خبریں

ہریانہ: مسجد کی فنڈنگ کو لے کر این آئی اے کے دعوے پر گاؤں والوں نے اٹھائے سوال

گاؤں والوں کے مطابق یہ مسجد چندے کے پیسے سے بنائی جا رہی ہے۔ وہ ملزم سلمان کو بھی بے قصور بتاتے ہیں۔

فوٹو: اے این آئی

فوٹو: اے این آئی

نئی دہلی: این آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ ہریانہ کی  زیر تعمیر مسجد میں ایک دہشت گرد کا پیسہ لگا ہے۔ حالانکہ  پلول کے اٹاوڑ گاؤں کے لوگ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ گاؤں والوں کے مطابق یہ مسجد چندے کے پیسے سے بنائی جا رہی ہے۔ وہ ملزم سلمان کو بھی بے قصور بتاتے ہیں۔ پلول کی ایک مسجد اس وقت چرچہ میں آ گئی جب اس کی تعمیرکی فنڈنگ کو لے کر این آئی اے نے دعویٰ کیا کہ اس میں دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ سے فنڈنگ  کی جا رہی ہے۔

آج تک نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ این آئی اے سے پوچھ تاچھ میں سلمان نے قبول کیا ہے کہ وہ دبئی میں موجود ایک پاکستانی سے پیسہ حاصل کر رہا تھا۔ این آئی اے کو شک ہے کہ سلمان کا ہینڈلر وہی ہے۔ این آئی اے کو پتہ چلا ہے کہ دبئی میں جس شخص سے سلمان فنڈنگ حاصل کرتا تھا وہ فلاح انسانیت کے ڈپٹی چیف سے مسلسل رابطے میں رہتا ہے۔

گاؤں کے سربراہ رمیش پرجاپتی نےخبر رساں ایجنسی اے این آئی  کو بتایا کہ یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں، مسجد قانونی طریقے سے حاصل کی گئی زمین پر بنائی جا رہی ہے اور اس میں گاؤں والوں کا پیسہ لگا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ اس مسجد کی تعمیر میں مختلف گاؤں کے لوگوں نے پیسہ دیا ہے۔

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ معاملے میں ملزم سلمان کے والد مرحوم مولوی داؤد میوات کے مسلمانوں کے بیچ احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے رہے ہیں۔ وہ تقریباً 50 سال پہلے گاؤں سے دہلی گئے تھے جہاں انھوں نے آخری دم تک نظام الدین کی ایک مسجد میں امامت کی۔گاؤں والوں کے لیے وہ مذہبی معاملات میں سند کا درجہ رکھتے تھے اور ہر طرح کے جھگڑے میں ان کی بات مانی جاتی تھی۔

غور طلب ہے کہ اس معاملے میں این آئی اے نے 3 لوگوں کو 3 اکتوبر کودہلی میں  گرفتار کیا تھا۔ ان میں مسجد کا امام محمد سلمان اور دو دوسرے محمد سلیم ، سجاد عبدل وانی شامل ہیں۔ ان سبھی سے پوچھ تاچھ کی جا رہی ہے۔ این آئی اے مسجد کے بینک اکاؤنٹس کی جانچ کر رہی ہے۔ این آئی اے نے مسجد کو ملے عطیے سے جڑے دستاویزوں کو بھی ضبط کر لیا ہے۔ اخبار نے این آئی اے کے افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ سلیم کو مسجد کی تعمیر کے لیے ایف آئی ایف سے 70 لاکھ روپے ملے تھے۔