اب کئی لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خیر منائیے کہ مذکورہ بچی کے ساتھ ریپ کرنے والا مسلمان نہیں نکلا ورنہ کون جانے، 2002 کا اعادہ ہو جاتا۔
بہت سے لوگوں کو ابھی بھی یاد ہوگا، وزیر اعظم نریندر مودی نے دسمبر، 2015 میں لوک سبھا کو خطاب کرتے ہوئے اپنے ‘آئیڈیا آف انڈیا’ کو ‘ستیہ میو جیتے’، ‘اہنسا پرمو دھرما’، ‘سرودھرم سمبھاو ‘، ‘سرو ےبھونتو سکھن:سرو ےسنتو نرامیا’اور’ جن سیوا ہی پربھوسیوا’کے ساتھ ‘ویشنو جن تو تینے کہیے جے پیر پرائی جانے رے، پر دکھے اپکار کرے تو یہ من ابھیمان ن آنے رے ‘وغیرہ سے جوڑا تھا۔اس وقت انہوں نے آئین اور اس کی قدروں پر جیسا زور دیا، وہ نہ صرف ان کے عہدے کے وقار کے مطابق تھا بلکہ اس میں چھپے پیغام کی تعریف ان کے مخالفوں تک نے کی تھی۔
اس لئے کہ انہوں نے ہندوستان کی سماجی روایت میں خود اعتمادی کا ذکر کرتے ہوئے نہ صرف راجا رام موہن رائے، ایشورچند ودیاساگر، جیوتی با پھولے اور نرسی مہتہ سے لےکر مہاتما گاندھی تک کو یاد کیا، بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ یہ وہ روایت ہے جس نے ہندوستانی سوشلزم کی جدیدکاری کی اور اس کو ایسالبرل اکثریت پسند کردار عطا کیا ہے، جو لاجواب ہے۔
ان کا مذکورہ آئیڈیا حقیقت میں بدل سکتا تو آگے ملک کو شاید ہی کسی نئے آئیڈیا کی ضرورت پڑتی۔ تمام سماجی بربریت بھی تب اتنے خوفناک شکل میں ہمارے سامنے کھڑی نہیں ہوتی۔ لیکن اپنی جماعت کے جن رہنماؤں کو انہوں نے سیاسی فائدے کے لئے اناپ شناپ کچھ بھی بولنے اور اچھا برا کوئی بھی قدم اٹھاتے رہنے کو ‘آزاد ‘ کر رکھا تھا اور ابھی بھی کئے ہی رکھا ہے، انہوں نے یہ سمجھکر اس کو کان نہیں دیا اور اپنا الگ ہی بے سرا راگ الاپتے رہے کہ وزیر اعظم کا آئیڈیا ہاتھی کے دکھانے والے دانتوں جیسا ہے۔
کھانے والے دانتوں جیسا ہوتا تو وہ پہلے اسے ان کے ساتھ میٹنگ کرکے شیئر کرتے۔ اور اب، جب وزیر اعظم اپنے 2019 کے انتخابی منصوبوں کو نئے نئے پنکھ لگانے کی کوشش میں ہیں،ان کے ہوم اسٹیٹ گجرات کے شرپسندعناصر ایک بچی سے ریپ کا بدلہ لینے کے بہانے نہ صرف ان کے ‘آئیڈیا آف انڈیا’بلکہ ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘کے نعرے کی بھی کی ہوا نکال دینے میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ شرپسندعناصر شمالی ہندکے خلاف جیسی جارحیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ وزیر اعظم کے آئیڈیا آف انڈیا کا ایسا متضاد ہے کہ متاثرہ شمالی ہند کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ مذکورہ آئیڈیا کا سچ بڑا ہے یا ان کے ہوم اسٹیٹ کے لوگوں کی بد سلوکی ؟ کیوں ان کے شرپسند عناصر اپنی غنڈہ گردی میں یہ بھی نہیں سوچ رہے کہ انہی شمالی ہند کے لوگوں نے ایک گجراتی کو وزیر اعظم بنا رکھا ہے۔
کوئی نہیں کہتا کہ گزشتہ 28 ستمبر کو وہاں کے سابرکانٹھا ضلع کے ہمت نگر علاقے کے ڈھنڈھر گاؤں میں ایک چودہ مہینے کی بچی کے ساتھ جو گھناؤنا کام ہوا، اس کے قصوروار کو کڑی سے کڑی سزا دینے میں قدرے بھی کوتاہی برتی جائے۔ریاست کے وزیر داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجہ کے اس بیان کا عام طور پر استقبال ہی کیا گیا ہے کہ ہائی کورٹ سے مشورہ کے بعد اس مقدمہ کو فاسٹ ٹریک کیا جائےگا اور دو مہینے کے اندر قانونی کارروائی ختم کرکے گناہ گار کو نئے ریپ مخالف قانون کے تحت پھانسی کی سزا دلائی جائےگی۔
لیکن اس کے ملزم رویندر گونڈے کی گرفتاری کے بعد جس طرح مدعے کو ‘ گجراتی بنام باہری’میں بدل دیا گیا اور شمالی ہندکے لوگوں کو نشانہ بناکر ان کو مہاراشٹر کی شیوسینا اور مہاراشٹر نونرمان سینا کے ذریعے کرائے جاتے رہے تلخ تجربات سے دو چار کرایا جا رہا ہے، وہ اس گجراتی وقار کے بھی منافی ہے، جس کا وزیراعلیٰ رہتے وزیر اعظم نریندر مودی بار بار ذکر کرتے رہے ہیں۔
صاف کہیں تو اس کی وجہ سے مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا ہوم اسٹیٹ پہلی بار غلط وجہوں سے بحث میں آیا ہے۔ ورنہ اس دوران ترقی کے گجرات ماڈل کو لےکر ہی بات ہوتی رہی ہے۔البتہ، کبھی وزیر اعظم کی حمایت تو کبھی مخالفت میں۔ امیتابھ بچن کے اشتہارات کی معرفت گجرات کو سمجھنے والے لوگوں کے دلوں میں تو اس کی ایسی سنہری تصویر بنی ہوئی ہے کہ اس کی چمک ہی پھیکی نہیں پڑتی۔ لیکن اب کئی لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خیر منائیے کہ مذکورہ بچی کے ساتھ ریپ کرنے والا مسلمان نہیں نکلا ورنہ کون جانے، 2002 کا اعادہ ہو جاتا۔
بدقسمتی دیکھیے کہ کیرل میں سیلاب سے تباہی ہوتی ہے تو اس کو اس متحدہ عرب امارات تک سے ہمدردی حاصل ہوتی ہے، جہاں اس کے شہری روزی ر اور وزگار کے سلسلے میں آتےجاتے رہتے ہیں۔ وہ قبول کرتا ہے کہ اس کے نونرمان میں کیرل کے بھائیوں کا بھی حصہ ہے۔
لیکن گجرات میں ایک گھناؤنی واردات کے بعد شمالی ہندکے لوگوں کو پوری طرح سے اچھوت مان لیا گیا ہے اور ان کی کوئی خدمات منظور نہیں کی جا رہی۔ٹھیک ہے کہ شمالی ہند کی ریاستوں میں روزی اور روزگار کی حالت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے وہاں سے لاکھوں لوگ گجرات اور مہاراشٹر سمیت ملک کے مختلف ریاستوں میں جاتے ہیں اور چھوٹےموٹے کام دھندہ کرکے، ٹھیلا وغیرہ چلاکر یا سکیورٹی گارڈ اور کارخانہ میں مزدور بنکر اپنی روزی حاصل کرتے ہیں۔
لیکن اپنے خون پسینہ کی کھانے والے یہ لوگ اتنے بیگانے یا طفیلی نہیں کہ وہ رہیں یا بھاگ جائیں، گجرات اور اس کی حکومت کو کوئی فرق ہی نہ پڑے۔ اس لئے پوچھنا ہی ہوگا کہ روپانی حکومت نے کیوں پہلے تو غیر اخلاقی کام کرنے والوں کو ان کے خلاف کھلکر کھیلنے دیا، پھرسوشل میڈیا کی معرفت پھیلائی جا رہی افواہوں پر بھی روک نہیں لگائی اور اب ڈیمیج کنٹرول کے لئے وہ سارے دنگا فساد کا ٹھیکرا کانگریس پر پھوڑ رہی ہے۔
بہر حال، اتنا تو صاف ہے کہ شمالی ہند کے خلاف سابرکانٹھا کے ہمت نگر سے شروع ہوئی مہم جتنی تیزی سے سابرکانٹھا، میہسانا، گاندھی نگر اور احمد آباد کے چاندکھیڑا، امرائیواڑی، باپونگر اور اوڈھو جیسے علاقوں میں پہنچی اور جس میں سب سے زیادہ قہر ایسے بےقصور مزدوروں پر ٹوٹا، جن کا معاملے سے کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا، وہ کسی سازش کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
لیکن اس بات کا کیا تک ہے کہ روپانی حکومت نے پہلے تو متاثرین کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور اب کہہ رہی ہے کہ وہ کیا کرے کانگریس کے الپیش ٹھاکور کے ٹھاکور سینا کی وجہ سے چیزیں قابو سے باہر چلی گئیں۔سوشلسٹ مفکر رام منوہر لوہیا کہا کرتے تھے کہ اس حکومت کو ایک پل بھی اقتدار میں رہنے کا حق نہیں ہے، جو یہ کہے کہ اس سے حالات کے اندازے میں چوک ہو گئی یا کہ وہ وقت پر مناسب رد عمل نہیں دے سکی۔
لیکن لگتا نہیں کہ گجرات حکومت اس قول کے آئینے میں اپنا منھ دیکھےگی۔ ملک میں بدقسمتی سے جب بھی کوئی بحران آتا ہے، بی جے پی اور کانگریس کے طور پر اس کی دونوں پارٹیاں اس سے پیدا شدہ مسائل کے حل کے متعلق وقف ہونے کے باوجود ایک دوسرے پر الزام اور بہتان تراشی میں مصروف ہو جاتی ہیں۔
اسی کی مثال پیش کرتے ہوئے کانگریس رہنما سنجے نروپم یہ کہنے کی حد تک چلے گئے ہیں کہ جو لوگ گجرات میں شمالی ہندکے لوگوں کو مارپیٹ رہے ہیں، ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ نریندر مودی کو پھر وارانسی جانا ہے، جو شمالی ہندمیں ہی ہے۔کانگریس کے صدر راہل گاندھی چاہیں تو اپنا یہ بیان بھی دوہرا سکتے ہیں کہ یہ وزیر اعظم کا نیا ظالمانہ ہندوستان ہے۔ بی جے پی چاہے تو ان کو ان کی پارٹی کے دور اقتدار کے اس سے بڑے دنگا فساد کی طرف اشارہ کر سکتی ہے۔
لیکن اس وقت ملک کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس ایک بھی ایسا رہنما نہیں ہے، جو اس بڑے ملک کو ہمالیہ سےخطاب کرکے آئیڈیا آف انڈیا کی سمت میں موڑ سکتا ہے۔اکثر سارے رہنما اور پارٹیاں ناراض بھیڑ کھڑی کرنے اور ان کی وجہ سے پھیلنے والے فسادات کا فائدہ اٹھانے میں لگی رہتی ہیں۔ اس قدر کہ کہنا مشکل ہے کہ ان میں کون کم ہے اور کون زیادہ؟یہی وجہ ہے کہ جب اس قسم کی واردات ہوتی ہیں تو مجرم کے پورے کمیونٹی کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور رہنما بھی’مقامی بنام باہری’کے جذبہ کو ہوا دیتے ہیں۔ سوال ہے کہ ان حالات میں تبدیلی کے لئے بلی کے گلے میں گھنٹی کب اور کون باندھےگا؟
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر