سوشل میڈیا پر بھیڑ بنانے کی فیکٹری ہے۔ یہ بھیڑ ہمیں غیر محفوظ کر رہی ہے۔ ہم خود کو اس بھیڑ کے حوالے کر رہے ہیں اور بھیڑ کے نام پر سماج اور سرکار میں غنڈے پیدا کرنے لگے ہیں۔
گجرات میں چودہ مہینے کی ایک بچی کے ساتھ ریپ کے واقعہ نے ایک نئے حالات پیدا کر دیے ہیں۔ بچی جس سماج کی ہے اس کے کچھ لوگوں نے اس کو اپنے سماج کی شان بھر دیکھا ہے۔ وہ اجتماعی طور پر مشتعل ہو گئے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ اس سماج کے اندر بھیڑ بننے کے تیار لوگوں کو موقع مل گیا ہے۔ اس لئے ٹھاکور کمیونٹی کے لوگوں نے اس میں شامل ملزمین کے سماجی پس منظر کے تمام لوگوں کو ریپ میں شامل سمجھ لیا ہے۔
اس میں ان کی غلطی نہیں ہے۔ حال کے دنوں میں ریپ کو سیاسی شکل دینے کے لئے مذہبی پس منظر کو ابھارا گیا تاکہ اس کے بہانے ایک کمیونٹی پر ٹوٹ پڑیں۔ ملزم مسلمان ہے تو ہنگامہ لیکن ملزم ہندو ہے اور متاثر ہونے والا دلت تو خاموشی۔ متاثرہ کے ساتھ ہوئی بےرحمی کے بہانے مذہبی صف بندی کا موقع بنایا جا رہا ہے۔ یہی کام ذات کی سطح پر بھی ہو رہا ہے۔ حالانکہ گجرات کی تمام جماعتوں نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔
ٹھاکور سماج کے رہنما الپیش ٹھاکور نے بھی مذمت کی ہے اور اپیل کی ہے۔ وہاں کی حکومت نے بھی اتر پردیش، بہار اور مدھیہ پردیش کے لوگوں کو بھگانے کے واقعات کی بھی مذمت کی ہے۔ گجرات پولیس اس معاملے میں فعال ہے۔ دھمکانے والے تین سو سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ ٹھاکور سماج کے لوگوں نے بی جے پی کی مخالفت کی تھی۔ اگر ریپ کا معاملہ مذہبی رنگ لے لیتا تب دیکھتے کہ گجرات پولیس کیا کرتی۔ کچھ نہیں کرتی۔ پھر بھی اس معاملے میں پولیس نے سختی برتی ہے۔
چیف سیکریٹری اور پولیس چیف نے سرگرمی دکھائی ہے۔ اس لئے اس معاملے میں دونوں طرف کے سماج کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ قانون کا بھروسہ دینے کے لئے اور ریپ کے خلاف سماج کو بیدار کرنے کے لئے کام کرنا ہوگا۔ ان سب کے درمیان جن لوگوں کو احمد آباد کی بسوں میں لداکر تیس تیس گھنٹے کے ناقابل برداشت سفر پر نکلنا پڑا ہے، ان کی یہ تکلیف پورے ملک کو شرمسار کرے۔ یہ کتنا تکلیف دہ ہے۔
یوپی اور بہار کے لوگوں نے اس ملک کو سستا اور عمدہ لیبر دےکر سنوارا ہے۔ ہر بات پر ان کو ہانک دینا ٹھیک نہیں ہے۔ اسی گجرات سے 2014 میں بسوں میں بھرکر یہ لوگ یوپی بہار کے گاؤں میں بھیجے گئے تھے تاکہ وہ نریندر مودی کی تشہیر کر سکے۔ گجرات ماڈل کا جھوٹا خواب بانٹ سکیں۔ مجبوری میں مزدور کیا کرتا۔ چلا گیا اور اشتہار کے کام آیا۔ان لوگوں کے ساتھ گجرات کے شہروں اور دیہاتوں میں مارپیٹ کا واقعہ سامنے آیا ہے۔ مکان مالکوں نے دھمکایا ہے کہ ریاست چھوڑ دو۔ اتنی عدم رواداری ٹھیک نہیں ہے۔
Workers from UP, Bihar leave north Gujarat after protests over rape
Read here: https://t.co/6IBvAdBh7K pic.twitter.com/XhLZvo4AVf
— NDTV (@ndtv) October 7, 2018
گجرات بنام یوپی بہار نہیں ہونا چاہیے۔ رہنماؤں نے آپ کو بانٹ دیا ہے۔ اب آپ اس کے لئے محض گوشت کی بوٹی رہ گئے ہیں۔ بڑے رہنماؤں کی شکل دیکھکر چھوٹی سطح پر بھی رہنما بننے کے لئے لوگ یہی فارمولا آزما رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو گجرات میں اور بہار میں کہیں بھی پنپنے نہ دیں۔ ہم ہر وقت ایک دوسرے کی تلاش میں ہے۔ پہلے مذہب کی بنیاد پر ایک ‘دوسرا’طے کرتے ہیں پھر ذات کے نام پر پھر زبان کے نام پر۔
ایسا نہیں ہے کہ یوپی بہار میں بھیڑ نہیں ہے۔ بہار کے سوپول میں غنڈوں نے اپنے ماں باپ اور رشتہ دار کے ساتھ ملکر لڑکیوں کے ہاسٹل پر حملہ کر دیا۔ 35 لڑکیاں زخمی ہیں۔ ان لڑکیوں نے روزانہ کی چھیڑخانی کی مخالفت کی تھی۔ بارہ سے سولہ سال کی لڑکیوں پر پورا سماج ٹوٹ پڑا۔ بہار کے مظفرپور میں ایک بالیکا گریہہ میں تقریبا چالیس لڑکیوں کا استحصال ہوا وہاں کے سماج میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی۔
اس سماج کو اب صرف رام نومی اور محرم کے دنوں میں تلوار لےکر دوڑنے آتا ہے۔ باقی جو نہیں دوڑ رہے ہیں وہ گھر بیٹھکر صحیح ٹھہرانے کی وجہ تلاش کر مست ہیں۔ بہار اور یوپی میں گزشتہ دنوں مذہبی بنیاد پر جو بھیڑ بن کر پاگلوں کی طرح گھوم رہی ہے وہ نئی نہیں ہے۔ بس نیا یہ ہے کہ پہلے سے زیادہ منظم ہے۔ تہواروں اور جانوروں کے حساب سے اس کے پروگرام طے ہیں۔ بھیڑ کے دشمن طے ہیں اور اس بھیڑ کے پروگرام سے کس کو فائدہ ہوگا وہ بھی۔
سوشل میڈیا پر بھیڑ بنانے کی فیکٹری ہے۔ یہ بھیڑ ہمیں غیر محفوظ کر رہی ہے۔ ہم خود کو اس بھیڑ کے حوالے کر رہے ہیں اور بھیڑ کے نام پر سماج اور سرکار میں غنڈے پیدا کرنے لگے ہیں۔ بے شک غصے کی بات ہے لیکن سزا کیسے ملے، سسٹم کیسے کام کرے اس پر فوکس ہونا چاہیے۔ جو لوگ شامل تھے ان کے ساتھ نرمی نہ ہو مگر باقیوں کو قصوروار کیوں سمجھا جائے۔ یہ ذہنیت کہاں سے آتی ہے؟ اس کی ٹریننگ فرقہ وارانہ سیاست سے ملتی ہے۔ ہم منقسم ہوتے جا رہے ہیں۔صف بندی کے لئے تشدد واحد مقصد رہ گیا ہے۔کسی کو مارنا ہو تو پاگلوں کی بھیڑ جمع ہو سکتی ہے ۔ باقی کسی کام کے لیے چار لوگ نہیں ملتے۔
(بہ شکریہ رویش کمار فیس بک پیچ)
Categories: فکر و نظر