مدیر کی حیثیت سے جمال خاشقجی نے ایسی تحریریں شائع کیں جو سعودی حکام کی قدامت پسند سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔مگر ان کی اسی انقلابی سوچ کی وجہ سے مغرب میں ان کے بہت سارے مداح پیدا ہو گئے جو انھیں ایک آزاد خیال اور ترقی پسند صحافی کے طور پر دیکھنے لگے۔
یہ بات2003 کی ہے۔ معروف صحافی کلدیپ نیر جدہ کے دورے پر تھے، ہندوستانی کمیونٹی کے ذریعہ منعقد ایک پروگرام میں شرکت کی غرض سے۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ سعودی صحافیوں سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے چند لوگوں سے وقت لیا اور انھیں اپنے ساتھ لے کر گیا۔ اُن میں ایک صحافی جمال خاشقجی تھے۔ وہ ان دنوں عربی روزنامہ الوطن کے ایڈیٹر تھے۔انہوں نے بہت کھل کر باتیں کیں۔ اتنا کھل کر کہ جس کی توقع کسی سعودی سے عام طور پر نہیں کی جاتی، خاص کر کسی غیر ملکی کی موجودگی میں۔
خاشقجی نے اپنے ملک کو درپیش چیلنجز پر گفتگو کی جس میں انہوں نے پریس کی آزادی کا مسئلہ اٹھایا، انسانی حقوق کا ذکر چھیڑا اور خواتین کی آزادی پر بھی اظہار خیال کیا۔ مجھے یاد ہے جب انہوں نے سعودی عرب میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا ذکر کیا تو کلدیپ نیر نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔ غالباً ہندوستان سے جانے والے ایک صحافی کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ ایک ملک جو لاکھوں لاکھ غیر ملکیوں کو روزگار فراہم کرتا ہے خود اپنے لوگوں کو روزگار دینے سے قاصر ہے۔یہاں خاشقجی انہیں یہ بتا رہے تھے کہ سعودی نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی اصل وجہ بے روزگاری ہے جس پر سعودی حکمرانوں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
بحیثیت مدیر خاشقجی ایک الگ ہی سانچے میں ڈھلے ہوئےثابت ہو رہے تھے۔ جس قسم کی رپورٹنگ کو وہ اپنے اخبار میں جگہ دے رہے تھے سعودی سماج اس کا عادی نہیں تھا۔وہ بے ایمان سرکاری افسروں کو بے نقاب کر رہے تھے اور سماج میں تبدیلی کی باتیں کر رہے تھے۔ اُنھیں ان کی بے باکی مہنگی پڑی۔ صرف دو مہینے میں انہیں برخاست کر دیا گیا۔ سعودی عرب میں کسی اخبار کا ایڈیٹر ہونا آسان نہیں۔ اخبار چاہے کسی پرائیویٹ ادارے کا ہی کیوں نہ ہو ایڈیٹر اسے ہی بنایا جاتا جس کے نام پر شاہ کی مہر سبط ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خاشقجی کی رسائی حاکم وقت تک تھی۔
2 اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصل خانے سے ان کی گمشدگی اور بعد میں عالمی دباؤ کے نتیجے میں سعودی حکومت کی جانب سے ان کے قتل کی تصدیق کے بعد میڈیا نے انھیں “ایک درون خانہ فرد جو سعودی حکام سے دور ہو گیا” کہہ کر یاد کیا جو بالکل صحیح ہے۔ مزاج میں انقلابیت کے باوجود خاشقجی حکمراں طبقے سے کافی قریب تھے خاص کر سعودی عرب کی خفیہ ایجنسیوں اور چند اہم شہزادوں سے۔جن لوگوں سے ان کے ذاتی نوعیت کے مراسم رہے ہیں ان میں امیر ترین شہزادہ اورعرب پتی الولید بن طلال اور شہزادہ ترکی الفیصل، جو کہ سعودی خفیہ ایجنسی کے سربراہ اور لندن اور واشنگٹن میں اپنے ملک کے سفیر رہ چکے ہیں، کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں شہزادے موجودہ دور حکومت میں معتوب چل رہے ہیں۔
اپریل 2007 میں خاشقجی ایک بار پھر الوطن کے ایڈیٹر بنائے گئے۔ اس بار وہ 3 سال اس عہدے پر قائم رہے۔ مئی 2010 میں انھیں دوبارہ باہر کا راستہ دکھایا گیا۔دونوں ہی موقعوں پر ان کی برخاستگی کی وجہ ان کی انقلابی سوچ تھی۔ انہوں نے ایسی تحریریں شائع کیں جو سعودی حکام کی قدامت پسند سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ مگر ان کی اسی انقلابی سوچ کی وجہ سے مغرب میں ان کے بہت سارے مداح پیدا ہو گئے جو انھیں ایک آزاد خیال اور ترقی پسند صحافی کے طور پر دیکھنے لگے۔مغربی ذرائع ابلاغ نے انھیں اصلاح پسنداور انتہا پسند گروہوں پر نظر رکھنے والے ایکسپرٹ کی حیثیت سے ان کی رائے لینی شروع کر دی۔
سعودی اخبارات کے مدیران میں سے اکثر کا تعلق صحافت کے پیشے سے نہیں ہوتا ہے۔ ان کے برخلاف خاشقجی ایک پیشہ ورصحافی تھے۔ گو انہوں نے بھی امریکہ سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری لی تھی مگر اس کے بعد صحافت کو پیشے کے طور پر اپنایا۔شروعات 1985 میں جدہ سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ سعودی گزٹ سے کی جہاں انہوں نے دو سال کام کیا۔اس کے بعد انہوں نے عربی اخبارات الشرق الاوسط، المجلہ اور المسلمون میں کام کیا۔ 1991 سے 99 کے بیچ عربی روزنامہ المدینہ کے منیجنگ ایڈیٹر اور قائم مقام ایڈیٹر-ان-چیف رہے۔1999 سے 2003 تک انگریزی رزنامہ عرب نیوز کے ڈپٹی ایڈیٹر-ان-چیف بنے جس کے بعد انھیں الوطن کی قیادت کا موقعہ ملا گو یہ سلسلہ صرف دو مہینے ہی چل سکا۔
نوےکی دہائی میں خاشقجی نے خارجہ نامہ نگار کے طور پر بھی شہرت حاصل کی جب انھیں افغانستان، الجزائر، سوڈان اور مشرق وسطیٰ کے متعدد ملکوں سے رپورٹنگ کا موقعہ ملا۔وہ اُن معدودے چند سعودی صحافیوں میں سے تھے جنہیں اسامہ بن لادن تک رسائی حاصل تھی۔ انہوں نے ایک سے زیادہ بار اس شخص کا انٹرویو کیا تھا جو سعودی عرب کا باغی تھا اور تخریب کاری کا ٹھپہ لگنے کے بعد روپوش تھا۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ خاشقجی یہ کام سعودی حکام کی مرضی سے کرتے رہے ہوں گے۔ خاشقجی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 80 کی دہائی میں جب امریکہ کی ایما پر سعودی عرب نے اپنے نوجوانوں کو سوویت فوجوں سے لڑنے کے لئے افغانستان بھیجا تو اسامہ بن لادن کے ساتھ وہ بھی شامل تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں رہتے ہوئے وہ سعودی خفیہ ایجنسی کے لئے کام کیا کرتے تھے۔
اس پس منظر میں یہ سوال بہت اہم ہو جاتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہو گیا کہ حاکم وقت نے انھیں جان سے مارنے کا فیصلہ کر لیا اور اس قدر بربریت کا مظاہرہ کیا کہ وہ اپنے آپ میں ایک مثال بن گیا۔ان کے قتل کے لئے سعودی عرب سے پندرہ شہ زوروں کو ترکی بھیجا گیا جو اپنے ساتھ ایسی مشین لے کر پہنچے جس سے ان کے جسم کے کئی ٹکڑے کیے گئے تاکہ ان کی لاش تک کا پتہ نہ چلے۔اس سوال کا سیدھا جواب ملنا تو مشکل ہے مگر اسے جون 2017 میں شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد شاہی خاندان میں چل رہی داخلی جنگ کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔
گزشتہ سال جن200 شہزادوں، سرکاری و فوجی افسروں، بینکروں اور بڑے تاجروں کو ریاض کے رٹز کارلٹں ہوٹل میں نظر بند کیا گیا تھا ان میں چند آج بھی زیر حراست ہیں۔خاشقجی کا تعلق شاہی خاندان سے نہیں تھا مگر ان کے مراسم بعض شہزادوں سے بہت گہرے تھے ان میں وہ بھی شامل ہیں جو نظر بند کئے گئے تھے اور آزادی ملنے کے باوجود بدستورمعتوب ہیں۔خاشقجی سال بھر سے خود ساختہ جلا وطنی میں امریکہ میں مقیم تھے اور واشنگٹن پوسٹ میں اپنے کالموں اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ شہزادہ محمد کو براہ راست نشانہ بنا رہے تھے۔ اگر وہ ملک کے اندر ہوتے تو ان سے نپٹنا آسان ہوتا مگر وہ امریکہ میں بیٹھ کر بغاوت کا بگل بجا رہے تھے۔بہت ممکن ہے کہ خاشقجی کے قتل کے ساتھ موجودہ حکمران مخالفین تک کوئی پیغام پہنچانا چاہتے ہوں۔
ابتداً سعودی عرب نے خاشقجی کے قتل سے انکار کیا مگر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی مسلسل مہم کے آگے اسے جھکنا پڑا۔ اردوگان نے اپنی مہم کے لئے ترک میڈیا سے زیادہ مغربی میڈیا جیسے را ئٹر اور بی بی سی وغیرہ کو استعمال کیا۔ اس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ یورپ اور امریکہ کی راجدھانیوں میں وہ شور مچا کہ سعودی عرب کو اپنا جرم قبول کرنا ہی پڑا۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی اپنے اقتصادی مفاد سے باہر آئے اور بیان دیا کہ وہ خاشقجی کی موت کے حوالے سے سعودی حکام کی فراہم کردہ وضاحتوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ صدر اردگان کا اس معاملے میں خصوصی دلچسپی لینا بھی معنی خیز ہے جس کے پیچھے ترکی اور سعودی عرب کے بیچ جاری سرد جنگ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہ جنگ سال بھر پہلے سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر کے ذریعہ قطر پر لگائی گئی پابندیوں کے بعد اور بھی سنگین ہو گئی ہے کیونکہ ترکی اور ایران قطر کے ساتھ کھڑے ہیں۔
مزید برآں، اس پورے معاملے میں مغربی ممالک، خاص کر امریکہ کا رد عمل حیرت انگیز ہے۔خلیجی حکمرانوں کے ذریعہ اپنے مخالفین کو جیل میں ڈالنا، انھیں ٹارچر کرنا اور ان کی جان لے لینا معمول کی بات ہے جسے مغرب اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے پیش نظر عموماً نظر انداز کرتا رہتا ہے۔ٹرمپ کا ابتدائی بیان مغربی دنیا کے رویہ کی صحیح طور پر عکاسی کرتا ہے۔انہوں نے جہاں خاشقجی کے قتل پر تشویش کا اظہار کیا وہیں یہ بھی کہا: “میں اپنے ملک میں آنے والی سرمایہ کاری کو گنوانا نہیں چاہتا۔ میں ایک ملین نوکریوں کو گنوانا نہیں چاہتا۔ میں ایک سو دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کو گنوانا نہیں چاہتا۔” یہ اور بات ہے کہ جب عوامی دباؤ بڑھا تو ٹرمپ کا بیان بدل گیا اور انہوں نے اس معاملے میں خصوصی دلچسپی دکھانی شروع کر دی۔ اپنے کابنی وزیروں کو ریاض اور انقرہ دوڑایا۔
سعودی عرب نے نہ صرف یہ قبول کیا ہے کہ سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کی جان لی گئی بلکہ اعلان کیا کہ 18 مشتبہ اہلکاروں کو اس سلسلے میں تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دو سینئر حکام کو برطرف بھی کیا گیا ہے۔یہ دونوں احمد الاسیری جو کہ خفیہ اجنسی کے ایک سینئر ذمہ دار ہیں اور سعود القہتانی جو کہ رائل کورٹ کے میڈیا ایڈوائزر ہیں شہزادہ محمد کے مشیر خاص ہیں۔خاشقجی کے قتل میں شک کی سوئی شہزادہ محمد پر ٹکی ہوئی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں ان کی برخاستگی کی مانگ اٹھنی شروع ہو چکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ معاملہ کیا کروٹ لیتا ہے۔
Categories: فکر و نظر