دی وائر کی خصوصی رپورٹ: ایک کلیدی گواہ کے طور پر اعظم خان گجرات کے سابق وزیر داخلہ اور بی جے پی رہنما ہرین پانڈیا کے قتل سے لےکر سہراب الدین شیخ کے انکاؤنٹر سے جڑے کئی راز جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو اپنی جان کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔
نئی دہلی: کچھ دن پہلے ہی متنازعہ سہراب الدین شیخ فرضی انکاؤنٹر معاملے کے ایک کلیدی گواہ اعظم خان نے کورٹ کی کارروائیوں کو ایک نیا موڑ دے دیا۔ممبئی کے ٹرائل کورٹ میں دئے گئے اپنے حالیہ بیان میں ادئےپور کے گینگسٹر نے کہا کہ سابق بی جے پی وزیر ہرین پانڈیا کو مارنے کا حکم گجرات کے اعلیٰ پولیس افسر ڈی جی ونجارہ نے دیا تھا۔چونکہ ونجارہ کو بی جے پی صدر امت شاہ اور ریاست کے اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کا قریبی مانا جاتا ہے، اس لئے اس کے اس بیان نے پراسرار ہرین پانڈیا قتل معاملے کو لےکر ایک بار پھر پریشان کرنے والے سوال کھڑے کر دئے ہیں۔فی الحال خان ادئےپور کی ایک جیل میں بند ہے اور اس کو اپنی جان کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔
اس کی بیوی اوردوسرے رشتہ داروں نے شکایت کی ہے کہ خان کو جیل میں اذیتیں دی جا رہی ہیں اور وہ شدیدطور پر زخمی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خان کو کچھ پولیس افسر سہراب الدین انکاؤنٹر معاملے میں زبان بند رکھنے کے لئے دھمکا رہے ہیں۔اس کی بیوی رضوانہ اور اس کے وکیل کے مطابق، یہ یقینی بنانے کے لئے کہ خان ان کی ہدایتوں پر عمل کریں، پولیس نے مبینہ طور پر ان کے خلاف 9 نئے معاملے بنا دئے ہیں اور انہوں نے یہ دھمکی دی ہے کہ اگر خان ان کے حساب سے نہیں چلےگا تو اس پر قتل کے فرضی الزام بھی لگائے جا سکتے ہیں۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے خان کے وکیل اکھلیش موگرا نے کہا؛ خان 2010 میں فرضی انکاؤنٹر معاملے میں ایک گواہ بنا تھا۔ کچھ سال بعد جب وہ کسی دوسرے معاملے میں ضمانت پر باہر تھا، اس کو گولی ماری گئی۔ اس وقت اس کی بانہہ میں گہرا زخم ہو گیا تھا۔ 12 اکتوبر (2018) کو نئی دہلی سے اس کی گرفتاری کے بعد سے جیل میں اس کو لگاتار مارا جا رہا ہے۔ خان کو ڈر ہے کہ اس کا انجام بھی سہراب الدین اور اس کے مددگار تلسی رام پرجاپتی کے جیسا ہو سکتا ہے۔ ‘
پس منظر
اعظم خان، سہراب الدین اور پرجاپتی کے دوست تھے۔ ممبئی ٹرائل کورٹ کے سامنے اپنے بیان میں خان نے کہا تھا کہ پرجاپتی نے اس کو یہ بتایا تھا کہ پولیس نے دھوکے سے اس سے سہراب الدین کے بارے میں جانکاری نکلوائی تھی۔ پولیس نے پرجاپتی سے کہا تھا کہ سہراب الدین کو گرفتار کرنے کے لئے ان پر ‘سیاسی دباؤ ‘ہے اور اگر وہ (پرجاپتی)ان کو ان کی ضرورت کی اطلاع دے دے، تو اس کو رہا کر دیا جائےگا۔پرجاپتی نے خان کو جو بتایا، اس کے مطابق سہراب الدین اور اس کی بیوی کوثر بی کا قتل گجرات کے ایک فارم ہاؤس میں کیا گیا تھا۔ خان نے کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ پرجاپتی کو بھی اس بات کا ڈر تھا کہ اس کو جان سے مار دیا جائےگا، اس لئے اس نے احمد آباد کورٹ میں ایک شکایت دائر کی تھی۔
خان نے 3 نومبر کو سی بی آئی ٹرائل کورٹ میں بتایا؛میں23-24 دسمبر، 2006 کو آخری بار تلسی رام سے ملا، جب مجھے ایک پرانے چوری کے معاملے میں حراست میں لیا جا رہا تھا۔ اس کو کورٹ کی کسی سماعت کے لئے احمد آباد لے جایا جا رہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ ہم دونوں میں سے کوئی ایک مارا جائےگا۔ ‘بعد میں خان کو پتا چلا کہ پرجاپتی بھی ایک انکاؤنٹر میں مارا گیا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ یہ انکاؤنٹر تب ہوا جب پرجاپتی نے حراست سے بھاگنے کی کوشش کی۔
اس کے بعد، خان نے ہرممکن حدتک روپوش رہنے کی کوشش کرتے ہوئے سالوں گزارے۔ اس کی کوشش رہی کہ پولیس کا دھیان اس کی طرف نہ جائے۔حالانکہ جب سی بی آئی پر خان کو بیان دینے کے لئے بلانے کا دباؤ بڑھتا گیا، خان کے رشتہ داروں کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے جون، 2018 سے فیملی پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔
جون کے بعد کے واقعات
11 جون کو، جب خان روپوش تھا، ان کی ماں حسینہ بانو نے ادئےپور کےچیف جسٹس مجسٹریٹ(سی جے ایم)کو اس بابت عرضی دی کہ ان کے دو بیٹے اور ایک دیور کو ادئےپور پولیس غیرقانونی طریقے سے پکڑکر لے گئی ہے۔اپنی عرضی میں، جس کی ایک کاپی دی وائر کے پاس ہے، انہوں نے کہا کہ جب وہ پولیس افسروں سے ملی، تب ان سے کہا گیا کہ تینوں کو اسی صورت میں رہا کیا جائےگا جب خان سہراب الدین اور پرجاپتی کے معاملے میں کورٹ کے سامنے ‘اوپر کے افسر ‘کے مطابق بیان دےگا۔
عرضی میں آگے کہا گیا کہ پولیس افسر چاہتے تھے کہ خان اپنا بیان بدل دے۔اور یہ بھی کہ اس کے بیٹوں کو ادئےپور کے ایڈیشنل سپرٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی)سدھیر جوشی کے حکم پر پکڑا گیا تھا، جو خود فرضی انکاؤنٹر مقدمہ میں ایک گواہ ہیں۔انہوں نے سی جے ایم سے یہ بھی کہا کہ پولیس افسروں نے ان کو دھمکی دی کہ اگر خان سکھائے گئے بیان سے ادھر ادھر ہوا، تو اس کو بھی کسی انکاؤنٹر میں مار دیا جائےگا۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے بیٹوں، اختر اور اسلم کا خان کی غیرقانونی سرگرمیوں سے کوئی لینادینا نہیں تھا۔
حالانکہ پولیس نے اپنے جواب میں یہ دعویٰ کیا کہ ان تینوں کو کبھی کبھی دوسری غیرقانونی سرگرمیوں کے لئے پکڑا گیا تھا، لیکن ان کو غیر قانونی حراست میں نہیں رکھا گیا۔ پولیس نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس یہ اطلاع تھی کہ یہ تینوں رشتہ دار خان کے ذریعے چلائے جانے والے وصولی کے دھندے کا حصہ تھے۔پولیس نے جواب دیا اور تینوں کو ایک ہفتے کے بعد رہا کر دیا-لیکن تب جب عدالت نے ایک سرچ وارنٹ جاری کیا۔ خان کے وکیل موگرا نے دی وائر کو بتایا کہ پولیس ان تینوں کو رہا کرنے کے لئے اس لئے مجبور ہوئی، کیونکہ خان کی فیملی پولیس کی غیرقانونی کارروائی کے خلاف Habeas corpusکیعرضی دائر کرنے کی سوچ رہی تھی۔
موگرا کا الزام ہے کہ بعد میں پولیس نے ان تینوں کو ایک خط لکھنے پر مجبور کیا کہ وہ فیملی کو بنا بتائے اجمیر شریف گئے تھے۔ موگرا پوچھتے ہیں،’آپ ہی بتائیے، کون اپنی فیملی کو بتائے بنا اجمیر شریف جاتا ہے؟ ’12 اگست، 2018 کو خان کی بیوی رضوانہ نے اسی طرح کا ایک خط ہندوستان کےچیف جسٹس، راجستھان اور مہاراشٹر کے چیف جسٹس اور قومی انسانی حقوق کمیشن، ہندوستان کے صدر اور کئی دوسرے سیاسی رہنماؤں، مثلاً، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی، دہلی کے وزیراعلی اروند کیجریوال، کانگریس صدر راہل گاندھی اور دوسروں کو لکھا۔
اپنے خط میں انہوں نے لکھا ہے :
‘ … مجھے اور میری فیملی کو لگاتار راجستھان اور گجرات پولیس کے کچھ اعلی افسروں اور رہنماؤں کے اشارے پر دھمکیاں مل رہی ہیں۔سہراب الدین اور تلسی رام پرجاپتی انکاؤنٹر معاملے میں ابھی بھی میرے شوہر نے بیان نہیں دیا ہے، اس لئے مجھے کچھ سینئر افسروں اور رہنماؤں کے ذریعے کہا جا رہا ہے کہ جیسا ہم تم کو بتا رہے ہیں، تم اپنے شوہر سے اسی حساب سے بیان دینے کے لئے کہو، نہیں تو تم کو اور تمہارے گھر والوں کو جھوٹے معاملوں میں پھنسا دیا جائےگا یا ان کا انکاؤنٹر کر دیا جائےگا۔ ‘
اپنے خط میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک شام ایک’ کالے پلسر ‘بائیک پر آئے بنا وردی والے کچھ پولیس اہلکاروں نے ان کو روکا اور ان سے ‘نیتا جی اور صاحب جی’سے ملنے کے لئے کہا۔ جب انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، تو وہ ان کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔اس کے بعد، ان کا الزام ہے، ان کی ملاقات ایک’سفید کپڑے ‘پہنے آدمی سے ہوئی، جس نے کہا کہ اگر خان کورٹ میں اس کو سکھایا گیا بیان نہیں دیتا ہے، تو وہ ‘نہیں بچےگا۔ ‘
انہوں نے اپنے خط میں ایک آدمی کے بارے میں بتایا ہے جس سے وہ کار میں ملیں، لیکن جس کو وہ پہچان نہیں سکیں،’کار میں بیٹھے ایک آدمی نے کہا کہ حکومت ان کی ہے اور سی بی آئی ان کے حساب سے کام کرتی ہے اور پورے ہندوستان میں سی بی آئی سے لےکر سپریم کورٹ تک میں ہمارے ججوں کی تقرری کی گئی ہے اور کوئی بھی ہمارے خلاف کچھ بھی نہیں کہتا ہے۔ ‘انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ اس آدمی نے جج (بی ایچ)لویا کے بارے میں بات کی اور ان کی موت کی مثال دےکر ان کو یہ بتایا کہ اگر وہ (خان)ان کی ہدایتوں پر عمل نہیں کرتا ہے، تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ خان کو جج لویا کی’موت کی وجہ ‘ کی جانکاری تھی۔ اس لئے رضوانہ نے جج سے ان کی فیملی کو تحفظ مہیا کرانے کی گزارش کی اور یہ متعین کرنے کے لئے کہا کہ خان ممبئی کورٹ میں ‘ بنا کسی دباؤ میں’اپنا بیان دے پائے۔دی وائر سے بات کرتے ہوئے رضوانہ نے کہا، ‘مجھے صرف جیل میں اپنے شوہر کی حفاظت کی فکر ہے۔ پولیس ان کو اجمیر جیل میں بھیجنے کی کوشش کر رہی ہے اور ان کو اس بات کا ڈر ہے کہ اس سفر کے دوران اس کا قتل انکاؤنٹر میں کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ دوسرے معاملوں میں جہاں خان کے ساتھ کئی سیکورٹی اہلکار ہوتے ہیں، وہیں اس بار اس کی حفاظت میں صرف دو پولیس کے جوان ہی تعینات ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہی وجہ ہے کہ خان نے کورٹ سے یہ درخواست کی تھی کہ جیل سے کورٹ اور کورٹ سے جیل لے جاتے وقت اس کو ہتھکڑیاں لگائی جائیں۔ رضوانہ نے کہا، ‘کم سے کم ایسی حالت میں پولیس یہ دعویٰ نہیں کر پائےگی کہ وہ بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔
موگرا نے بھی کہا کہ خان کو 12 اکتوبر سے اور یہاں تک کہ کورٹ کے سامنے اپنا بیان دے دینے کے بعد بھی اذیت دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ اس کا ایک پاؤں شدیدطور پر زخمی ہے۔موگرا اور خان کی فیملی فی الحال کورٹ سے خان کو عدالتی حراست پر رکھنے اور فرضی انکاؤنٹر مقدمہ میں اس کو ایک بار پھر پورا بیان دینے کی گزارش کر رہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ عدالت نے خان کو کورٹ کے سامنے پیش کرنے کے لئے سی بی آئی افسروں کو مجبور کیا تھا۔’کورٹ نے خان کو پیش کرنے کے لئے 30 اکتوبر کی تاریخ رکھی تھی، لیکن جب سی بی آئی نے ان کو پیش نہیں کیا، تب کورٹ نے ایجنسی کو سخت الفاظ میں آڑے ہاتھوں لیا۔ اس کے بعد جاکر پولیس افسروں نے اس کو ممبئی کورٹ کے سامنے پیش کیا۔ ‘
طاقتور لوگوں کی آنکھ کا کانٹا؟
خان کے اس بیان کہ ہرین پانڈیا کو مارنے کا حکم ونجارہ نے دیا تھا، کے اشارے کافی سنگین ہیں۔اس معاملے کی جانکاری رکھنے والے ایک وکیل نے دی وائر کو بتایا،’ہرین پانڈیا کے ساتھ ونجارہ کے رشتے نے کئی مشکل سوال کھڑے کر دئے ہیں۔ کورٹ نے 2017 میں ان کو بری کر دیا تھا، لیکن خان کا بیان اس معاملے کو پھر سے شروع کرنے کی کافی وجہ دیتا ہے۔ ونجارہ نہ صرف پانڈیا کے معاملے میں ایک اہم کڑی ہیں، بلکہ ان سارے فرضی انکاؤنٹرکے معاملوں کی اہم کڑی ہیں، جو اس دور میں انجام دئے گئے تھے۔ ‘
انہوں نے آگے کہا، ‘اب چونکہ گجرات کے کچھ اعلیٰ رہنماؤں کے ساتھ ان کے اچھے رشتے نہیں رہ گئے ہیں، ان کو بلی کا بکرا بنائے جانے کا امکان کافی بڑھ گیا ہے۔ اگر خان سارے راز کھول دیتا ہے، تو کئی اور لوگ جن میں گجرات کے اعلیٰ پولیس افسروں کے ساتھ اہم رہنما بھی شامل ہیں-مشکل میں پھنس جائیںگے۔ ‘
اس سے پہلے خان نے بھی سی بی آئی جج کو لکھے ایک خط، جس کی کاپی دی وائر کے پاس ہے، میں کہا تھا کہ وہ سہراب الدین اور تلسی رام کے انکاؤنٹر سے جڑے ‘سارے راز’جانتا ہے۔اس نے یہ بھی لکھا کہ وہ عدالت میں تمام باتیں تفصیل سے بتانا چاہتا ہے، لیکن اس کو ڈر ہے کہ اس سے پہلے ہی اس کو انکاؤنٹر میں مار دیا جائےگا یا جھوٹے الزامات میں پھنسا دیا جائےگا۔ ‘
ونجارہ نے خود 1ستمبر، 2013 کو گجرات کے ایڈیشنل چیف سکریٹری کو یہ لکھا تھا کہ ‘وہ صرف اس وقت کی ریاستی حکومت کی پالیسی نافذ کر رہے تھے۔ ‘اس بات نے گجرات میں اس وقت نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کے کام کاج کو لےکر کئی سوال اٹھائے تھے۔اس ہائی پروفائل مقدمہ کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے موگرا نے ایک گواہ کے طور پر خان کو فوراً تحفظ مہیا کرانے کی مانگ کی ہے۔
Categories: خبریں