انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو نے چیف انفارمیشن کمشنر آر کے ماتھر کو خط لکھکر کہا کہ آر بی آئی کے ذریعے جان بوجھ کر قرض نہ چکانے والے لوگوں کی جانکاری نہیں دینے پر سینٹرل انفارمیشن کمیشن کو سخت قدم اٹھانا چاہیے۔
نئی دہلی: گزشتہ 20 نومبر کو ریٹائر ہوئے سینٹرل انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو نے خط لکھکر چیف انفارمیشن کمشنر آر کے ماتھر سے گزارش کی ہے کہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) کو ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی)کے ذریعے جان بوجھ کر قرض نہ چکانے والے لوگوں (ول فل ڈیفالٹرس) کی جانکاری نہیں دینے کے لئے سخت قدم اٹھانا چاہیے۔ گزشتہ دو نومبر کو آچاریہ لو نے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کو لےکر آر بی آئی کو پھٹکار لگائی تھی اور آر بی آئی گورنر ارجت پٹیل کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا تھا۔
حالانکہ آچاریہ لو کی اس ہدایت پر آر کے ماتھر نے اعتراض جتایا اور کہا تھا کہ چونکہ آر بی آئی کا معاملہ سی آئی سی میں دوسرے کمشنر دیکھتے ہیں اس لئے اس مقدمہ کو ان کے پاس ٹرانسفر کیا جانا چاہیے تھا۔ ماتھر کا الزام ہے کہ اس کی وجہ سے اس معاملے کو دیکھنے والے کمشنر کو شرمناک حالت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ شری دھر آچاریہ لو نے گزشتہ 19 نومبر کو خط لکھکر آر کے ماتھر کے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے۔آچاریہ لو نے کہا کہ میرے ذریعے آر بی آئی گورنر کو نوٹس بھیجنے پر شرمناک حالت میں جانے کے بجائے پوری سی آئی سی کو اس وقت شرمناک حالت میں ہونا چاہیے جب اس کی ہدایتوں پر آر بی آئی کے ذریعے عمل نہیں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ یہ معاملہ میرے سامنے اپیل میں آیا تھا۔ میں نے خود سے اس کیس کو نہیں چنا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ اگر کوئی معاملہ کسی انفارمیشن کمشنر کے پاس آتا ہے اور مانگی گئی جانکاری دو الگ الگ محکمے سے متعلق ہے تو اس معاملے کو الگ الگ انفارمیشن کمشنر کے پاس بھیجا جائے۔ ایسا کہیں پر لکھا بھی نہیں ہے۔ اصول تحریر ی طور پر ہونا چاہیے۔ ‘
واضح ہو کہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں انفارمیشن کمشنر کو الگ الگ سرکاری محکمہ مختص کیا جاتا ہے اور وہ اسی محکمے سے متعلق آر ٹی آئی کے معاملوں کو دیکھتے ہیں۔ مثال کے لئے اگر کسی کو وزارت خزانہ اور بینکوں کی ذمہ داری دی گئی ہے تو بینکوں سے متعلق آر ٹی آئی کا معاملہ اسی انفارمیشن کمشنر کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ حالانکہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ اطلاع دو یا اس سے زیادہ محکمے سے متعلق ہوتی ہے۔
آچاریہ لو نے آگے لکھا، ‘ انفارمیشن کمشنرس کا اہم کام یہ ہے کہ وہ آر ٹی آئی قانون کو نافذ کریں، جس کی آر بی آئی جیسے اہم اداروں کے ذریعے خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ کسی ایک معاملے کو دیکھتے ہوئے انفارمیشن کمشنر دوسرے سرکاری اداروں کو بھی ہدایت بھیجتے ہیں۔ یہ قانونی طور پر جائز ہے۔ پورے کمیشن کو اس وقت شرمندہ ہونا چاہیے جب ا س کے حکم کو نہیں مانا جاتا ہے۔ ‘
آچاریہ لو نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سی آئی سی کی ہدایت کو صحیح مانتے ہوئے آر بی آئی کی ان 11 عرضی کو خارج کر دیا تھا، جس میں ول فل ڈیفالٹرس کی جانکاری دینے پر سی آئی سی کے حکم پر روک لگانے کی مانگ کی گئی تھی۔ سی آئی سی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ متعین کرے کہ اس کے احکام پر سرکاری محکموں کے ذریعے عمل کیا جا رہا ہے۔
شری دھر آچاریہ لو نے اپنے حکم سے متعلق جانکاری کے لئے میڈیا سے بات چیت کو مناسب ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ ول فل ڈیفالٹرس کے بارے میں جانکاری دینے کے لئے قانونی پہلوؤں پر میڈیا سے بات چیت ضروری ہے۔ یہ شفاف ہونے کا ثبوت ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم لوگوں کو بیدار کریں۔ انہوں نے کہا کہ سی آئی سی کو سال 2015 کےجینتی لال مستری کے معاملے کو بھولنا نہیں چاہیے، جس میں سپریم کورٹ نے ول فل ڈیفالٹرس پر سی آئی سی کے 11 احکام کو صحیح ٹھہرایا تھا اور آر بی آئی کی تمام دلیلوں کو خارج کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سی آئی سی کو اپنے احکام کو نافذ کرانے کے لئے سبھی قدم اٹھانا چاہیے تھا۔ساتھ ہی ایسے معاملوں میں عدالت کی توہین کو لےکر شکایت درج کرنی چاہیے تھی۔ واضح ہو کہ گزشتہ 16 نومبر کو اس معاملے کی سماعت کے دوران شری دھر آچاریہ لو نے سخت الفاظ میں کہا تھا کہ ول فل ڈیفالٹرس کے معاملے میں آر بی آئی لگاتار سپریم کورٹ کے حکم اور سی آئی سی کی ہدایتوں کی توہین کر رہا ہے۔
آچاریہ لو نے پارلیامانی کمیٹیوں کو بھیجے مشوروں میں کہا تھا کہ آر بی آئی نے سی آئی سی کی 11 ہدایتوں پرعمل نہیں کیا ہے، اس لئے اس کی اینٹی آر ٹی آئی پالیسی کے خلاف مناسب کارروائی ہونی چاہیے۔ شری دھر آچاریہ لو نے اس بات کو لےکر خطرہ بتایا کہ اگر آر بی آئی شفافیت کے معاملے میں سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا رہا تو یہ خفیہ مالی حکومت میں تبدیل ہو جائےگا۔ اس کی وجہ سے مالی گھوٹالے ہوںگے اور گھوٹالےباز آسانی سے ملک چھوڑکر بھاگ سکیں گے، جیسا کہ حال کے دنوں میں ہوا ہے۔
Categories: خبریں