امت شاہ آدھے سے زیادہ ایم ایل اے کا ٹکٹ کاٹنا چاہتے ہیں جبکہ وسندھرا راجے 80 فیصد سے زیادہ ایم ایل اے کو پھر سے ٹکٹ دینے کے حق میں ہیں۔ اس رسّہ کشی میں شاہ کے ساتھ پوری ٹیم ہے جبکہ راجے اکیلی جدّو جہد کر رہی ہیں۔
راجستھان کی ریاستی صدر ہونے کے معاملے میں وسندھرا راجے کی ضد کے سامنے سرینڈر کر چکے بی جے پی صدر امت شاہ ٹکٹ تقسیم کے مدعے پر ان سے دو دو ہاتھ کرنے کے موڈ میں ہیں۔شاہ نے اپنی سطح پر کروائے سروے اور سنگھ اور متعلقہ تنظیموں کی گراؤنڈ رپورٹ کی بنیاد پر آدھے سے زیادہ ایم ایل اے کے ٹکٹ پر تلوار لٹکا دی ہے، لیکن وسندھرا 20 فیصد سے زیادہ ایم ایل اے کے ٹکٹ کاٹنے کو تیار نہیں ہیں۔
غور طلب ہے کہ راجے گزشتہ31 اکتوبر کو اسمبلی انتخابات کے لئے پارٹی کے امیدواروں کے نام طے کرنے کے لئے امت شاہ سے ملی تھیں۔ اس دوران سابق ریاستی صدر اشوک پرنامی اور پنچایتی راج کے وزیر راجیندر راٹھوڑ بھی ان کے ساتھ تھے۔ ذرائع کے مطابق وہ جو فہرست اپنے ساتھ لے گئی تھیں اس میں 90 نام تھے۔اس فہرست کو راجے نے جئے پور اور رنک پور میں ہوئی رائےشماری کے بعد آخری شکل دی تھی۔
غور طلب ہے کہ ریاست کی بی جے پی کی طرف سے 12 ہزار کارکنان اور عوامی نمائندوں سے پارٹی امیدوار کے بارے میں رائے پوچھی گئی تھی۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس کی بنیاد پر 90 سیٹوں پر سنگل نام کا پینل تیار کیا گیا۔ وسندھرا کو امید تھی کہ شاہ جاتے ہی اس فہرست پر مہر لگا دیںگے، لیکن ہوا اس کا الٹا۔دراصل، سب سے پہلے شری گنگا نگر ضلع کی سیٹوں پر چرچہ شروع ہوئی۔یہاں کی ایک سیٹ پر وسندھرا موجودہ بزرگ ایم ایل اے کی جگہ ان کے بیٹے کا نام طے کر کے گئی تھیں۔
جانکاری کے مطابق اس کو دیکھتے ہی امت شاہ کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ایم ایل اے جیتنے کی حالت میں نہیں ہے تو ان کا بیٹا کیسے جیت درج کرےگا۔بی جے پی سے جڑے ذرائع کے مطابق، امت شاہ نے اپنی طرف سے کرائے گئے سروے اور گراؤنڈ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کڑے لہجے میں کہا کہ پارٹی اس کو ہی ٹکٹ دےگی جو جیتنے کی حالت میں ہوگا۔ صرف اس بنیاد پر کسی کو ٹکٹ نہیں دیا جائےگا کہ وہ وزیر، ایم ایل اے، بڑا رہنما یا کسی کا چہیتا ہے۔ انتخاب راجستھان میں پھر سے حکومت بنانے کے لئے لڑا جا رہا ہے نہ کہ کسی پر مہربانی کرنے کے لئے۔
شاہ کے تلخ تیور سے مبہوت وسندھرا نے دلیل دی کہ جو لوگ پارٹی اور ان سے لمبے وقت سے جڑے ہوئے ہیں ان کی اندیکھی کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ ان لوگوں کو ساتھ لےکر نہیں چلیںگے تو انتخاب میں نقصان ہوگا، لیکن راجے کی اس دلیل سے امت شاہ متفق نہیں ہوئے۔
ذرائع کے مطابق، امت شاہ نے ریاست کی قیادت کو تمام سیٹوں پر کم سے کم تین دعوے دار کا پینل بناکر لانے کے لئے کہا ہے۔ ساتھ ہی ہر سیٹ کے ذات پات والے اعداد و شمار، پانچ سال میں ہوئے ترقیاتی کام، 2013 کے اسمبلی انتخاب کا ووٹنگ پیٹرن، موجودہ سیاسی، سماجی اور کمیونٹی کی تفصیلات تیار کرنے کے لئے کہا ہے۔
بی جے پی صدر نے رپورٹ میں ٹکٹ کے دعوے دار کی فہرست کے ساتھ موجودہ ایم ایل اے کا ٹکٹ کاٹنے کی حالت میں باغی ہونے سے روکنے کی اسکیم کو بھی شامل کرنے کے لئے کہا ہے۔ ان کی اس ہدایت پر عمل کرنے کے لئے آناًفاناً بی جے پی کے 15 رہنماؤں کو فیڈ بیک لینے ضلع صدر دفتر پر بھیجا گیا۔گلاب چند کٹاریا، راجیندر راٹھوڑ، اویناش رائے کھنہ، وی ستیش، چندرشیکھر،اوم پرکاش ماتھر، ارجن رام میگھوال، گجیندر سنگھ شیکھاوت، نارائن پنچاریا، اوم بڑلا، راجیندر گہلوت، ہری اوم سنگھ، سی پی جوشی، کرن ماہیشوری اور بھجن لال نے مقامی رہنماؤں اور کارکنان کا من ٹٹولنے کے بعد جو نام طے کئے ہیں ان کو دیکھکر بھی وسندھرا کی پیشانی پر پسینہ آ گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق 6 وزراء سمیت کل 60 ایم ایل اے کی رپورٹ وسندھرا کی پسند کے برعکس آئی ہے۔ ابھی تو اس فہرست کو امت شاہ کے پاس موجود رپورٹ سے ملان ہونا باقی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اگر راجستھان میں ٹکٹ تقسیم کا ‘ شاہ فارمولا ‘ نافذ ہوا تو آدھے سے زیادہ ایم ایل اے کا ٹکٹ کٹنا طے ہے۔
ریاست کی بی جے پی میں چل رہی بحث کے مطابق امت شاہ، سنگھ کے سروے میں آدھے سے زیادہ ایم ایل اے کے خلاف رپورٹ آئی ہے۔ ان میں کئی ایسے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ ان میں حکومت کے وزیر اور وسندھرا کے چہیتے بڑے رہنما بھی ہیں۔ راجے کسی بھی صورت میں اپنوں کے ٹکٹ پر قینچی نہیں چلنے دیںگی۔
اس حالت میں وسندھرا راجے اور امت شاہ کے درمیان کشیدگی طے ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ دوسرا موقع ہوگا جب ان دونوں کے درمیان سیاسی تصادم ہوگا۔ اس سے پہلےریاستی صدر کے معاملے میں وسندھرا کے شاہ آمنے سامنے ہوئے تھے۔ تب راجےکی ضد کے سامنے بی جے پی صدر کو سرینڈر کرنا پڑا تھا۔
غور طلب ہے کہ اسی سال فروری میں دو لوک سبھا اور ایک اسمبلی سیٹ کے لئے ہوئے ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی ہارکے بعد مرکزی قیادت نے وسندھرا کے ‘یس مین’مانے جانے والے اشوک پرنامی سے 16 اپریل کو استعفیٰ لیا تھا۔ امت شاہ اس عہدے پر مرکزی زراعت کے ریاستی وزیر گجیندر سنگھ شیکھاوت کو بٹھانا چاہتے تھے۔
نریندر مودی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ بھی شیکھاوت کوریاستی صدر بنانا چاہتے تھے، لیکن وسندھرا راجے نے اس پر اتفاق نہیں کیا۔ پارٹی کی مرکزی قیادت نے راجے کو راضی کرنے کے لئے تمام کوشش کئے، لیکن وزیراعلیٰ ٹس سے مس نہیں ہوئیں۔آخرکار مودی اور شاہ کی پسند پر وسندھرا کا ویٹو بھاری پڑا اور مدن لال سینی ریاستی صدر بنے۔
نریندر مودی کے وزیر اعظم اور امت شاہ کے بی جے پی صدر بننے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب ان دونوں کو پارٹی کے کسی علاقائی صوبہ دار نے نہ صرف سیدھا چیلنج دیا، بلکہ گھٹنے ٹیکنے پر بھی مجبور کر دیا۔ جبکہ مانا یہ جاتا ہے کہ مودی- اور شاہ کی خواہش کے بغیر بی جے پی میں پتا بھی نہیں ہلتا۔امت شاہ کو قریب سے جاننے والے یہ اکثر کہتے ہیں کہ وہ سیدھے چیلنج دینے والوں کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرتے۔ان کے ایک قریبی رہنما کہتے ہیں،’امت شاہ معاف کرنے والے شخص نہیں ہیں۔ وہ وسندھرا سے گجیندر سنگھ شیکھاوت کو صدر نہیں بننے دینے کا بدلہ ضرور لیںگے۔ ٹکٹ ان کی مرضی سے تقسیم ہوں گے نہ کہ وزیراعلیٰ کے کہنے سے۔ ‘
راجستھان کے انتخابات میں اہم کردار نبھا رہے یہ رہنما آگے کہتے ہیں،’اس بار کے انتخابات میں وسندھرا راجے پارٹی کا چہرہ ضرور ہیں، لیکن ان کے اکیلے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے۔امت شاہ نے اویناش رائے کھنہ، وی ستیش، چندرشیکھر، مدن لال سینی، پرکاش جاویڈیکر اور گجیندر سنگھ شیکھاوت کے ذریعے ایسا چکرویو بنایا ہے کہ وسندھرا کو ہاتھ کھڑے کرنے ہی پڑیںگے۔ ‘
قابل ذکر ہے کہ اویناش رائے کھنہ ریاستی انچارج، وی ستیش معاون انچارج، چندرشیکھر تنظیم کے جنرل سیکریٹری اور مدن لال سینی ریاستی صدر کی حیثیت سے پہلے سے ہی راجستھان میں فعال ہیں جبکہ پرکاش جاویڈیکر کو انتخابات کے انچارج اور گجیندر سنگھ شیکھاوت کو الیکشن مینیجمنٹ کمیٹی کا کنوینر بنایا گیا ہے۔
بی جے پی کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی کے نائب صدر اوم پرکاش ماتھر ان سب کے محور ہیں۔ یہ پوری ٹیم سیدھے امت شاہ کو رپورٹ کرتی ہے۔ راجستھان بی جے پی میں ماتھر کی دھمک کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ وسندھرا 90 ناموں کی جس فہرست کو امت شاہ کے پاس لےکر گئی تھیں، اس کو دکھانے ان کو ماتھر کے گھر جانا پڑا۔
ایسے میں وسندھرا کے لئے ٹکٹ تقسیم میں اپنی مرضی چلانا آسان نہیں ہوگا۔ اس تناتنی میں وسندھرا کے سامنے بڑا مسئلہ اکیلے پڑنا ہے۔ ٹکٹ تقسیم میں امت شاہ کے سر میں سر ملانے کے لئے رہنماؤں کی لمبی فہرست ہے، وہیں راجے کی حمایت کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔
حالانکہ راجے خیمے کے رہنماؤں کو ابھی بھی بھروسہ ہے کہ ٹکٹ کا بٹوارہ وزیراعلیٰ کی مرضی سے ہی ہوگا۔ ان کے ایک قریبی رہنما آف دی ریکارڈ بات چیت میں کہتے ہیں،’میڈم نے نہ کبھی کسی کے سامنے سرینڈر کیا ہے اور نہ اب کریںگی۔ کوئی چاہے کتنی بھی کوشش کر لے، لیکن ٹکٹ تقسیم میں آخرکار چلےگی ان کی ہی۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’میڈم کو یہ اندیشہ پہلے سے تھا کہ اس بار ان کے قریبی لوگوں کے ٹکٹ کاٹنے کی کوشش ہوگی۔ ان کو اس کی بھنک تبھی لگ گئی تھی جب امت شاہ نے وزیراعلیٰ کی غیرموجودگی میں پروگرام کئے۔ کوئی کتنا بھی زور لگا لے مگر ٹکٹ اس کو ہی ملےگا جس کو میڈم چاہیںگی۔ جب وہ ضد پر اڑ جاتی ہیں تو کسی کی نہیں سنتی۔ ‘یعنی ٹکٹ تقسیم میں امت شاہ اور وسندھرا راجے کے درمیان تناتنی ہونا طے ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یہ سیاسی لڑائی کتنی لمبی چلےگی اور اس میں جیت کس کی ہوگی۔ پچھلی بار کی طرح وسندھرا ہی بھاری پڑیںگی یا اس بار امت شاہ بازی مار لیںگے۔
Categories: فکر و نظر