1946 کو ممبئی-پونے کے درمیان نریل کے پاس ایک بڑا سا پتھر رکھکر گاندھی جی کو مارنے کی کوشش ہوئی۔ایک بار گاندھی جی نے 125 سال جینے کی خواہش جتائی تو گوڈسے نے اپنے اخبار اگرنی میں ایک جوابی مضمون لکھا جس کا عنوان تھا-‘ پر جینے کون دےگا؟ ‘
گوڈسے کے ذریعے گاندھی جی کے قتل کو جائز ٹھہرانے والوں کی اصل دلیل ہے کہ پاکستان کو 55 کروڑ دینے کے مدعے پر ہی گوڈسے ان کا ‘قتل ‘کرنے پر مجبور ہوا تھا۔ سوال اٹھتا ہے کہ 1944یا1946میں تو یہ مدعا کہیں دور دور تک وجود میں ہی نہیں تھا۔تو پھر گاندھی جی کے قتل کے پیچھے کیا کوئی اور وجہ تھی جس کو چالاکی سے چھپا لینا ہی ان کے قتل کی خواہش کرنے والوں کو بہتر لگا اور لگتا ہے؟
آر ایس ایس کبھی قبول نہیں کرتی کہ گاندھی جی کے قتل میں اس کا کوئی ہاتھ تھا۔ان کے حساب سے ناتھو رام گوڈسے کے ذریعے عدالت میں دیا گیا بیان اس الزام کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔جس میں گوڈسے نے سنگھ سے اپنا کوئی بھی تعلق ہونے سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ صرف وہ اور نارائن آپٹے ہی گاندھی جی کے قتل کی سازش میں شامل تھے۔آر ایس ایس کے حساب سے خود قاتل کی طرف سے دیا گیا یہ بیان کافی ہونا چاہیے۔لیکن اسی بیان میں ناتھو رام ہندو مہاسبھا کے ونایک دامودر ساورکر کا ہاتھ ہونے سے بھی صاف مکر گیا تھا۔کیا اس کا معنی ہے کہ نہ تو آر ایس ایس اور نہ ہی ہندو مہاسبھا گاندھی جی کے قتل کے لئے ذمہ دار تھے؟
دراصل، ناتھو رام سے کہا گیا تھا کہ عدالتی کارروائی میں وہ ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کا بچاؤ کرے۔اس لئے پوری کارروائی کے دوران اس نے ایک بار بھی وی ڈی ساورکر کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا تھا۔جب لال کرشن اڈوانی نے آر ایس ایس کو اس معاملے میں کلین چٹ دینے کی کوشش کی تھی تو ناتھو رام گوڈسے کے بھائی اور سازش کرنے والوں میں ایک گوپال گوڈسے بپھر اٹھے تھے۔نہ صرف گاندھی ودھ کیوں نام کی کتاب میں بلکہ دیگر جگہوں پر بھی اس نے زور دےکر کہا کہ اس کے بڑے بھائی نے کبھی بھی آر ایس ایس نہیں چھوڑااور آخر تک سنگھ کے ایک دانشور عملے کے طور پر کام کرتا رہا۔
دھیان رہے گوپال گوڈسے گاندھی کے قتل کے معاملے میں شریک تھا اور اس کی اس کتاب کو آج بھی آر ایس ایس کے لوگوں کے درمیان گیتا-قرآن کی طرح مفت تقسیم کیا جاتا ہے۔گوپال گوڈسے نے 1994 میں دئے گئے اپنے اسی انٹرویو میں کہا تھا کہ دراصل ناتھو رام نے آر ایس ایس اور ساورکر سے دوری اس لئے بنائی کیونکہ’ گاندھی کے قتل کے بعد گولولکر اور آر ایس ایس کافی مصیبت میں پڑ گئے تھے۔ ‘
یہاں یہ بات کرنا بھی ضروری ہے کہ آخر قتل ایک کام ہے یا نظریہ؟یا قتل ایک ایسا کام ہے جو کسی خاص نظریہ سے اثرانداز ہوتا ہے؟ کبھی کبھی بغیر سوچے سمجھے قتل کے پیچھے تشدد یا نفرت کا جذبہ کام کرتا ہے۔لیکن تشدد اورنفرت تو اپنے آپ میں بہت مضبوط نظریہ ہے۔ تب تو یہ جاننے کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ کسی کے دل میں کسی کے متعلق تشدد یا نفرت کا جذبہ پنپا کیسے؟گاندھی جی کے قتل میں آر ایس ایس کا ہاتھ ہونے کے معاملے کو عدالتی کارروائی پر چھوڑنا مناسب ہے۔لیکن تاریخ نگاری ان کے قتل کے پیچھے چھپے نظریہ کو پکڑنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
ہندوستانی قانون نظام تحریری ثبوت کا مطالبہ کرتا ہے۔جس تنظیم کی پوری کارروائی خفیہ طریقے سے چلتی ہو،جس کا کوئی رکنیت والارجسٹر نہ رکھا جاتا ہو،جس کے اجلاس کی کوئی تحریری کارروائی نہیں رکھی جاتی-اس کے بارے میں تحریری ثبوت ملنا تقریباً ناممکن ہے۔
آر ایس ایس اور ناتھو رام گوڈسے کا کیا تعلق تھا اس کے لئے ناتھو رام گوڈسے کی سنگھ کی رکنیت والی رسید پیش نہیں کی جا سکتی۔1947-48 میں وہ سنگھ کی کس شاخ میں جاتا تھا، اس کی کوئی حاضری رجسٹر بھی دستیاب نہیں ہی ہوگی۔لیکن گوڈسے، آر ایس ایس اور گاندھی جی کے قتل میں تمام ایسے تار جڑے ہیں جن سے آر ایس ایس منھ نہیں چرا سکتا۔ جیسا کہ گوپال گوڈسے نے کہا تھا کہ ‘آپ کہہ سکتے ہیں آر ایس ایس نے کوئی تجویز منظور نہیں کی تھی کہ جاؤ اور گاندھی کو مار دو لیکن آپ اس سے خود کو الگ نہیں کر سکتے۔ ‘
یہ پوچھنا بھی بنتا ہے کہ نام نہاد ناموں سے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے گاندھی-مخالف تشہیر کرنے والے لوگ بھلا کون ہیں؟آج بھی آر ایس ایس نے تحریری شکل سے کوئی اشتہار جاری نہیں کیا ہے کہ ‘گاندھی کی عزت کو نیلام کرو ‘لیکن ایسا کرنے والے زیادہ تر لوگ کسی نہ کسی طرح آر ایس ایس کے نظریہ کے کٹر حامی ہی ہوتے ہیں۔دراصل، گاندھی جی کے قتل سے پہلے اور بعد آر ایس ایس کی دو الگ الگ آواز رہی ہیں۔ پہلے تو وہ گولولکر کی قیادت میں گاندھی جی کے قتل کا ماحول تیار کرتا رہا۔ گولولکر نے خود دہلی میں سویم سیوک کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا-
‘ سنگھ پاکستان کو مٹانے تک چین سے نہیں بیٹھےگا۔ اگر کوئی ہماری راہ میں آیا تو ہمیں اس کو بھی مٹا دینا ہوگا چاہے وہ نہرو حکومت ہو یا اور کوئی۔ مہاتما گاندھی ان کو اب اور گمراہ نہیں کر سکتے۔ہمارے پاس طریقے ہیں جن سے ایسے لوگوں کو فوری طورپر خاموش کرایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہماری یہ روایت نہیں ہے کہ ہم ہندوؤں کے متعلق دشمنی رکھیں۔ اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو ہمیں یہ راستہ بھی اپنانا پڑےگا۔ ‘
ظاہر ہے گاندھی جی کے قتل کے پیچھے فیصلہ کن کردار اسی طرح کی زہریلی بیان بازیوں کی تھی جو 1930 کے درمیان سے ملک بھر میں پھیلائی جا رہی تھی۔ اصل میں نہ صرف آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا بلکہ مسلم لیگ بھی گاندھی جی اور دیگر کانگریسی رہنماؤں کے خلاف زہر پھیلا رہی تھی۔گاندھی جی ہندو اور مسلمان دونوں طرح کی فرقہ پرستی کے لئے مشترکہ دشمن تھے۔ حالانکہ،آخر میں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد وہ ہندو فرقہ پرستی ہی تھی جس کو گاندھی ہندوستان میں ہندو راشٹرکے قیام کے اپنے پرانے خواب کو ظاہر کرنے کی سمت میں سب سے بڑی رکاوٹ لگتے تھے۔
یہ بھی سرکاری دستاویزوں میں درج حقیقت ہے کہ اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے گولولکر کو لکھے ایک خط میں صاف طور پر کہا تھا کہ ‘ان کی(سنگھیوں کی)تمام تقریر فرقہ وارانہ زہر سے بھرے تھے۔ اس زہر کے نتیجے کے طورپر ملک کو گاندھی جی کی جان کا نقصان اٹھانا پڑا۔’پٹیل نے آگے جوڑا، ‘آر ایس ایس کے لوگوں نے گاندھی جی کی موت کے بعد خوشی ظاہر کی اور مٹھائیاں بانٹیں۔ ‘
18 جولائی 1948 کو شیاماپرساد مکھرجی کو لکھے اپنے خط میں انہوں نے واضح طور پر کہا :’ گاندھی جی کے قتل اور آر ایس ایس-ہندو مہاسبھا کے بارے میں معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس لئے ان دونوں (تنظیموں)کے ملوث ہونے کے بارے میں میں کچھ نہیں کہوںگا لیکن ہماری اطلاع یہ ثابت کرتی ہے کہ ان دونوں تنظیموں کی سرگرمیوں کی وجہ سے، خاص طور پر پہلی(آر ایس ایس)کی وجہ سے، ملک میں ایک ایسا ماحول تیار کیا گیا جس کی وجہ سے یہ خوفناک حادثہ ممکن ہوا۔ ‘
لیکن جب ان کا قتل کر دیا گیا تو وہ ان کے قتل کا غم منانے میں جٹ گیا۔ اس واقعہ کے بعد سردار پٹیل نے جس طرح آر ایس ایس پر گرفت مضبوط، ان کے اعلیٰ قیادت نے ہتھیار ڈالنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی۔اسی لئے بھلےہی اندر ہی اندر سنگھ کے لوگ گاندھی جی سے بےحدنفرت کرتے ہوں،کوئی بھی اعلیٰ اہلکار سرکاری طور پر ان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں نکالتا۔ایسا نہ کر پانے کے پیچھے ایک اور مجبوری بھی ہے جس کے ذمہ دار پوری طرح سردار پٹیل ہیں۔سردار پٹیل نے گاندھی جی کے قتل کے بعد گولولکر سے یہ حلف نامہ لے لیا تھا کہ سنگھ اب خود کو سیاسی سرگرمیوں سے پوری طرح سےدور رکھےگا اور مستقبل میں بطور ایک ثقافتی تنظیم ہی کام کرےگا۔
اس لئے یہ پہلا موقع تھا جب 2014 میں تیزتر مودی لہر پر سوار ہوکر سنگھ کارکنان نے وردی میں بی جے پی کے لئے ووٹ مانگے تھے۔اس سے پہلے تک آر ایس ایس کے لوگ سرکاری طور پر ایسا کرنے سے قطعی پرہیز کرتے تھے جبکہ اس حلف نامہ کے جذبہ کے خلاف سنگھ 1951 سے ہی پہلے جن سنگھ اور پھر بی جے پی کے نام سے براہ راست انتخابی سیاست کرتا رہا ہے۔
یہ تو عدالتی دستاویزوں میں درج ہے کہ پھانسی پر چڑھنے سے پہلے ناتھو رام گوڈسے نے آر ایس ایس کی نئی خالص درخواست پڑھی تھی جس کو پرانی درخواست کی جگہ 1940 میں شامل کی گئی تھی۔ مردلا مکھرجی، آدتیہ مکھرجی اور سچیتا ساہوکار اپنی کتاب آر ایس ایس، اسکول ٹیکسٹس اینڈ مرڈر آف مہاتما گاندھی میں صحیح فرماتے ہیں :’ اگر وہ تب آر ایس ایس میں نہیں تھا، جیسا وہ دعویٰ کرتا ہے، تب وہ نئی درخواست سے کیسے آشنا تھا اور اس درخواست کو اپنی زندگی کے ایسے نازک موقع پر، جب وہ موت کے دہانے پر کھڑا ہے، کیوں پڑھتا ہے؟ ‘
چلیے ایک لمحے کے لئے مان لیتے ہیں کہ آر ایس ایس اس سازش میں براہ راست شامل نہیں تھا۔وہ تو ہندو مہاسبھا کا کام تھا جس کو ایسا قبول کرنے میں کبھی کوئی شرم نہیں آئی۔ آج بھی اس کو اس معاملے میں ذرا سی بھی جھجک نہیں ہوتی۔ بلکہ حال ہی میں انہوں نے گوڈسے کا مجسمہ قائم کرنے اور مندر بنانے کی باقاعدہ کوششیں کی ہیں۔تب ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کے درمیان کے تعلقات کی جانچ ضروری ہو جاتی ہے۔
وزارت داخلہ کا ایک ریکارڈ بتاتا ہے کہ آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کے درمیان آپسی رشتے کتنے گہرے تھے۔ 8 اگست 1947 کو داخلہ سکریٹری نے سی آئی ڈی کے ڈی آئی جی اور ممبئی کے پولیس کمشنر سے ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کے ممبروں کی لسٹ تیار کرنے کو کہا۔پونے پولیس نے صرف ہندو مہاسبھا کے ممبروں کی لسٹ ہی جمع کرائی اور آر ایس ایس کے ممبروں کی الگ لسٹ نہیں بھیجی۔ کیونکہ دونوں کے ممبروں کی الگ پہچان کرنا بہت مشکل تھا اورخفیہ تنظیم ہونے کی وجہ سے آر ایس ایس کے بارے میں جانکاری جٹانا خود میں بہت مشکل کام تھا۔
1940 کے بعد جب آر ایس ایس نے شمالی بھارت میں طاقت جٹانی شروع کی تھی،خفیہ محکمہ اس کے طریقہ کار کی جانکاری جٹانے میں بھاری مشقت کرتا رہا۔آر ایس ایس کی سرگرمیوں پر 17 ستمبر 1947 کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ‘اس کے (سنگھ کے) زیادہ تر کارکن یا تو ہندو مہاسبھا کے ممبر ہیں یا اس کے نظریہ میں یقین کرتے ہیں۔ ‘اسی لئے جیون لال کپور کمیٹی اس نتیجہ پر پہنچی تھی کہ ‘یہ ثابت کرنے کے لئے ثبوت موجود ہیں کہ بہتیرے آر ایس ایس ممبر ہندو مہاسبھا کے بھی ممبر ہیں۔
مان لیں کہ اگر اوپر لکھا یہ سب نرا جھوٹ ہے اور آر ایس ایس کا گاندھی جی کے قتل سے کوئی لینادینا نہیں ہے تو اس کو ناتھو رام گوڈسے، ساورکر اور ہندو مہاسبھا کی عوامی طور سے مذمت کرنی چاہیے۔ اس کو گاندھی جی کے خلاف دی گئی زہریلی تقریروں کے لئے معافی مانگنی چاہیے جو کہ دستاویزوں میں صاف طور پر درج ہیں۔
اس کو این ڈی اے-1کے دوران پارلیامنٹ کے احاطے میں ساورکر کا مجسمہ لگانے کے لئے بھی عوامی طور سے معافی مانگنی چاہیے۔اس کو سردار پٹیل کی عوامی مذمت بھی ضرور کرنی چاہیے جنہوں نے نہ صرف آر ایس ایس پر پابندی لگائی تھی بلکہ اپنے خط وکتابت میں سنگھ کے بارے میں اس طرح کے ‘ قابل اعتراض ‘ تبصرے بھی کئے تھے۔سب سے بڑھکر، اس کو ہندوراشٹرکے قیام کے اپنے اس خواب سے چھٹکارا پا لینا چاہیے جو کہ اس کے نظریہ سے منسلک ہے اور جس کی وجہ سے ہی گاندھی جی کا بے رحمی سے قتل کیا گیا تھا۔
(مضمون نگار راشٹریہ آندولن فرنٹ نامی تنظیم کے نیشنل کنوینر ہیں۔)
یہ مضمون دو اکتوبر 2018کو شائع کیا گیا تھا۔
Categories: فکر و نظر