حکومت کے پاس اگر سپریم کورٹ کے حکم کو نافذ کرانے کا ڈھانچہ اور ارادہ نہیں ہے تو پھر سپریم کورٹ کو ہی حکومت سے پوچھ لینا چاہیے کہ ہم حکم دینا چاہتے ہیں، پہلے آپ بتا دیں کہ آپ نافذ کرا پائیںگے یا نہیں۔
رات 10 بجتے ہی ہندوستان کا سپریم کورٹ اقلیت کی طرح سہما اور دبکا کھڑا نظر آنے لگا۔ کہاں تو سپریم کورٹ کا حکم اکثریت کی خواہش ہو جانی چاہیے تھی مگر یہاں تو اکثریت کے نام پر اکثریت سپریم کورٹ کو اپنی خواہش کا حکم دینے لگی ہے۔10 بجتے ہی اس کا ایک بڑا حصہ سپریم کورٹ کی بے عزتی کرنے لگا۔ 23 اکتوبر کا حکم کہ صرف رات آٹھ سے دس کے درمیان ہی پٹاخے جلائے جائیںگے، دھنواں-دھنواں ہو چکا تھا۔ سپریم کورٹ کی خواہش اب سپریم نہیں رہی۔
آزاد ہندوستان کی تاریخ کی یہ سب سے شرمناک دیوالی رہی۔ جن لوگوں نے بھی 10 بجے کے بعد پٹاخے چھوڑے ہیں یا تو وہ واقعی معصوم تھے یا پھر جان رہے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ روایت کے بھی مجرم ہیں اور آئین کے بھی مجرم ہیں۔ سپریم کورٹ کا حکم عملی نہیں تھا۔ حکومت اگر احکام کو نافذ نہ کرے تو سپریم کورٹ کا ہر حکم غیر عملی ہو سکتا ہے۔ ایک دن یہ سیاسی رہنما یہ بھی کہہ دیںگے کہ سپریم کورٹ کا ہونا ہی عملی نہیں ہے۔ ہمیں مینڈیٹ ملا ہے، فیصلہ بھی ہم ہی کریںگے۔
پٹاخے نہ چھوڑنے کا حکم 23 اکتوبر کو آیا تھا مگر بھیڑ کے تشدد پر قابو پانے کا حکم تو جولائی میں آیا تھا۔ کورٹ نے ڈسٹرک لیول پر پولیس کو کیا کرنا ہے، اس کا پورا خاکہ بنا دیا تھا۔ پھر بھی دشہرے کے بعد بہار کے سیتامڑھی میں کیا ہوا۔ یہاں پولیس نے جس راستے سے مورتی وسرجن کا جلوس نہیں لے جانے کو کہا تھا، بھیڑ اسی علاقے سے لے جانے کی ضد پر اڑ گئی۔ دونوں طرف سے پتھراؤ شروع ہو گیا۔ 80 سال کے زین الانصاری کو بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مار دیا۔
بھیڑ کے تشدد پر سپریم کورٹ کے حکم کے تین مہینے بعد بھی ایک بزرگ کو مار دیا گیا۔ مار دینے کے بعد زین الانصاری کی لاش کو جلانے کی بھی کوشش ہوئی۔ کیا اب ہم یہ کہیںگے کہ بھیڑ کے تشدد کو قابو نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کا حکم نافذ ہی نہیں ہو سکتا۔ کیا بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار یہ کہنا چاہتے ہیں؟ اس لئے سوال یہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم عملی تھا۔ سوال یہ ہے کہ جن پر حکم نافذ کرانے کی ذمہ داری ہے کیا ان کی زبان اور کرتوت آئینی ہے؟ کیا وزیر اعظم نے پٹاخے نہیں چھوڑنے کی اپیل کی؟
کیا امت شاہ نے اپیل کی، کیا کسی بھی وزیراعلیٰ نے پٹاخے نہ چھوڑنے کی اپیل کی؟ حکومت کے پاس اگر سپریم کورٹ کے حکم کو نافذ کرانے کا ڈھانچہ اور ارادہ نہیں ہے تو پھر سپریم کورٹ کو ہی حکومت سے پوچھ لینا چاہیے کہ ہم حکم دینا چاہتے ہیں پہلے آپ بتا دیں کہ آپ نافذ کرا پائیںگے یا نہیں۔
میں کیرل کی کمیونسٹ سرکار کو خبردار کرنے آیا ہوں، سپریم کورٹ کے ججمنٹ کے نام سے بھگوان ایپا کے بھکتوں پر ظلم نہ کریں۔ کیرل حکومت سپریم کورٹ کے ججمنٹ کی آڑ میں بھگوان ایپا کے بھکتوں پر ظلم و ستم بند کرے۔ یہ کمیونسٹ حکومت کان کھولکر سن لے، جس طرح سے بھگوان ایپا کے بھکتوں پر ظلم و ستم کر رہے ہو، بھارتیہ جنتا پارٹی پورے ملک کے کیرل کے عقیدت مند بھکتوں کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑی رہےگی۔ میں وزیراعلیٰ وجین کو خبردار کرنے آیا ہوں کہ اگر آپ نے یہ ظلم بند نہیں کیا تو بی جے پی کا کارکن آپ کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دےگا۔ آپ کی حکومت زیادہ دن نہیں چل سکےگی۔ جہاں تک عقیدے کا سوال ہے میں مانتا ہوں کہ بی جے پی کا کارکن بھگوان ایپا کے بھکتوں کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا رہےگا۔ ہمیں کوئی ڈگا نہیں سکتا ہے۔
یہ امت شاہ کی زبان ہے، جو ہندوستان میں دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کے قومی صدر ہیں۔ جس پارٹی کی مرکز اور 19 ریاستوں میں حکومت ہے۔ یہ عقیدے کے سوال پر بھکتوں کے ساتھ ہیں اور ان کی تقریر میں آپ کو کہیں بھی نہیں سنائی دےگا کہ یہ سپریم کورٹ کے حکم کے ساتھ ہیں۔ بلکہ زبان سپریم کورٹ کے خلاف ہے۔
یہ بھی پڑھیں :سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود 50 لاکھ کلو پٹاخےجلائے گئے
یہ زبان پہلی بار نہیں بولی جا رہی ہے۔ 1992 میں بھی بولی گئی تھی۔ تب تو سپریم کورٹ کو لکھکر بھروسہ دیا گیا تھا مگر اس کی بھی پرواہ نہیں کی گئی۔ اب تو سپریم کورٹ کے لکھے ہوئے احکام کی کھلےعام دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ امت شاہ کیرل کے وزیراعلیٰ کو چیلنج دے رہے ہیں کہ آپ سپریم کورٹ کے کئی حکم نافذ نہیں کر سکے، صرف ایک ہی حکم کو نافذ کرنے کے پیچھے کیوں پڑے۔ کیا امت شاہ صاف صاف نہیں کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم کو نافذ کرنے کی ہمت کیسے کی؟
آپ مرکزی وزیر گری راج سنگھ کی زبان کو سنیے۔ کیسے سپریم کورٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ گری راج سنگھ ہندو صبر کے ٹوٹنے کی بات کر رہے ہیں۔ دہلی میں مذہبی رہنما جمع ہوتے ہیں، وزیر اعظم کو رام کا اوتار کہتے ہیں اور سپریم کورٹ کو مندر مخالف۔ وہاں اس طرح کے بیان دئے گئے کہ سپریم کورٹ میں مندر مخالف لوگ ہیں۔ مذہب کے دائرے سے لگاتار سپریم کورٹ کی ساکھ پر حملہ ہو رہا ہے۔ اس کے وجود پر حملہ ہو رہا ہے۔ یہی بات اقلیتی کمیونٹی کا کوئی سنکی مولانا کہہ دیتا تو گودی میڈیا آگ اگلنے لگتا۔
نیوز اینکر فسادات کے پہلے بٹنے والے پمفلیٹ کی زبان اب کھلےعام بولنے لگے ہیں۔ اب سمجھ میں آ رہا ہے، سپریم کورٹ کو چیلنج دینے والی زبان سے دقت نہیں ہے۔ یہ زبان کون بول رہا ہے، اس کا مذہب کیا ہے، اس کی پارٹی کیا ہے، اس سے دقت ہے۔ سپریم کورٹ کو کون چیلنج دے سکتا ہے، یہ مذہب اور اس کے کپڑے کے رنگ سے طے ہوگا۔ دیوالی کی رات دس بجے کے بعد پٹاخے چھوڑنے والے یہی زبان بول رہے تھے۔ جن لوگوں نے صرف پٹاخوں کا شور سنا، انہوں نے کچھ نہیں سنا۔ ان کو یہ سننا چاہیے تھا جس کی آہٹ سے ہمارا پبلک اسپیس بھر گیا ہے۔
نیوز چینلوں کی زبان اور ان کے اسکرین کے رنگ دیکھیے۔ میڈیا 1992 میں بھی فرقہ پرست ہو گیا تھا۔ 2018 میں اس سے زیادہ فرقہ پرست ہو گیا ہے۔ یہ حالت پہلے سے بھی خطرناک ہے۔ حکومت چلانے والوں اور ان کی حمایتیوں کی زبان بھیڑ کو نارمل بنا رہی ہے۔ اس کو آنے والے وقت کے لئے تیار کر رہی ہے۔ جیسے ہی آپ تشدد اور بے عزتی کی زبان کے متعلق نارمل ہونے لگتے ہیں، آپ اس بھیڑ میں شامل ہونے اور تشدد کرنے کے لئے خود کو تیار کرنے لگتے ہیں۔
دیوالی کی آدھی رات روشنی سے جہاں ملک جگمگانے کی غلط فہمی میں ڈوبا تھا، وہیں اس روشنی کے اندھیرے میں ہمارا سپریم کورٹ بھیڑ سے گھیر لئے گئے ایک اقلیت کی طرح اکیلا کھڑا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر کاربن ڈائی آکسائڈ کی تہیں جمنے لگی ہیں۔ آرڈر-آرڈر کی آواز عقیدے سے بنی بھیڑ کے درمیان کھوتی چلی جا رہی ہے۔ یور آنر، یور آنر بولنے والے لوگ سپریم کورٹ کے آنر سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔
جو خاموش ہیں، وہ اپنے ہاتھ سے بنائے اداروں کے مٹانے کی تاریخ رچ رہے ہیں۔ شکریہ ان بچوں کا جو سپریم کورٹ کو نہیں جانتے، مگر ہوا میں تیر رہے ان کالے ذرات کو جان گئے ہیں جن سے ان کا پھیپھڑا خاک ہو سکتا ہے۔ بھلا ہو ان شہریوں کا جو بچے نہیں ہیں، مگر ہوا میں تیر رہے ان کالے ذرات کو نہیں پہچان پا رہے ہیں جن سے جمہوریت خاک ہو سکتی ہے۔ دیوالی مبارک۔
(یہ مضمون بنیادی طور پ رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر