خاص رپورٹ: دی وائر کی جانچ میں یہ جانکاری سامنے آئی ہے کہ سویابین کے کسانوں کو سب سے زیادہ 542 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ زیادہ تر ریاستوں میں کسان ایم ایس پی سے کافی کم قیمت پر اناج بیچنے کو مجبور ہیں۔
نئی دہلی : مرکز کی نریندر مودی حکومت نے گزشتہ 4 جولائی 2018 کو 14 خریف فصلوں کے لئے منیمم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) طے کی تھی۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ پہلے کے مقابلے اب کسانوں کو ان کی فصلوں کی اچھی قیمت ملےگی اور ہرجگہ پر ایم ایس پی پر فروخت ہوگی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر جگہوں پر ایم ایس پی سے کافی کم قیمت پر فصلوں کی فروخت ہو رہی ہے اور اس کی وجہ سے گزشتہ اکتوبر کے مہینے میں ہی کسانوں کو تقریباً 1000 کروڑ روپے کا نقصان جھیلنا پڑا ہے۔
یہ 1000 کروڑ روپے کسانوں کی جیب میں جانے چاہیے تھے لیکن کم قیمت پر فروخت ہونے کی وجہ سے ان کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دی وائر نے سرکاری ایجنسی ایگمارک نیٹ (ایگریکلچرل مارکیٹنگ انفارمیشن نیٹ ورک) کی ویب سائٹ پر دی گئی جانکاری کی بنیاد پر تجزیہ کیا ہے کہ گزشتہ اکتوبر میں خریف سیزن کی 14 فصلوں میں سے 10 فصلوں کی فروخت ایم ایس پی سے کافی کم پر ہوئی ہے۔ ‘ ایگمارک نیٹ ‘ پر روزانہ کے حساب سے ملک کی منڈیوں میں آنے والے اناج کی جانکاری اور اس کی فروخت قیمت اپ ڈیٹ کی جاتی ہے۔
ایگمارک نیٹ کو سال 2000 میں وزارت زراعت کی طرف سے شروع کیا گیا تھا۔ اس ویب سائٹ سے ہندوستان کی تقریباً 7 ہزا ہول سیل زراعت منڈیاں، مثال کے طور پر دیکھیں تو مونگ کی اوسط فروخت رقم ایم ایس پی کے مقابلے 25 فیصد کم تھی۔ 7 لاکھ کوئنٹل سے زیادہ کی مونگ بازار میں بیچی جا چکی ہے۔ اس کی اوسط فروخت رقم 5186 روپے فی کوئنٹل رہی۔ جبکہ حکومت کے ذریعے مونگ کی ایم ایس پی 6975 روپے فی کوئنٹل طےکی گئی ہے۔ اس حساب سے کسانوں کو فی کوئنٹل 1789 روپے فی کوئنٹل کا نقصان ہوا۔
وہیں 430000 کوئنٹل ارہر کی فروخت اوسطاً 4630 روپے فی کوئنٹل پر ہوئی ہے۔ حالانکہ ارہر کے لئے 5675 روپے فی کوئنٹل ایم ایس پی کی رقم طے کی گئی ہے۔ وہیں دوسری طرف اڑد بھی اوسطاً 800 روپے فی کوئنٹل کم قیمت پر بکی۔ ڈیڑھ لاکھ ٹن اڑد بازار میں بک چکی ہے۔ یہ تین قسم کی دالیں جس ریٹ پر اکتوبر میں بکی ہیں وہ نہ صرف اس سال کی طے ایم ایس پی سے کافی کم ہے بلکہ یہ گزشتہ سال کی بھی ایم ایس پی سے کم ہے۔
دالوں کے علاوہ سویابین اور سورج مکھی بھی کافی کم قیمت پر بکی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ ان کی فروخت رقم نہ صرف اس سال کی ایم ایس پی سے کم ہے بلکہ گزشتہ سال کی ایم ایس پی کے مقابلے بھی کافی کم ہے۔ مکئی کچھ ریاستوں میں ٹھیک ٹھاک قیمت پر بک رہی ہے لیکن جن ریاستوں میں بھاری مقدار میں مکئی کی پیداوار ہوتی ہے اور جہاں کی منڈیوں میں 90 فیصد سے زیادہ مکئی پہنچی ہے، وہاں پر حالات خراب ہیں۔
مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک، مہاراشٹر، اتر پردیش اور تلنگانہ جیسی ریاستوں میں مکئی اوسطاً 1355 روپے فی کوئنٹل کے حساب سے بک رہی ہے۔ یہ رقم ایم ایس پی سے 345 روپے کم ہے۔ حالانکہ ناگالینڈ میں مکئی کی فروخت 5443 روپے فی کوئنٹل کے حساب سے ہوئی ہے جو کہ ایم ایس پی سے تین گنا زیادہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ناگالینڈ میں صرف 90 کوئنٹل مکئی کی ہی فروخت ہوئی ہے جو کچھ بھی نہیں ہے۔
دی وائر نے اپنے تجزیے میں پایا ہے کہ جن ریاستوں میں جس بھی اناج کی زیادہ فروخت ہو رہی ہے، وہاں پر فرق کافی زیادہ ہے۔ مثال کے لئے، ارہر کی ایم ایس پی 5675 روپے فی کوئنٹل طے کی گئی ہے۔ ارہر کی قومی اوسط فروخت رقم فی کوئنٹل کے حساب سے 4630 روپے ہے۔ حالانکہ 90 فیصد سے زیادہ کی ارہر مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، اتر پردیش اور کرناٹک میں ہوئی ہے۔ ان ریاستوں میں ارہر کی فروخت اوسطاً 3443 روپے فی کوئنٹل میں ہوئی ہے جو کہ قومی اوسط کے مقابلے 1200 اور ایم ایس پی کے مقابلے 2232 روپے فی کوئنٹل کم ہے۔
مونگ کا بھی یہی حال ہے۔ مونگ کی ایم ایس پی 6975 روپےفی کوئنٹل ہے لیکن اس کی قومی فروخت اوسط رقم 5186 روپے فی کوئنٹل ہے۔ اکتوبر مہینے میں 90 فیصد سے زیادہ کی مونگ دال کی فروخت کرناٹک، راجستھان، مہاراشٹر، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں ہوئی ہے۔ ان ریاستوں میں مونگ کی قومی اوسط سے 12 فیصد اور ایم ایس پی سے 35 فیصد کم پر ہوئی ہے۔ اسی طرح راجستھان، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، مہاراشٹر، گجرات اور کرناٹک میں اڑد کی ایم ایس پی سے 30 فیصد کم قیمت پر فروخت ہوئی۔ 95 فیصد سے زیادہ کی اڑد کی فروخت انہی ریاستوں میں ہوئی۔
ایگمارک نیٹ کے حساب سے دھان، کپاس، مکئی اور تل کو چھوڑکر دوسرے تمام اناجوں کی اکتوبر مہینے میں ایم ایس پی سے کم قیمت پر فروخت ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے صرف ایک مہینے میں کسانوں کو 1003 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ اس میں سے سب سے زیادہ 542 کروڑ روپے کا نقصان سویابین کے کسانوں کو ہوا ہے۔ ارہر، اڑد اور مونگ کے کسانوں کو 300 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
سابق زراعتی سکریٹری سراج حسین کہتے ہیں کہ اگر ان اعداد و شمار کو ضلع وار دیکھیں تو حالت اور زیادہ خوفناک ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ جن ضلعوں میں جس فصل کی زیادہ پیداوار ہوتی ہے، اگر اس حساب سے اندازہ کریں تو پتا چلےگا کہ کسانوں کو اور بھی زیادہ کم قیمت پر اناج بیچنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ ریاستوں کے اندر بھی اناج فروخت کی قیمت کو لےکر کافی عدم مساوات ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی چھوٹی منڈی میں تھوڑے مقدار میں اناج کی فروخت ہوتی ہے تو وہاں پر فروخت کی قیمت زیادہ نظر آ سکتی ہے، لیکن جہاں پر ھاری مقدار میں اناج بیچا جا رہا ہےوہاں پرفروخت کی قیمت بہت زیادہ کم ہے۔’
Categories: فکر و نظر