سناتن سنستھا اور ہندو جن جاگرتی سمیتی جیسی’روحانی’کہی جانے والی تنظیموں سے مبینہ طور پر وابستہ کئی لوگوں کی گرفتاری ان کی انتہاپسند سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ گزشتہ دنوں سامنے آیا ایک اسٹنگ آپریشن بتاتا ہے کہ اپنی منظم تشدد آمیز سرگرمیوں کے باوجود ان تنظیموں کو ملے سیاسی تحفظ کی وجہ سے ان کے خلاف سخت کارروائی سے ہمیشہ بچا گیا۔
کیا ہندوستان کوئی تاناشاہی والا ملک ہے، جہاں موت کے دستے عدم اتفاق رکھنے والوں کو نشانے پر لےکرچلتے ہیں۔ ویسے آزادی کے 70 سال بعد یہی حقیقت رفتہ رفتہ سامنے آ رہی ہے۔ دابھولکر، پانسرے، کلبرگی، گوری لنکیش، فاروق حمید۔ویسے اپنے سب سے تازہ ڈراما-‘ر اکشس تنگڈی، جو وجئےنگر کے آخری حکمراں الیا رامرایا(1485-1565)کی زندگی پر مبنی ہے،-کا تخلیقی عمل کے دوران مشہور ڈرامہ نگار، فنکار اور دانشور گریش کرناڈ نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایک انتہا پسند تنظیم جو ہٹ لسٹ تیار کر رہی ہے، اس میں ان کا نام سب سے اوپر درج ہو رہا ہوگا۔
فی الوقت ان کے گھر کے سامنے موجود پولیس کی ٹیم یہی کڑوی سچائی بیاں کر رہی ہے۔ اور محض گریش کرناڈ ہی نہیں اس فہرست میں اور بھی بہتوں کے نام ہیں۔کرناٹک پولیس کی اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم نے- صحافی اور سماجی کارکن گوری لنکیش کے قتل کی تفتیش میں مبتلا تھی، اس نے یہی انکشاف کیا ہے۔ اس نے جن دو فہرستوں کو بر آمد کیا ہے، اس میں کونکنی ناول نگار اور افسانہ نگار دامودر موجو ؛ عقلیت پسند اور کنڑ قلمکار، مترجم کے ایس بھگوان اور مراٹھی صحافی نکھل واگلے، کرناٹک کے ہی یوگیش ماسٹر جیسوں کے نام ہے۔
واضح ہو کہ قتل کو انجام دینے کے لئے سناتن سنستھا اور ہندو جن جاگرتی سمیتی جیسی’روحانی’کہی جانے والی تنظیموں کے ساتھ مبینہ طور پر وابستہ کہے گئے تقریباً 15 لوگوں کو اس نے گرفتار کیا ہے۔ اس انکشاف کے بعد جس طرح ایک صدمے کی حالت نمایاں تھی وہ اب نہیں دکھتی۔ایسا نہیں کہ ان عظیم شخصیتوں-جو بھلےہی الگ الگ زبانوں میں، الگ الگ شکلوں میں لکھتے ہوں یا اس کو ظاہر کرتے ہوں، مگر جن میں ایک ساجھاپن یہ ضرور ہے کہ وہ تمام قسم کے مذہبی شدت پسندکی مخالفت میں ہمیشہ کھڑے رہتے آئے ہیں-کی زندگی کے لئے جو قریبی خطرہ دکھ رہا تھا، وہ ٹل گیا ہے۔
گریش کرناڈ ہی نہیں باقیوں کو ملی پولس کی حفاظت برقرار ہے، (جس میں نکھل جیسے کچھ گنے-چنے بھی ہیں، جنہوں نے حفاظت لینے سے ہی انکار کیا ہے)، فرق محض اتناہی آیا ہے کہ کچھ نہ کچھ طریقوں سے یہ دونوں تنظیم ہمیشہ سرخیوں میں رہنے کا کام کرتی ہے، بھلےہی اس کی وجہیں بےحد متنازعہ ہوں۔مثال کے طور پر جن دنوں اس ہٹ لسٹ کا انکشاف ہو رہا تھا کہ انہی دنوں ممبئی کے پاس واقع نالاساپورا میں مہاراشٹرکی پولس نے چھاپا مارکر کسی ویبھو راؤت کے گھر سے ڈھیر سارے بم، جلیٹن اسٹکس، 30 سے زیادہ دھماکہ خیزمادے، اخبار میں لپیٹکر رکھے گئے 150 گرام سفید پاؤڈر وغیرہ بر آمد کیا۔
اس کے ساتھ اس کے چار دیگر دوستوں کو بھی جگہ جگہ سے گرفتار کیا۔ پتا چلا کہ اس دہشت گرد گروپ نے ممبئی، پونے، ساتارا اور نالاسوپارا کے علاقوں میں دھماکوں کی اسکیم بنائی تھی تاکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑا جا سکے، دنگے ہوں وغیرہ۔ ان کی یہ خاص کوشش تھی کہ گنیش اتسو، عید کے اس قریبی موسم میں ان بموں کو اس طرح رکھا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ نقصان ہو سکے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کرناٹک کی پولیس نے جس پیشہ ور طریقے سے اس جانچ کو انجام دیا، جس نے یہ مکمل دہشت گرد نیٹ ورک اجاگر ہو سکا۔ اس نے مہاراشٹر دہشت گرد مخالف دستے کو جو جانکاریاں عطا کی، اس کے بعد اس کو اس مسئلے پر آگے بڑھنے کا موقع ملا اور ایک طرح سے کارروائی کرنے کے لئے مجبور بھی ہونا پڑا۔
فی الوقت یہ معاملہ سرخیوں کے پیچھے چلا گیا ہے اور خدشہ جتایا جا رہا ہے کہ جس طرح گزشتہ دس سالوں سے زیادہ وقت سے ہندتوا دہشت کے جن معاملوں کو دائیں بازوں کی تنظیموں کے دباؤ اور انتظامیہ اور ریاست میں ان کے بڑھتے دخل نے ہلکا کر دیا، اس کے اصلی ماسٹرمائنڈ کو ہمیشہ بچایا گیا، کیا وہی سلسلہ اس دھماکہ خیز انکشاف کے بعد بھی دوہرایا جائےگا۔
‘ انڈیا ٹوڈے ‘کے ذریعے گزشتہ دنوں جس اسٹنگ آپریشن کو اپنے چینل پر دکھایا گیا، جس میں سناتن سنستھا کے دو سادھک منگیش نکم اور ہری بھاؤ دیویکر-جو دونوں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونےکی وجہ سے جیل جا چکے ہیں-جس میں انہوں نے دہشت گردانہ واقعات میں ملوث، اپنے تنظیمی جڑاؤ وغیرہ کے بارے میں بتایا ہے، جس میں واقعہ کی تفتیش میں شامل رہے پولیس افسروں کے بیان بھی درج ہیں-دراصل اسی بات کی تائید نظر آتی ہے۔اس میں بتایا ہے کہ کس طرح اپنی منظم تشدد آمیز سرگرمیوں کے باوجود ان تنظیموں کو ملے سیاسی تحفظ کی وجہ سے ان کے خلاف سخت کارروائی سے ہمیشہ سے بچایا گیا۔
اسٹنگ آپریشن نہ صرف ہندو راشٹر بنانے کے سناتن سنستھا اور ان کی مددگار تنظیم ہندو جن جاگرتی سمیتی کے ارادوں پر روشنی ڈالتا ہے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کس طرح اس کے لئے وہ ‘چار لاکھ جنگجوؤں ‘کی فوج تیار کرنا چاہتے ہیں۔اب جیساکہ عام طور پر روایت چلی آ رہی ہے سناتن سنستھا نے ان الزامات سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان دو سادھک کو ‘جھوٹے بیان دینے’کے لئے لالچ دیا گیا ہے اور اسٹنگ آپریشن کے ان انکشافات کو آئی ٹی قانون کے تحت ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
البتہ اس مسئلے پر کم سے کم مہاراشٹر کے وزیر مملکت برائے داخلہ دیپک کیسرکر رسمی طور پر مختلف طریقے سے سوچتے ہیں، جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اس اسٹنگ آپریشن کے بعد ان کے پاس نئے ثبوت آئے ہیں اور وہ اس معاملے میں’مرکزی حکومت کو مطلع کریںگے اور مناسب کارروائی کریںگے۔ ‘یہ الگ بات ہے کہ اتنے دھماکہ خیز انکشاف کے بعد بھی نہ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس اور نہ ہی حریت اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کرنے والے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ بالکل خاموش ہیں۔ پھر ایسی’مناسب کارروائی’سے کیا امید کی جا سکتی ہے؟
دھیان رہے کہ سناتن سنستھا کا نام ملک کے پیمانے پر مالیگاؤں بم دھماکہ (ستمبر 2008)کے چند مہینہ پہلے پہلی بار تب سرخی بنا تھا، جب واشی، ٹھانے وغیرہ مقامات پر ہوئے بم دھماکوں کو لےکر مہاراشٹر اے ٹی ایس کے چیف ہیمنت کرکرے نے اس تنظیم کے مبینہ طور پر وابستہ کارکنان کو پکڑا تھا، جن میں سے دو کو بعد میں ممبئی سیشن عدالت نے (رمیش ہنومنت گڈکری عمر 53 اور وکرم ونئے بھاوے عمر 29) کو دھماکہ خیز مادہ رکھنے اور اس کے استعمال کا قصوروار پایا اور دس سال کی سزا بھی سنائی تھی۔
دراصل31 مئی 2008 کو واشی کے وشنوداس بھاوے آڈیٹوریم میں ایک ڈرامہ شو کے دوران دھماکہ ہوا تھا اور اس کے محض چار روز بعد ٹھانے کا گڈکری رنگائتن آڈیٹوریم کے بیس مینٹ میں بھی دوسرا بم دھماکہ ہوا تھا۔دھماکے کے وقت ایک مشہور ڈرامہ ‘آمہی پاچپتے ‘ وہاں پیش کیاجارہا تھا۔ اسے اتفاق کہا جا سکتا ہے کہ واشی میں بم کو پہلے ہی بےکار کردیا کیا گیا تھا، وہیں ٹھانے میں اس بم دھماکے سے لوگوں کو معمولی چوٹیں ہی آئی تھیں۔
منگیش نکم اور ہری بھاؤ دیویکر جیسے سادھک اسی دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث پائے گئے تھے۔ ان لوگوں کا اعتراض اس ڈرامہ اور ٹھانے کے سینما گھر میں دکھائے جا رہے سینما پر تھا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ وہ “ہندو تہذیب کے خلاف ‘ہیں۔غور طلب ہے کہ ان گرفتاریوں نے مہاراشٹر اور گوا میں خاموشی سے پاؤں پھیلا رہی انتہا پسندی ہندو تنظیموں کے تفصیلی تانےبانے کو اس قدر اجاگر کیا کہ زبردست ہلچل پیدا ہوگیا تھا۔ یہ سوال قابل غور ہو اٹھا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہندتوا کی تشہیرو توسیع کی آڑ میں، روحانیت کی تشہیر کی آڑ میں، جگہ جگہ آشرم کی تعمیر کرکے اس کام کو انجام دیا جا رہا ہے!
زیادہ تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ ‘سناتن سنستھا ‘جس کی تشکیل1999میں ہوئی ہے، اس کا ممبئی سے پچاس کلومیٹر دور پنویل کے پاس ایک آشرم ہے، جہاں یہ ملزم بھی رہتے تھے۔تفتیش میں پولیس کے سامنے یہ حقیقت بھی آئی تھی کہ مذکورہ سنستھا ایک طرف جہاں ‘روحانی آزادی’کی بات کرتی ہے ‘حسن سلوک / دینداری کی بیداری’کی بات کرتی ہے، ایک ایسی دنیا جو ‘سادھک اور تجسس رکھنے والوں کے سامنے مذہبی اسرار کو سائنسی کی زبان میں پیش کرنے کا مقصد رکھتی ہے’اور ‘جو ہفتہ وار روحانی اجلاس، تقریروں، چائلڈ گائیڈنس کلاس، روحانیت پر ورکشاپ ‘وغیرہ کا انعقاد کرتی ہے، مگر دوسری طرف وہاں ‘شیطانی کارناموں میں لگے لوگوں کی تباہی’کو ‘ روحانی عمل ‘کا لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ [دیکھیں:’ سائنس آف اسپرچیوالٹی’جینت آٹھولے، والیوم 3، ایچ-سیلف ڈفینس ٹریننگ، چیپٹر 6، پیج 108-109]اور یہ تباہی’جسمانی اور نفسیاتی سطح پر ‘ کرنی ہے۔
غور طلب ہے کہ اس ‘مذہبی انقلاب ‘کو آسان بنانے کے لئے سادھک کو ہتھیاروں-رائفل، ترشول، لاٹھی اور دیگر ہتھیاروں کی تربیت بھی دی جاتی رہتی ہے۔
اکتوبر 2009 میں اس تنظیم سے مبینہ طور پر وابستہ دو دہشت گرد-مالگونڈا پاٹیل اور یوگیش نایک-مڈگانو بم دھماکے میں تب مارے گئے تھے جب وہ دونوں نرکاسر دوہن نام سے پورے گوا میں مقبول عام پروگرام کے پاس دھماکہ خیز سے لدے اسکوٹر پر جا رہے تھے اور راستے میں ہی دھماکہ ہو جانے سے نہ صرف ان کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ ان کی پوری سازش کا بھی انکشاف ہوا۔وہ پولیس کو بھی گمراہ کرنا چاہ رہے تھے تاکہ سارا جرم مسلمانوں کے سر جائے۔ اس حملے کے لئے ان کی اسکوٹر سے بر آمد ہوئی دہلی کی خان مارکیٹ سے خریدا بیگ، اقلیتوں میں استعمال میں آنے والا روایتی قسم کا عطر اور باسمتی چاول کا ایک خالی جھولا جس میں سب کچھ اردو میں لکھا تھا، ان سامانوں سے وہ اپنا یہ مقصد حاصل کرنا چاہ رہے تھے۔
بعد میں اس بات کابھی پتا چلا کہ سناتن سنستھا اور اس کے معاون تنظیم ہندو جنجاگرتی سمیتی کے کارکن دیوالی کے وقت نرکاسر بنانے اور اس کو جلا نےکی لمبی روایت کے خلاف لمبے وقت سے مہم چلاتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ایک شیطان کی جھانکی تیار کرنا شیطان کی ستائش کرنا ہے اور یہ ہندو تہذیب کی بے عزتی ہے۔خبروں کے مطابق سناتن سنستھا سے مبینہ طور پر وابستہ انتہا پسند اسی دن مڈگاؤں سے 20 کلومیٹر دور واسکو بندرگاہ کے پاس واقع سانکاؤلے میں ایک دیگر بم دھماکے کی کوشش میں بھی شامل تھے۔ ٹرک میں بیگ میں رکھے ٹائم بم کی طرف اس میں سوار لوگوں کی نگاہ گئی تھی، جنہوں نے اس کو اچانک باہر کھیتوں میں پھینک دیا تھا۔
اگر بم دھماکہ ہوتا تو ٹرک میں سوار چالیس سے زیادہ لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا، جو نرکاسر مقابلہ میں حصہ لینے جا رہے تھے۔ نیشنل جانچ ایجنسی کے ذریعے اس معاملے میں دائر چارج شیٹ میں جہاں اس بات کو صاف لکھا گیا ہے کہ مذکورہ دہشت گرد ‘سناتن سنستھا’ سے منسلک تھے، وہ اس بات کا بھی خاص ذکر کرتا ہے کہ آشرم میں ہی بم دھماکے کی سازش رچی گئی۔بعد میں جب مارے گئے ان سادھک-مالگونڈا پاٹیل اور یوگیش نایک-جیسوں کے ساتھ اپنے رشتے سے ‘سناتن سنستھا ‘نے انکار کیا، اس وقت ڈاکٹر نریندر دابھولکر نے پنجی میں منعقد ایک مجلس میں یہ سوال اٹھایا تھا:
آخرایساکیوں ہوتاہے کہ سنستھا کے کارکنوں کو اکثر اسی طرح کی’غلط راہ’ کو اپنانے اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ منطق کس طرح قبول کی جاتی ہے اور سنستھا کے طور پر کسی بھی کارروائی کے بغیر سنستھا کس طرح بےداغ چھوٹ جاتی ہے۔یہ بات بھی ناقابل یقین لگتی ہے کہ سناتن سنستھا سے وابستہ کچھ مطلق العنان /غیرمعمولی کارکن، ایک بےحد باقاعدہ اور خفیہ تنظیم سے آزاد ہوکر دھماکوں کو انجام دیں اور اس پورے سیاق و سباق میں تنظیم کے کسی سینئر رہنما کو کوئی جانکاری تک نہ ہو۔ ‘
ٹھانے، واشی، مڈگاؤں ، سنکولے، ان تنظیموں کی متنازعہ سرگرمیوں کو لےکر دیگر ڈھیر ساری باتیں کی جا سکتی ہیں۔مذکورہ سنستھا کے ذریعے مراٹھی، انگریزی وغیرہ زبانوں میں شائع اخبار ‘سناتن پربھات ‘بھی اکثر سرخیوں میں رہتا آیا ہے کیونکہ اس میں دیگر کمیونٹی کے خلاف بہت توہین آمیز باتیں لکھی گئی ہوتی ہیں۔ ایک بار ایسے ہی مضمون کی اشاعت کے بعد میرج شہر میں فساد کی نوبت تک آ گئی تھی۔
مہاراشٹر کے اہم ترین روزنامہ لوک ستا میں لکھے مضمون میں مذکورہ سنستھا کے ذریعے مراٹھی میں شائع رسالہ ‘ چھاتردھرم ‘کے اقتباسات دئے گئے ہیں، جو اس سنستھا کے غوروفکر اور طریقہ کار پر اور روشنی ڈالتے ہیں۔انہی دنوں ‘ممبئی مرر ‘نامی اخبار کو دئے انٹرویو میں سنستھا کے ایک مینیجنگ ٹرسٹی نے سرعام کہا تھا کہ ہم ‘ ہتھیاروں کی تربیت دیتے ہیں ‘۔ سوال اٹھتا ہے کہ اپنے آپ کو روحانی سنستھا کہلانی والی سنستھا کو ہتھیاروں کی تربیت دینے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟
عقیدہ کی دہائی دیتے ہوئے مذکورہ تنظیم نام نہاد سائنس کی تشہیر میں بھی مبتلا دکھتے ہیں۔ گزشتہ سال ان کے اس سائنس مخالف تشہیر کی چپیٹ میں خود مہاراشٹر کا محکمہ تعلیم بھی آیا۔دراصل گزشتہ سال مہاراشٹر کے ہائر ایجوکیشن کی طرف سے ایک سرکلر جاری ہوا، جس کی طرف سے پونے کی مشہور ساوتری بائی پھولے ودیاپیٹھ اور اس سے منسلک تنظیموں کو یہ ہدایت دی تھی کہ ان کے طالب علم گنیشوں کے ماحول کے موافق وسرجن کی مہموں سے جڑنے سے دور رہیں کیونکہ اس سے لوگوں کے ‘ مذہبی جذبے ” مجروح ہوتے ہیں۔پونے یونیورسٹی میں پہنچے اس سرکلر سے اتنا ہنگامہ ہوا کہ ریاستی حکومت کو اس معاملے میں اپنے اعتراض درج کرائے اور خود وزیر تعلیم نے جانچکے حکم دئے۔
زیادہ تحقیق کرنے پر یہ حقیقت سامنے آئی کہ ہندو جن جاگرتی سمیتی نے محکمہ تعلیم کو لکھا تھا اور ان ‘ جعلی ماہرین ماحولیات’کو نشانہ بنایا تھا اور ان کی’سطحی ماحولیاتی ضروریات’کی مذمت کی تھی۔عوامی تالابوں میں مجسموں کے وسرجن کو لےکر ان کی مخالفت اور ان کو مصنوعی تالابوں / ٹینکوں میں وسرجن کرنے کی مہم کو انہوں نے ‘ ہندو روایتوں کی خلاف ورزی’بتایا تھا۔اور یونیورسٹی کے افسروں نے بھی ان کی باتوں پر غور کئے بنا کس طرح مجسموں کے وسرجن سے پانی میں دھات کی مقدار بڑھتی ہے اور گھلے ہوئے آکسیجن کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور جس کی وجہ سے تالابوں کے مرنے کی نوبت آتی ہے، فوراً حکم جاری کیا تھا۔
ان کو اس بات پر غور کرنا چاہیے تھا کہ عام دنوں میں کس طرح پانی میں دھات کی مقدار کم سےکم ہوتی ہے اور تہواروں کے دنوں میں جب مجسمہ وسرجت کی جاتی ہیں، اچانک بڑھتی ہے، اور کس طرح لوگوں کے ذریعے پانی میں پھول، پلاسٹک، راکھ وغیرہ ڈالنے سے بھی اس کی آلودگی کی سطح بڑھتی ہے۔ان تمام باتوں پر دھیان دئےبغیر انہوں نے ڈیپارٹمنٹ آف ہائر ایجوکیشن کے حکم کو سر-آنکھوں پر لیا اور اتناہی نہیں اپنی طرف سے اس میں یہ بھی جوڑا کہ جو طالب علم گرین گنیش یا سبز گنیش کی مہم میں لگے ہیں، ان پر نگرانی رکھی جائے۔
یہ ستم ظریفی تھی کہ ڈاکٹر نریندر دابھولکر، جو مہاراشٹر اندھ شردھا نرمولن سمیتی کے بانی ممبر تھے اور ان کا قتل پونے میں ہی کیا گیا تھا، وہ ماحول کے موافق گنیش وسرجن کی مہم میں اہم ترین کردار میں تھے۔کوئی بھی انصاف پسند شخص یہی امید کرےگا کہ ملک کا قانون-جو عقیدہ، مذہب، ذات، نسل وغیرہ کسی بھی بنیاد پر جانبداری کی مخالفت کرتا ہے-اس کو اس معاملے میں بھی کام کرنے دیا جائےگا اور اس پر کوئی اضافی دباؤ نہیں آئےگا۔
ویسے اب تک کا سرکاری ریکارڈ-پھر چاہے مرکز میں مقتدر حکومت کا ہو یا ریاست میں مقتدر حکومتوں کا ہو-کم سے کم سناتن سنستھا اور اس کی معاون تنظیموں کے بارے میں رخ طے کرنے کے معاملے میں، پرجوش کرنے والا نہیں ہے۔اگر ہم پیچھے مڑکر دیکھیں تو ڈھیر سارے معصوموں کا خون بہنے سے بچا جا سکتا تھا، اگر مہاراشٹر حکومت نے-جب وہاں کانگریس اورنیشنلسٹ کانگریس پارٹی کی ساجھی حکومت تھی-اور مرکز میں کانگریس قیادت والی مشترکہ ترقی پسند اتحادکی حکومت تھی، اس وقت کے اے ٹی ایس کے چیف ہیمنت کرکرے کی تجویز پر غور کیا ہوتا (26 نومبر 2008 کے دہشت گردانہ حملے میں جن کی پراسرار حالات میں موت ہوئی تھی)جنہوں نے خود پنویل، تھانے بم دھماکوں کی تفتیش کی تھی اور اس میں مبینہ طور پر مبتلا سناتن سنستھا پر پابندی لگانے کی مانگ کی تھی۔
اگر ہم اس پورے سیاق و سباق پر انڈین ایکسپریس میں شائع رپورٹ کو پلٹیں-جس میں سناتن اور اس کےمعاون تنظیم ہندو جن جاگرتی سمیتی کے طریقہ کار کا تفصیلی تجزیہ کیا تھا-تو آج بھی پتا چلتا ہے کہ کس طرح کی تیاری تبھی سے چل رہی تھی۔اس میں لکھا گیا تھا کہ یہ تنظیم کس طرح ‘رام راجیہ، ہندتو ااو ‘مذہبی انقلاب ‘کے گھول / کاکٹیل’پر ہندوؤں کی صف بندی کرتے ہیں۔ اس میں ان دنوں ہی تشکیل شدہ ‘دھرم کرانتی سینا’ کا بھی ذکر تھا، جس کی بنیاد مہاراشٹر کے 16 ضلعوں میں گڑی پاڑوا کے دن رکھی گئی تھی اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کس طرح اس کا سر براہ دھماکہ خیز تقریر کرتا ہے۔
پونے کے کسی اجلاس میں اس کے چیف نے کہا تھا کہ ‘ کس طرح ہندوؤں کو چاروں طرف سے گھیرا گیا ہے، مگر ان کی طرف سے مزاحمت نہیں دکھتی۔ ‘ ٹھانے میں منعقد دوسرے کسی جلسے میں اس نے کہا تھا کہ ‘ مستقبل کی جنگ جہاد ہوگی اور دھرم کرانتی سینا اس کی ہدایت کار تنظیم بن سکتی ہے۔ ‘ان سنستھاؤں کے کام کرنے کو لےکر حکومت کی سطح پر فکریں ہمیشہ برقرار رہیں۔ 2011 میں مہاراشٹر دہشت گرد مخالف دستے نے ان تنظیموں کی کارروائیوں پر ایک اور تفصیلی رپورٹ تیار کی اور اسی رپورٹ کی بنیاد پر اس وقت کے وزیراعلیٰ پرتھوی راج چوہان نے ان تنظیموں پر پابندی لگانے کی مانگ دوہرائی، مگر یہ تجویز ٹھنڈے بستے میں ڈال دی گئی۔سال 2015 میں بی جے پی قیادت والی گوا حکومت نے شری رام سینا پر پابندی لگا دی، ان دنوں بی جے پی ایم ایل اے وشنو واگھ نے خود سناتن سنستھا پر پابندی لگانے کی مانگ کی۔
انہوں نے کہا کہ پرمود متالک کی رہنمائی والی شری رام سینے، جس نے خود گووا کے اندر دنگا فساد نہیں مچایا ہے، اس کی سرگرمیوں پر اگر گوا میں پابندی لگائی جا سکتی ہے، پھر سناتن سنستھا جس کے کارکن کئی دہشت گرد انہ واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں، ان کے متعلق اتنا نرم رویہ کیوں؟فی الوقت جیسے حالات موجود ہیں حالت بہت خوش کن نہیں نظر نہیں آتی۔
سینئر صحافی اورسماجی کارکن گوری لنکیش کے قتل پر ‘ دی وائر ‘میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح گوا میں بی جے پی کی فیصلہ کن جیتکے بعد سناتن سنستھا اور ہندو جن جاگرتی سمیتی کو ملی سیاسی حمایت سے ان کی سرگرمیوں نے نئے سرے سے زور پکڑا تھا اور وہ زیادہ سےزیادہ ضدی بنی تھی۔2012 سے ہی انہوں نے ‘ہندو راشٹر کےقیام’کے لئے ان تنظیموں کی طرف سے کل ہند ہندو کنوینشن کی شروعات کی گئی تھی، جو سلسلہ آج بھی جوں کی توں جاری ہے۔ بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ سال 2013 میں ان تنظیموں کے جشن یوم تاسیس کے دن ان کو مبارکباد دیتے ہوئے گجرات کے اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے ان کو پیغام بھی دیا تھا۔
Every organisation that works, based on the inspiration of nationalism, patriotism and tradition of loyalty, is the identity of our people ‘ s strength। Closeness to love, humanity and divinity, giving priority to non-violence, truth and sattvikata are the principles followed by Hindus in leading their life but to have to resist brutal, inhuman tendencies seems to be the destiny of Hindus It has been our tradition to be alert every moment and raise voice against oppression।
اس مبارکباد کو لےکر کئی سوال پوچھے جا سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر اس بات کی کیا مناسبت تھی کہ ایک ریاست کا وزیراعلیٰ-جو آئین کا حلف لےکر عہدے پر جلوہ افروز ہوا ہے-ایک ایسی کانفرنس کو پیغام بھیج رہا ہے، جو ہندوستان کو سیکولر ریاست سے ہندو راشٹر بنانے کی بات اعلانیہ کرتے ہیں؟
فی الوقت اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کیا مرکز اور ریاستی حکومتیں اپنی بے حسی سے جاگیںگی اور مہاراشٹر کے وزیر داخلہ کے کہنے کے مطابق ‘ضروری کارروائی’کرےگی!
معروف صحافی نکھل واگلے نے اپنے ایک مضمون میں سوال اٹھایاجو زیادہ غور طلب ہے۔
انہوں نے پوچھا تھا،
‘ اگر حکومت ہند ‘سیمی’یا ذاکر نائک کی تنظیم پر پابندی لگا سکتی ہے تو آخر کیا بات ہےکہ اس کو ہندتو اانتہا پسند گروہوں پر پابندی لگانے سے روک رہی ہے؟
کیا اس تنظیم کو آزادی اسی وجہ سے ملی ہے کیونکہ وہ ہندو گروہ ہیں؟ ‘
بےشک یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب حکمرانوں کو دینا ہوگا جو آئین کےمتعلق وابستگی کا دعویٰ کرنے سے نہیں چوکتے۔
(مضمون نگار سماجی کارکن اور مفکر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر