اسپیشل رپورٹ : بہار میں لالو پرساد یادو کے بعد مسلم کمیونٹی کو نتیش کمار سے بہت امیدیں تھیں، لیکن وہ ایک ایک کر ٹوٹتی چلی گئیں۔
15 اکتوبر کو بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے ایک سرکاری پروگرام میں اقلیتوں کے لئے کئی اسکیموں کو ہری جھنڈی دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ ہم خدمت کرنے والے لوگ ہیں ہمیں ووٹ کی فکر نہیں ہے۔نتیش کمار جس منچ پر تھے، وہاں سی ایسی بات کہنا بہت لوگوں کو عجیب لگا تھا، کیونکہ ایسا کہنے کا نہ تو وہ موقع تھا اور نہ ہی دستور۔نتیش کمار صرف اسکیموں کا اعلان کر دیتے تو بات وہیں ختم ہو جاتی۔ لیکن، انہوں نے اس کو ووٹ سے جوڑکر نہ صرف اقلیتی ووٹروں کو لےکر اپنا خدشہ ظاہر کر دیا، بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ ان کی یہ قواعد ووٹ بینک کے لئے ہے۔
سیاسی مبصروں کا ماننا ہے کہ ‘ووٹ کی فکر نہیں ہے ‘ کہہکر نتیش کمار نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اقلیتی ووٹ بینک کے ہاتھ سے پھسلنے کی تشویش میں مبتلا ہیں۔بہار میں مسلم ووٹ قریب 17 فیصدی ہے۔ روایتی طور پر مسلمان کانگریس کو ووٹ دیا کرتے تھے۔ لیکن 1989 میں بھاگل پور فساد کے بعد کانگریس سے ان کی دوری بڑھتی چلی گئی۔دراصل، فساد کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے دباؤ میں کئی ایسے فیصلہ لئے تھے جن کی وجہ سے اقلیتوں کا کانگریس سے دل ٹوٹ گیا تھا۔اس دور میں لالو پرساد یادو اپنی سیاسی زمین مضبوط کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے اس موقع کو بھنایا اور مسلم ووٹروں کو اپنی طرف کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ ان کو اس میں کامیابی ملی۔ لالو پرساد یادو نے ‘مائی'(مسلم-یادو) فارمولے پر خوب کام کیا اور بہار کے اقتدار پر قابض ہو گئے۔
‘ مائی ‘فارمولے کی وجہ سے ہی لالو یادو لمبے وقت تک بہار کے اقتدار میں بنے رہے۔ حالانکہ اس بیچ لاء اینڈ آرڈر سے لےکر روزگار کے مورچے پر ان کی حکومت ناکام ثابت ہو رہی تھی۔نتیش کمار نے ان مدعوں پر گھیرنا شروع کیا۔ بہار کی عوام کو بھی ان میں امید کی نئی کرن نظر آئی۔ دوسر ی کمیونٹی کے ساتھ ہی مسلموں نے بھی آرجے ڈی کی جگہ نتیش کے جے ڈی یو کو چنا۔ سال 2005 کے اسمبلی انتخاب میں جے ڈی یو-بی جے پی اتحاد کی جیت ہوئی اور نتیش کمار وزیراعلیٰ بنے۔
وزیراعلیٰ بنتے ہی انہوں نے سب سے پہلے مسلم ووٹروں کو مستقل طور پر اپنی طرف کرنے کی کوشش شروع کی۔ اس کے لئے انہوں نے سال 2006 میں بھاگل پور فسادات کی دوبارہ عدالتی جانچ کرانے کا اعلان کیا۔اس سے فساد متاثرین میں انصاف کی امید جگی اور بی جے پی کے ساتھ اتحاد ہونے کے باوجود اقلیتی ووٹروں کانتیش پر بھروسہ قائم ہونے لگا۔ اقلیتی کمیونٹی نے نتیش پر بھروسہ رکھا، تو اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان دنوں نتیش کے کام کاج میں بی جے پی کی مداخلت کم از کم ہوا کرتی تھی۔
اس بیچ جے ڈی یو نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد ختم کر آر جے ڈی سے ہاتھ ملا لیا اور 2015 کے اسمبلی انتخاب میں جیت درج کی۔ اس انتخاب میں بھی اقلیتی کمیونٹی نے جے ڈی یو کو جمکر ووٹ ڈالا اور پارٹی کے 6مسلم امیدواروں میں سے 5 کو اسمبلی پہنچایا۔لیکن،2017 میں نتیش کمار نے آر جے ڈی سے اتحاد ختم کر لیا اور دوبارہ بی جے پی کے ساتھ ملکر حکومت بنائی۔ لیکن، ان کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ وہ جس بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے جا رہے ہیں، وہ اٹل-اڈوانی کی نہیں بلکہ مودی-شاہ کی بی جے پی ہے۔مودی-شاہ کی بی جے پی نے نتیش کمار کو پہلے جیسی کھلی چھوٹ نہیں دی۔ کئی معاملوں میں بی جے پی کی مداخلت صاف دکھی۔ بتایا جاتا ہے کہ بھاگل پور فساد کے دوران سوالوں کے گھیرے میں آئے ایس پی کے ایس دوویدی کو ڈی جی پی بنانے کے پیچھے بی جے پی کا ہاتھ تھا۔
یہی نہیں، اس سال رام نومی کے وقت بی جے پی رہنماؤں کی طرف سے اشتعال انگیز بیان دئے گئے، جس کی وجہ سےنتیش کمار کو عوامی طور پراپیل کرنی پڑی کہ لوگ ان بیانات کے جھانسے میں نہ آئیں۔ اور تو اور تشدد کےملزم بی جے پی رہنماؤں پر کارروائی کو لےکر بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے نتیش کے خلاف ہی مورچہ کھول دیا تھا۔سیاسی تجزیہ کار سرور احمد کہتے ہیں،’سال 2010 میں بی جے پی بہت کمزور تھی اور آر جے ڈی سپریمو لالو پرساد یادو کا جادو ڈھلان پر تھا۔ اس وقت بھی مسلمانوں نے نتیش پر بھروسہ قائم رکھتے ہوئے ان کو ووٹ دیا۔ ابھی کے حالات ویسے نہیں ہیں۔ مسلم ووٹر یہ سمجھنے میں لگے ہیں کہ موجودہ بہار این ڈی اے میں جے ڈی یو سے زیادہ بی جے پی کی چلتی ہے۔ ‘
انہوں نے آگے کہا، ‘دوسری طرف تیجسوی یادو کو لےکر بھی کچھ امید جگی ہے، اس لئے بہار کے مسلمان ووٹر نتیش کمار کو لےکے بہت زیادہ پُرامید نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ‘نتیش کمار بھی اقلیتی ووٹروں کی اس نفسیات سے پوری طرح واقف ہیں۔ یہی وجہ رہی کہ اس سال 15 اپریل کو جے ڈی یو کے اشارے پر پٹنہ کے گاندھی میدان میں مسلمانوں کی بڑی تنظیم عمارتِ شرعیہ اور مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے ‘دین بچاؤ دیش بچاؤ ‘ریلی کا انعقاد کیا گیا۔
اس اجلاس میں مسلم علماء نے لاکھوں کی تعداد میں موجود مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے تین طلاق سمیت کئی مسائل پر اپنی بات رکھی تھی۔ پروگرام میں مرکز کی بی جے پی حکومت پر تیکھے حملے کئے گئے تھے۔ لیکن، حیرت انگیز طور پر نتیش کمار کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا بلکہ ان کی شان میں قصیدے گڑھے گئے تھے۔اس اجلاس کے انعقاد کی مناسبت کو لےکر تمام طرح کے قیاس تھے۔ ان قیاس آرائیوں پر اس وقت سکتہ لگ گیا، جب اسی شام پروگرام کے ایک کنوینر خالد انور جے ڈی یو میں شامل ہو گئے اور ان کو ایم ایل سی بھی بنا دیا گیا۔
اس واقعے سے اقلیتوں کو یہ سمجھ میں آ گیا کہ جے ڈی یو نے نتیش کمار کی سیکولر امیج کو مضبوطی دینے کے لئے اس کا انعقاد کرایا تھا اور علماء سے نتیش کی تعریف کروائی تھی۔بعد میں یہ بھی پتہ چلا کہ بہار حکومت نے 40 لاکھ روپے خرچ کئے تھے۔ حالانکہ، اس سے نتیش کمار کو سیاسی فائدہ پہنچےگا، ایسا دعوے کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔عمارتِ شرعیہ کے مولانا انیس الر حمان قاسمی کہتے ہیں،’نتیش کمار کام تو کرتے ہیں، اس لئے ابھی مسلمان ان کے ساتھ ہیں، لیکن انتخاب کے وقت ان کا رخ کس طرف ہوگا، کہہ نہیں سکتے۔ مسلمان نتیش کو پسند تو کر رہے ہیں، مگر جب ووٹنگ کا وقت آئےگا تو وہ یہ دیکھیںگے کہ آئین کی بنیادی چیزوں پر کون سی پارٹی زیادہ عمل کرتی ہے۔ ‘
17 فیصدی ووٹ کسی بھی پارٹی کے لئے اہم ہوتا ہے۔ خاص کر جے ڈی یو کے لئے تو یہ ووٹ بینک اور بھی اہم ہیں کیونکہ اشرافیہ طبقہ بی جے پی کو اور پسماندہ کمیونٹی آر جے ڈی کو ووٹ دیتی ہیں۔ پسماندہ ذاتوں کے بہت چھوٹے سے حصے کا ووٹ جے ڈی یو کی جھولی میں جاتا ہے۔
پچھلے دو ضمنی-انتخابات میں آر جے ڈی کی جیت سے نتیش کمار کو یہ بخوبی احساس ہو گیا ہے کہ اقلیتی ووٹ بینک ان کے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے۔ جے ڈی یو کے کئی مسلم رہنما بھی مانتے ہیں کہ اقلیتی ووٹروں میں نتیش کمار کو لےکر ناراضگی ہے۔پارٹی کے ایک مسلم ایم ایل اے نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر کہتے ہیں،’اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ نتیش جی کو لےکر اقلیتی کمیونٹی میں شبہ ہے۔ نتیش جی جس پارٹی (بی جے پی)کے ساتھ اتحاد میں ہیں، اس پارٹی کا رویہ اقلیتوں کو لےکرٹھیک نہیں ہے۔ بی جے پی کے رہنما اقلیتوں کو ڈراتے-دھمکاتے ہیں۔ ‘
پارٹی کے ایک دیگر مسلم ایم ایل اے نے نام نہیں چھاپنے کی شرط پر کہا، ‘ گزشتہ سال مہا گٹھ بندھن سے الگ ہونے کی وجہ سے اقلیتی کمیونٹی میں ان کو (نتیش کمار)لےکر خاصا غصہ ہے۔ اس کو دور کرنے کے لئے حکومت نے کئی نئے اعلان کیے ہیں۔ ‘یہاں یہ بھی بتا دیں کہ مہا گٹھ بندھن سے ناطہ توڑنے کے بعد نتیش حکومت نے اقلیتوں کے لئے کئی نئی اسکیمیں شروع کیں۔مثلاً پہلے بہار بورڈ سے 10ویں اور 12ویں کے امتحان فرسٹ کلاس سے کامیاب ہونے والے طالب علموں کو 10 ہزار اور 15 ہزار روپے نقد انعام دئے جاتے تھے۔ گزشتہ سال سے حکومت نے مدرسہ سے فوقانیہ (10ویں) اور مولوی (12ویں) کے امتحان میں فرسٹ ڈویزن لانے والے طالب علموں کو بھی نقد انعام دینے کی اسکیم شروع کی۔
اسی طرح، پہلے تین طلاق کے تحت طلاق شدہ مسلم خواتین کو 10 ہزار روپے کی مالی مدد کی جاتی تھی، جس کو اب بڑھاکر 25 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔اقلیتی اکثریتی گاؤں میں کمیونٹی ہال، ہر ضلع میں ماڈل اسکول، ہاسٹل میں رہنے والے اقلیتی کمیونٹی کے طالب علموں کو ہر مہینے 15 کلو اناج اور ایک ہزار روپے مالی مدد جیسی اسکیمیں بھی حال فی الحال شروع کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی صوبے کے تمام کالجوں اور ریاستی اسمبلی میں میں اردو زبان جاننے والوں کے لئے ریزرو عہدوں پر جلد تقرری کرنے کا بھی فیصلہ لیا گیا ہے۔مسلم ووٹروں کو لبھانے کی قواعد کے تحت ہی جے ڈی یو نے تین طلاق کے مدعا پر بی جے پی سے مختلف رائے رکھی تھی۔
جے ڈی یو کے سینئر رہنما اور راجیہ سبھا رکن پارلیامان آر سی پی سنگھ نے پارٹی کا رخ صاف کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ تین طلاق پر فیصلہ لینے کا حق مسلم سماج کو ہے، اس لئے مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس کو مسلم سماج کے ذمہ چھوڑ دے۔بہار میں فی الحال جے ڈی یو کے 4 ایم ایل اے (ضمنی انتخاب میں ایک سیٹ جے ڈی یو ہار گیا تھا)اور6ایم ایل سی ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق، اقلیتی ووٹروں کو بھروسے میں لینے کا ذمہ انہی مسلم ایم ایل اے اور ایم ایل سی کو دیا گیا ہے۔جے ڈی یو ایم ایل اے محمد مجاہد عالم کہتے ہیں،’ہمیں احساس ہے کہ اقلیتوں میں جے ڈی یو کو لےکر ناراضگی ہے۔ اس ناراضگی کو دور کرنے کے لئے ہم لوگ اقلیتی کمیونٹی کے پاس نتیش جیکے کام کو لےکر جائیںگے۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: خبریں