سیتامڑھی تشدد کے دوران ایک بزرگ کو زندہ جلا دیا گیا تھا ۔ اس معاملے کے 3 ہفتے بعد بھی ملزمین پولیس کی گرفت سے باہر ہیں ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی ان کا سارا دھیان چٹھ پوجا پر ہے۔
نئی دہلی : بہار کے سیتامڑھی میں گزشتہ مہینے درگا پوجا مورتی وسرجن کے دوران پیٹ پیٹ کر مارے گئے زین الانصاری کے معاملے میں پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔واضح ہوکہ گزشتہ مہینے سیتا مڑھی میں 82سالہ بزرگ زین الانصاری کو بھیڑ نے قتل کردیا تھا ۔ این ڈی ٹی وی کی ایک خبر کے مطابق اس ماب لنچنگ کے 3 ہفتے بعد بھی ملزمین پولیس کی گرفت سے باہر ہیں ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کا دھیان چٹھ کے تہوار پر ہے ۔ ایک بار چٹھ امن وسکون سے گزر جائے پھر اس معاملے میں جانچ آگے بڑھائی جائے گی ۔
رپورٹ کے مطابق تشدد کے دوران انٹرنیٹ خدمات بند کر دی گئیں تھیں ،لیکن ماب لنچنگ کے تین بعد جیسے ہی ایک گھنٹے کے لیے انٹرنیٹ خدمات بحال ہوئیں تب زین الانصاری کے اہل خانہ کو ایک وہاٹس ایپ پر ایک وائرل فوٹو ملا ،جو ان کے قتل سے متعلق تھا۔سیتامڑھی کے ایس پی وکاس برمن کا اس معاملے کی کارروائی کو لے کر کہنا ہے کہ چٹھ پوجا کے بعد کارروائی کی جائے گی ۔ ابھی پولیس کا پورا دھیان امن و سکون کے ساتھ اس تہوار کو مکمل کروانے پر ہے۔
ایس پی نے کہا کہ ابھی تک کل 38لوگ پکڑے گئے ہیں ، لیکن ان کا تعلق تشدد سے ہے نہ کہ زین الانصاری کے قتل سے۔وہیں زین الانصاری کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے پولیس کو ایک ملزم کی فوٹو بھی دی ہے لیکن ابھی تک اس کی پہچان نہیں ہوپائی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پولیس انتظامیہ کے دباؤ کی وجہ سے زین الانصاری کے اہل خانہ کو ان کی تجہیز و تکفین اپنے گاؤں سے 75کیلو میٹر دور مظفر پور میں کرنی پڑی تھی ۔
دی وائر نے اس تشدد کی ایک گراؤنڈ رپورٹ میں لکھاتھا کہ ؛ گئوشالا چوک پر بھاجے کی دکان چلانے والے ایک شخص کا کہنا ہے،جب بھیڑ اپنے انتہا پر تھی اور انتظامیہ ان کو روکنے میں ناکام تھی، تبھی راجوپٹی کی طرف سے ایک بوڑھا شخص آ رہا تھا۔ بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر اس کی جان لے لی۔ اس کے بعد کچھ لوگ اس بزرگ کی لاش کو لےکرگئوشالا کے گیٹ کے پاس گئے اور سڑک کنارے سرعام جلا دیا۔
یہ بھی پڑھیں :سیتا مڑھی سے گراؤنڈ رپورٹ: ’ ایک گھنٹے کا وقت دیجیے سبھی مسلمانوں کو ختم کردیں گے ‘
گئوشالا چوک پر پولیس فورس کے ساتھ ڈمرا بلاک کے پروگرام آفیسررمیندر کمار کو تعینات کیا گیا تھا۔انہوں نے پولیس انسپکٹراورایس ایچ او، سیتامڑھی کو واقعہ کی جانکاری دیتے ہوئے لکھا کہ بھیڑ نعرے لگا رہی تھی کہ ایک گھنٹے کا وقت دیجئے تمام مسلمانوں کو ختم کر دیںگے۔انہوں نے لکھا ہے؛اسی دوران گئوشالا کے گیٹ کے پاس کسی کے جلنے کا احساس ہوا، ہم وہاں پہنچے تو ایک آدمی کی ادھ جلی لاش پڑی ہوئی تھی۔
گراؤنڈ رپورٹ میں زین الانصاری کے چچا زاد بھائی اللہ رکھا کا کہنا ہے،؛ایک دن پہلے ہی زینل راجوپٹی میں اپنی بہن کے یہاں ایک دعوت میں شریک ہونے گئے تھے۔ وہاں سے 20 اکتوبر کو صبح دس بجے کے قریب وہ گھر کی طرف چلے تھے۔ جب تین بجے تک وہ گھر نہیں پہنچے تو ہمیں فکر ہوئی۔ ہم نے ریگا تھانہ میں جاکر پوچھا تو ضلع انتظامیہ کے حوالے سے تھانہ کے پولیس افسر نے کہا کہ ہمیں ابھی اس کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔اس کے دو-تین دن بعد سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوکر ہمارے وہاٹس ایپ پر پہنچی۔ خون سے لت پت یہ تصویر زینل کی تھی۔
اس کے بعد ہم تصویر لےکر ڈی ایم کے یہاں پہنچے۔ ہم نے جب تصویر دکھائی تب ڈی ایم مان گئے اور کہا کہ اس لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے مظفرپور بھیجا گیا ہے۔ اس کے بعد ہم مظفرپور ضلع ہسپتال پہنچے۔تب تک وہاں پوسٹ مارٹم ہو چکا تھا۔ ہم نے کہا کہ انصاری کے بچےکھچے جسم کو ہمارے حوالے کر دیا جائے، تو ڈی ایم صاحب نے اس سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہیں مظفرپور میں ہی ان کی تجہیز و تکفین کی جائےگی۔ ہم نے کافی درخواست کی لیکن جب انتظامیہ نے لاء اینڈ آرڈر کا حوالہ دیا تو ہم کچھ لوگوں نے مظفرپور جاکر ان کی تجہیز و تکفین کی۔
زینل کے چچا زاد بھائی بتاتے ہیں کہ حادثے کے بعد کئی رہنما ان کے گھر آئے اور معاوضہ دےکر گئے۔زینل کی فیملی والوں نے انتظامیہ سے مانگ کی ہے کہ اس واقعہ کے قصورواروں پر سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔ ان کو خدشہ ہے کہ مقامی رہنماؤں کی ملی بھگت سے ملزمین کو چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔80 سالہ زین الانصاری کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ڈاکٹروں کے ذریعے دی گئی جانکاری میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ان کی موت جلنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان کا پورا جسم جل چکا تھا اور کھوپڑی کی ہڈیاں ختم ہو چکی تھیں۔ان کے دونوں پیر اور ہاتھ پوری طرح جل چکے تھے اور ان کی ہڈیاں نظر آ رہی تھیں۔ ان کے پھیپھڑوں میں اور جسم کے دیگر اندرونی حصوں میں کاربن بھر گیا تھا۔ پوسٹ مارٹم کئے جانے کے وقت تک انصاری کی موت کو 3-5 دنوں کا وقت گزرچکا تھا۔
Categories: خبریں