خبریں

سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فتوے والے فیصلے پر روک لگائی

سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فتوے سے جڑے فیصلے پر روک لگا دی ہے ۔وہیں درخواست گزاروں کو نوٹس جاری کر جواب مانگا ہے۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر فی الحال روک لگا دی ہے، جس میں  فتوے  دینے پر پابندی لگا دی تھی۔ واضح ہو کہ اترا کھنڈ ہائی کورٹ نے 30 اگست کو ریاست میں ہر طرح کے فتوے پر روک لگا دی تھی۔ اس فیصلےکے مطابق؛ ہائی کورٹ نے مذہبی تنظیموں، اداروں، پنچایتوں ، مقامی پنچایتوں اور پبلک گروپ کی طرف سے فتوی جاری کرنے پر روک لگائی تھی۔ کورٹ نے فتوے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کو فرد کے بنیادی حقوق کے خلاف قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ کی بنچ نے یہ فیصلہ جمعیۃعلماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے دیا ہے ۔ 4ستمبر کو  جمعیۃعلماء ہند نے مذکورہ فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کی سماعت آج ہوئی ۔جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے عدالت میں ایڈوکیٹ راجو رام چندرن، ایڈوکیٹ شکیل احمدسید،ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی ، ایڈوکیٹ طیب خاں، ایڈوکیٹ مجیب الدین خاں،ایڈوکیٹ عظمی جمیل، ایڈوکیٹ پرویز دباس پیش ہوئے ۔

غور طلب ہے کہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے جسٹس راجیو شرما اور جسٹس شرد کمار شرما کی بنچ نے یہ روک ہریدوار کے ایک گاؤں میں نابالغ سے ریپ کے بعد جاری ہوئے فتوے کے بعد لگایا تھا۔ نابالغ لڑکی سے ریپ کے بعد پرگننٹ ہونے اور ملزمین کے خلاف منہ کھولنے پر پنچایت نے متاثرہ کو گاؤں سے باہر کرنے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ کورٹ نے پنچایت کے فتوے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کہا تھا کہ متاثرہ کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرنے کی بجائے فیملی کو گاؤں سے باہر کا راستہ دکھایا جا رہا ہے۔

عرضی گزار کی پیروی کر رہے سینئر وکیل راجو رام چندر ن نے عدالت میں دلیل دی  کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ دستو ر ہند کی دفعہ 26اور وشوا لوچن مدان کیس بنام حکومت ہند میں بذات خود سپریم کورٹ کے فیصلے کی شدید خلاف ورزی ہے ۔ دستور ہند کی دفعہ 26(B) میں ہر ایک کو اپنے مذہبی مسائل میں خود کے انتظام کا حق دیا گیا ہے،لہذا اسے کوئی بھی عدالت ختم نہیں کرسکتی ۔نیز دستورکی دفعہ 141یہ واضح کرتی ہے کہ کسی عدالت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیصلہ دینے کا حق نہیں ہے ۔ اس بات کی بھی شکایت کی کہ ہائی کورٹ نے لشکر پنچایت کے فرمان کو ’فتوی‘سمجھنے کی غلطی کی ہے اور اس سلسلے میں صرف ہندی کے ایک اخبار کو بنیاد بنا کر فیصلہ دے دیا گیا۔حالاں کہ اخبار کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ محض پنچایتی فرمان ہے اور اس کا فتوی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ۔

دریں اثنا عرضی گزار اورجمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹر ی مولانا محمود مدنی نے اسٹے ملنے پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک کے کونے کونے میں دارالافتاء دینی رہ نمائی کا فریضہ انجام دے رہیں۔وہ صرف سائل کے جواب میں مذہبی رہ نمائی کرتے ہیں ۔یہ بات صاف طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ فتوی کوئی فرمان نہیں ہے۔انھوں نے عدالت کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فوری اسٹے کا حکم جاری کیا ہے ۔