اسپیشل رپورٹ: آر ٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے تحت کمپنیوں کو پہلے کی بیمہ اسکیموں کے مقابلے میں36848 کروڑ روپے کا زیادہ پریمیم ملا ہے جبکہ کور کئے گئے کسانوں کی تعداد میں صرف 0.42 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
نئی دہلی: جنوری 2016 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے پرانی فصل بیمہ اسکیموں میں تبدیلی کرتے ہوئے ‘پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا’نام سے ایک نئی بیمہ اسکیم شروع کی تھی۔اس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ اس سے کسانوں کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی آئےگی۔حالانکہ دی وائر کومنسٹری آف اگریکلچر اینڈ فارمرس ویلفیئر سےآر ٹی آئی کے تحت ملی جانکاری کے مطابق پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے نافذ ہونے کے بعد فصل بیمہ کے ذریعے کور کسانوں کی تعداد میں صرف 0.42 فیصد کا اضافہ ہوا۔ وہیں دوسری طرف فصل بیمہ کے نام پر کمپنیوں کو چکائی گئی پریمیم رقم میں 350 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
حکومت نے جب اس اسکیم کی شروعات کی تھی تو کہا تھا کہ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا میں پرانی بیمہ اسکیموں کی تمام اچھی چیزوں کو شامل کیا گیا ہے اور تمام کمیوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔حکومت کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ کسانوں کو کم پریمیم بھرنا پڑےگا اور تکنیک کی مدد سے پہلے کے مقابلے جلد دعووں کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائےگا۔حالانکہ اگر اعداد و شمار کو دیکھیں تو حکومت کے دعوے جھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔
پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے تحت2016 سے 2017اور2017 سے 2018کے درمیان نجی اور سرکاری بیمہ کمپنیوں نے پریمیم کے تحت کل 47408 کروڑ روپیے اکٹھا کیا ہے۔ حالانکہ اس بیچ کسانوں کو صرف 31613 کروڑ روپے کا ہی دعویٰ چکایا گیا۔اس حساب سے صرف دو سالوں میں ہی اس وقت بیمہ کمپنیوں کے کھاتے میں 15795 کروڑ روپے کی زیادہ رقم موجود ہے۔
اگر ہم 2014 سے 2015اور2015 سے 2016سے ان اعداد و شمار کا موازنہ کرتے ہیں، جب پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا نافذ نہیں تھی اور اس وقت کسانوں کے لئے این اے آئی ایس اور ترمیم شدہ ایم این اے آئی ایس چلن میں تھی، تب کل 10560 کروڑ روپے کا پریمیم اکٹھا ہوا تھا اور کسانوں کو 28564 کروڑ روپے کے دعویٰ کی ادائیگی ہوئی تھی، جو کہ پریمیم کے مقابلے دو گنا سے بھی زیادہ تھا۔
اس حساب سے پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا نافذ ہونے کے بعد بیمہ کمپنیوں کو 36848 کروڑ روپے کا زیادہ پریمیم ملا ہے جو کہ 348 فیصد کا اضافہ ہے۔پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا میں جتنا پریمیم اکٹھا کیا گیا ہے اس کے مقابلے صرف 67 فیصد رقم ہی دعویٰ کے طور پر ادا کی گئی ہے۔ جبکہ اس اسکیم کے نافذ ہونے سے پہلے کسانوں کو پریمیم کے مقابلے دو گنا سے بھی زیادہ دعووں کی ادائیگی کی گئی ہے۔
کسانوں کا اسکیم میں اعتماد نہیں، لیکن پریمیم میں اضافہ جاری ہے
پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا نافذ ہونے سے پہلے سال2015 سے 2016ہندوستان میں چار کروڑ 85 لاکھ کسان اس وقت کی فصل بیمہ اسکیموں میں نامزد تھے۔ وہیں پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے نافذ ہونے کے دو سال بعد2017سے 2018کے آخر تک کسانوں کی تعداد میں دو لاکھ کا اضافہ ہوا جو کہ صرف 0.42 فیصد کا ہی اضافہ ہے۔ جبکہ بیمہ کمپنیوں نے 47000 کروڑ روپے کا پریمیم اکٹھا کیا ہے۔
اس اسکیم میں کسانوں کے عدم اعتماد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2016 سے 2017میں کل پانچ کروڑ 70 لاکھ کسان کور کئے گئے تھے لیکن اگلے ہی سال2017 سے 2018میں کسانوں کی تعداد میں 14 فیصد کی گراوٹ ہوئی اور اس سال کل چار کروڑ 80 لاکھ کسان ہی کور کئے گئے۔ اسی طرح، پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے نافذ ہونے کے بیمہ شدہ کل فصل علاقہ چار کروڑ 63 لاکھ ہیکٹر سے بڑھکر صرف چار کروڑ 90 لاکھ ہیکٹر ہی ہوا ہے۔
حالانکہ مودی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ 2018 سے 2019تک پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے تحت 10 کروڑ ہیکٹر زمین کو بیمہ کے دائرے میں لایا جائےگا۔ حالانکہ موجودہ حالت حکومت کے دعووں سے کافی زیادہ پیچھے ہے۔
راجیہ سبھا میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر زراعت رادھاموہن سنگھ نے یہ قبول کیا تھا کہ بیمہ علاقہ اور کسانوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر اور اتر پردیش میں قرض معافی کا اعلان،2017 سے 2018میں بہتر مانسون، فصل بیمہ کو آدھار سے جوڑنے جیسی وجہوں سے ایسا ہوا ہے۔
دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ کور کئے گئے کسانوں کی تعداد میں گراوٹ کے باوجود بیمہ کمپنیوں نے زیادہ پریمیم اکٹھا کیا۔ 2016 سے 2017میں کل 22000 کروڑ روپے کا پریمیم اکٹھا کیا گیا تھا جبکہ 2017 سے 2018میں کمپنیوں کو 25000 کروڑ روپے کا پریمیم دیا گیا۔
2017سے 2018میں ایک کسان پر اوسطاً پریمیم رقم 31 فیصد بڑھکر 5135 روپے ہو گیا ہے۔اس پر سابق زرعی سکریٹری سراج حسین نے دی وائر کو بتایا کہ پریمیم بڑھنے کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لئے ہمیں ریاستی سطح پر تفصیلی تجزیے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا،’ہمیں پہلے اعداد و شمار کو سمجھنا ہوگا اور پھر ریاستی سطح پر جہاں پر پریمیم بڑھا ہے وہاں کی فصل اور اس کی حالت پر تجزیہ کرنا ہوگا۔ لیکن کمپنیاں پریمیم کی شرحوں کے اضافہ کو اس بنیاد پر صحیح ٹھہرا سکتی ہیں کہ بیمہ یوجنا میں کئی ساری شرطوں، جیسے کہ آوارہ جانوروں کی وجہ سے فصل کی بربادی اور پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کی ترمیم شدہ ہدایات 2018 میں مجوزہ جرمانہ، کو شامل کیا گیا تھا۔ ‘
دعووں کی ادائیگی میں معمولی اضافہ، لیکن تاخیرتشویش کی ایک اہم وجہ
پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کو نافذ ہوئے دو سال سے زیادہ کا وقت بیت چکا ہے ،لیکن پہلے کے مقابلے دعووں کی ادائیگی میں معمولی اضافہ ہوا ہے جبکہ بیمہ کمپنیوں کے ذریعے پہلے کے مقابلے ساڑھے چارگنا سے بھی زیادہ پریمیم اکٹھا کیا گیا ہے۔
پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے نافذ ہونے سے پہلے کسانوں کو دو سالوں میں28 564 کروڑ روپے کے دعویٰ کی ادائیگی کی گئی تھی۔ وہیں پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے نافذ ہونے کے بعد وزارت سے ملے اعداد و شمار کے مطابق کسانوں کو 31 613 کروڑ روپے کے دعویٰ کی ادائیگی کی گئی ہے۔ یہ پہلے کے مقابلے صرف 10 فیصد کا اضافہ ہے۔
حالانکہ دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ وزارت نے بتایا ہے کہ ‘ربی2017سے 2018کے لئے زیادہ تر دعووں کو ابھی تک کمپنی کے ذریعے متوقع/منظور نہیں کیا گیا ہے۔ ‘وزارت زراعت نے آر ٹی آئی کے جواب میں بتایا ہے کہ سال2017 سے 2018میں ادائیگی کئے گئے دعووں میں 99 فیصد حصہ گزشتہ سال کے خریف سیزن کا ہے جبکہ صرف ایک فیصد حصہ ربی سیزن کا ہے۔
پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کی ہدایات کے مطابق فصل کٹنے کے دو مہینے کے اندر دعووں کی ادائیگی کی جانی چاہیے۔حال ہی میں حکومت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اگر دعویٰ ادائیگی میں دیری ہوتی ہے تو بیمہ کمپنیوں پر 12 فیصد کا جرمانہ لگایا جائےگا۔
وزارت نے گزشتہ10 اکتوبر کو آر ٹی آئی درخواست کا جواب دیا تھا اور ابھی تک ربی سیزن کو گزرے4 مہینے سے زیادہ کا وقت ہو گیا ہے۔دی وائر نے اس سے پہلے رپورٹ کیا تھا کہ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کو لےکر کسانوں کی ایک اہم شکایت یہ ہوتی ہے کہ ان کو وقت پر ان کے دعووں کی ادائیگی نہیں کی جاتی ہے۔
کسانوں کی دلیل ہے کہ اگر ان کی فصل کو بوائی کے کسی ایک موسم میں نقصان پہنچا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ان کو اس سال زراعت سے کوئی کمائی نہیں ہوئی۔ نتیجتاً، اگلے سیزن میں بوائی کے لئے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے ہیں۔ اس لئے اگر اگلے سیزن کے لئے بوائی سے پہلے کسانوں کو دعووں کی ادائیگی کی جاتی ہے تو فصل بیمہ مفید ہو سکتا ہے۔
ہریانہ کے ایک کسان رہنما ویکل پچار نے کہا، ‘دیکھیے، اگر ربی سیزن کی فصل خراب ہوتی ہے تو خریف کی بوائی ہونے سے پہلے دعووں کی ادائیگی کی جانی چاہیے۔نہیں تو، کسان کیسے بوئےگا؟ نقصان کی وجہ سے اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے ہیں۔’پچار ہریانہ کی بھوانی اور سرسا کے ان کسانوں کی رہنمائی کر رہے ہیں جو گزشتہ سال خریف سیزن کے دعووں کے لئے فروری سے بیمہ کمپنی آئی سی آئی سی آئی لومبارڈ سے جدو جہد کر رہے ہیں۔
حال ہی میں پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے مظاہرہ پر انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ، احمد آباد کے ذریعے تیار کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسکیم کے مالی انتظام وانصرام میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ متعین ہو سکے کہ کمپنیوں کو غیر مناسب منافع نہ ہو۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسکیم میں کئی ساری بیمہ کمپنیوں کو شامل کر لیا گیا ہے۔ اس میں سے کئی کمپنیوں کے پاس کافی تجربہ، بنیادی ڈھانچہ اور عوامی خدمت کی منشاء نہیں ہے۔ 2017سے 2018کے لئے 18 بیمہ کمپنیاں پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا میں شامل تھیں۔
Categories: خبریں