وزیر اعظم اسی لئے آج کے اہم سوالوں کے جواب دینا بھول جا رہے ہیں کیونکہ وہ ان دنوں نایکوں کے نام، جنم دن اور ان کے دو چار کام یاد کرنے میں لگے ہیں۔ میری رائے میں ان کو ایک منوہر پوتھی لکھنی چاہیے، جو بس اڈے سے لےکر ہوائی اڈے پر بکے۔ اس کتاب کا نام مودی-منوہر پوتھی ہو۔
رابندرناتھ ٹیگور اپنی زندگی میں پانچ بار امریکہ آئے۔ اس کے لئے بھاپ کی انجن والے پانی کے جہاز سے لمبا سفر کیا۔ راشٹرواد کے ‘کلٹ ‘پر تقریر کی۔ اسی سلسلے میں 6 دسمبر 1916 کو نیو ہیون پہنچے جہاں ایل یونیورسٹی ہے۔آپ اس پوسٹ کے ساتھ ایک عمارت کی تصویر دیکھیںگے۔ اس کا نام ہے ٹافٹ (TAFT) اپارٹمنٹ۔ تب یہ ہوٹل تھا جہاں ٹیگور رکے تھے۔ ٹیگور کے استقبال کے لئے یہاں ہندوستانی طالب علم کافی پرجوش تھے۔ کاش ان طالب علموں پر کوئی کتاب ہوتی جو بتاتی کہ اس وقت آکسفورڈ چھوڑکر ایل کیوں آئے؟ آنے والے کون تھے اور لوٹکر ہندوستان جاکر کیا کیا؟
خیر ٹیگور کا استقبال اس وقت سنسکرت کے دانشور پروفیسر جان ہاپ کنس نے کیا۔ نیوز بلیٹن میں رابندرناتھ ٹیگور کو سر کہہکر مخاطب کیا ہے۔ ٹیگور نے یہاں نظم سنائی تھی۔ ہاں تو بتا رہا تھا کہ یہ ٹافٹ عمارت اب بھی ہے۔ ہوٹل کی جگہ اس کو رہنے کی جگہ میں بدل دیا گیا ہے۔ٹیگور سے متعلق جانکاری جمع کرتے ہوئے یہ بھی پتہ چلا کہ سوامی وویکانند (1893)سے پہلے برہما سماج کے پی سی مجمدار (1883)امریکہ آئے تھے۔ تب پی سی مجمدار نے یہاں گھوم گھومکر تقریر کی تھی۔
1893 میں پی سی مجمدار اور وویکانند ایک ساتھ آئے تھے۔ ایک بلیٹن سے پتہ چلتا ہے کہ شکاگو کی دھرم سنسد میں سوامی وویکانند کے ساتھ پی سی مجمدار نے بھی تقریر کی تھی، جن کے بارے میں پبلک میں کم جانکاری ہے۔ دونوں کی تقریروں کا مطالعہ ہو سکتا ہے۔ضرور ہوا ہوگا۔لیکن کچھ مواد کا پتہ چلے تو پڑھوںگا ضرور۔یہ بات کوئی وزیر اعظم کو بھی بتا دے۔ وہ ان دنوں نایکوں کویاد کرنے اور ان کو عزت دینے کا کام کر رہے ہیں۔ اس سے ہوگا یہ کہ اسی بہانے ان کو ایک اور پروگرام اور تقریر کرنے کا بہانہ بھی مل جائےگا۔ کہنے کا موقع ملےگا کہ کیسے ایک فیملی نے یا اس ایک فیملی کے لئے تاریخ کے نایکوں کی عزت نہیں کی گئی۔
جس نیتا جی بوس پر درجنوں کتابیں لکھی گئیں، گانے بنے (اپکار کا تو گانا سن لیتے)کروڑوں کلینڈر چھپے، جن میں نیتا جی کی تصویر لازمی طور سے ہوتی ہی تھی اور ہے، کئی چوراہوں پر ان کا مجسمہ ہے، سڑکوں کے نام ہیں، نیتا جی شہر ہے، ملک کے کروڑوں بچے فینسی ڈریس پارٹی میں نیتا جی بنکر جاتے ہیں،اس نیتا جی کے بارے میں وزیر اعظم ہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کو بھلا دیا گیا۔ ان کو بھلا دیا گیا۔وزیر اعظم کے یاد کرنے کا ایک ہی پیٹرن ہے۔اس کو دیکھتے ہوئے لگےگا کہ ایک اکیلے نہرو نے ہندوستان کی آزادی کے سارے مجاہدوں کو کنارے کر دیا تھا۔ اتنے سارے ہیرو نہرو سے کنارے ہو گئے۔
نہرو آزادی کی لڑائی میں کئی سال جیل گئے۔ سفر کئے۔مگر وزیر اعظم کی تقریروں سے لگتا ہے کہ نہرو انگریزی حکومت سے نہیں بلکہ ان عظیم لوگوں کو ٹھکانے لگانے کی لڑائی لڑ رہے تھے۔نیتا جی اور نہرو کی دوستی پر دو لائن بھی نہیں بولیںگے، پٹیل اور نہرو کے تعلقات پر دو لائن نہیں بولیںگے مگر ہر تقریر کی تیور ایسا ہوگا جیسے نہرو نے سب کے ساتھ کام نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ ناانصافی کی۔
وزیر اعظم اسی لئے آج کے بالکل ضروری اور اہم سوالوں کے جواب دینا بھول جا رہے ہیں کیونکہ وہ ان دنوں نایکوں کے نام، جنم دن اور ان کے دو چار کام یاد کرنے میں لگے ہیں۔ میری رائے میں ان کو ایک منوہر پوتھی لکھنی چاہیے جو بس اڈے سے لےکر ہوائی اڈے پر بکے۔اس کتاب کا نام مودی-منوہر پوتھی ہو۔وزیر اعظم کے لئے آج بھی تاریخ صرف یاد کرنے کا موضوع ہے۔ رٹّا مارنے کا موضوع۔تاریخ میں کسی وزیر اعظم نے تاریخ کو اتنا سطحی نہیں بنایا جتنا ہمارے وزیر اعظم نے ۔
میں اس کو سطحی کے علاوہ تاریخ کا وہاٹس ایپ کہتا ہوں۔ ان مواقع پر مودی کی تقریر کا مواداور وہاٹس ایپ میں کسی ہیرو کے جنم دن پر جو مواد ہوتا ہے، دونوں میں خاص فرق نہیں ہوتا ہے۔مودی کو پردھان سیوک کے ساتھ ساتھ ہندوستان پردھان مؤرخ (Prime Historian of India) اعلان کر دینا چاہیے۔ یہ عہدہ حاصل کرنے والے وہ دنیا کے پہلے وزیر اعظم ہوںگے۔
(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر