خصوصی رپورٹ : کسی زمانے میں وڈودرا کی کاروباری کمیونٹی میں بات چیت کے مرکز میں رہے سندیسرا بندھو کو تقریباً5000 کروڑ روپے کا قرض کا ول فل ڈفالٹر مانا جا رہا ہے، ساتھ ہی ان کو حکومت کے ذریعے اقتصادی بھگوڑا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔حالیہ سی بی آئی تنازعہ میں ایجنسی کے اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانا کے اسٹرلنگ بایوٹیک کے مالکوں سے نزدیکی کی بات سامنے آئی ہے۔
نئی دہلی: گجراتی کاروباریوں کے درمیان وڈودرا کے سندیسرا بندھو (نتن اور چیتن سندیسرا) ہمیشہ پرائے ہی رہے ہیں۔1980 کی دہائی میں پہلی پشت کے ایک صنعت کار کے طور پر ان بندھوؤں کے گجرات کی پرانی دنیا کے صنعت کاروں نرما گروپ کے پٹیل، کپڑا کے بڑے کھلاڑی لال بھائی، ٹارینٹ کےمہتہ یا بکری ریئل اسٹیٹ کے مالکوں، سے شاید ہی کوئی یکسانیت تھی۔یہ سب مل کر کاروباریوں کے ایک ایسے گروپ کی تعمیر کرتے تھے، جو ایک بازار سے چپکے رہنے میں فخر محسوس کرتے تھے اور عام طورپر ان میں کاروباروں کی منتقلی باپ سے بیٹوں کو ہوتی تھی۔
سندیسرا بندھو کا مقصد ان کی اسکیموں کو زمین پر اتارنے کی صلاحیت سے بھی کبھی میل نہیں کھا سکی،امبانیوں یا مفت لال فیملی کی تیز دھار والی چپل کاروباری کی عقل بھی ان کے حصے نہیں آئی تھی۔بلکہ ان کا عروج گوتم اڈانی کے عروج سے ملتا جلتا تھا۔ جس وقت سندیسرا بندھو پنکھ پھیلانا شروع کر رہے تھے، وہ (اڈانی)بس ایک عام سے چھوٹے کاروباری تھے اور اپنی جگہ تلاشکر رہے تھے۔اڈانی کی طرح نتن اور چیتن سندیسرا پہلی پشت کے صنعت کار تھے، جنہوں نے ممبئی سے گجرات واپس آکر بڑے مگر اکثر ناکام رہے کاروباری گروپ کی شروعات کی۔
ان کے کاروباری گروپ کی فارماسیوٹکلس سے لےکر بنیادی ڈھانچے اور تیل اور گیس کی کھوج تک کے میدان میں دلچسپی رہی۔ لیکن چرچہ سے دور رہنے والے زیادہ تر گجراتی کاروباریوں کے برعکس وہ راج شاہی زندگی جینے میں یقین کرتے تھے اور وہ اس بات کا خاص دھیان رکھتے تھے کہ لوگ ان کے بارے میں جانیں۔اس کے لئے انہوں نے بالی ووڈ میں اپنے روابط، پرائیویٹ جیٹ اور لمبی ویک اینڈ پارٹیوں کو راستہ بنایا۔ اسٹرلنگ کے ایک سابق سینئر ایگزیکٹو نے اپنی پہچان نہ اجاگر کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب چیتن نے ایک گلف اسٹریم جیٹ کو 100 کروڑ سے زیادہ میں خریدا، تب انہوں نے قیمت کو لےکر شیخی بگھارنے کے لئے ذاتی طور پر صحافیوں کو بلایا۔
وہ دوسرے کاروباریوں کو بھی تھوڑا نیچا دکھانا چاہتے تھے۔ اور جیسا کہ فطری تھا، ان کے جیٹ خریدنے کے بعد اڈانی نے بھی ایک چیلینجر خریدا۔ اور اس کے دو سال کے بعد کیڈلا کے پنکج پٹیل نے بھی ایسا ہی کیا۔کسی زمانے میں وڈودرا کے کاروباری کمیونٹی کے درمیان بات چیت کے مرکز میں رہے، سندیسرا بندھو کو اب تقریباً 5000 کروڑ کے قرض کو جان بوجھ کر نہ چکانے والا (ول فل ڈفالٹر) مانا جاتا ہے اور ان کو اقتصادی بھگوڑا اعلان کر دیا گیا ہے۔
ان کی جائیداد کوای ڈی کے ذریعے قرق کیا جا چکا ہے اور اس کو سیل کیا جا چکا ہے۔ ان کے کاروباروں کو بینک افسروں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔دونوں بھائی گزشتہ سال ملک سے مبینہ طور پر نائیجیریا بھاگ گئے، جہاں ان کے کسی زمانے کے قابل ذکر تیل کاروبار کا ایک حصہ ابھی بھی بچا ہوا ہے۔یوں تو یہی ایک حقیقت ان کو نیرو مودی اور وجے مالیہ جیسوں کے کلب میں داخلہ دلا دیتا ہے، مگر جانچ ایجنسیوں کے بڑے افسروں اور کانگریس کے سینئر رہنما احمد پٹیل کی فیملی کے ساتھ ان کے تعلقات اور ان کو مبینہ طور پر رشوت دینے کا الزام، ان کو کئی گھوٹالوں کے مرکز میں لے آتا ہے، جن کی ٹھیک طرح سے تفتیش ہونی ابھی باقی ہے۔
فی الحال یہ دونوں سی بی آئی کے افسر راکیش استھانا کے ساتھ اپنے تعلقات کی وجہ سے چرچے میں ہیں۔ اس معاملے کے بارے میں جانکاری رکھنے والے کم سے کم تین لوگوں نے ان کے درمیان کی دوستی کے بارے میں دی وائر سے بات کی۔یہ دوستی استھانا کے وڈودرا کے پولیس کمشنر رہنے کے دوران پروان چڑھی۔ فی الحال استھانا سی بی آئی کی ساکھ کو بحران میں ڈالنے والے طوفان کے مرکز میں ہیں۔
جلیٹن سے سونا بنانے والے
1980 کی دہائی میں ممبئی سے گریجویشن کرنے کے بعد سندیسرا بندھو نے شروع میں یہاں وہاں ہاتھ پاؤں مارے، مگر ان کو کہیں کامیابی نہیں ملی۔پلوٹو ایکسپرٹس اینڈ کنسلٹینٹس نام کی ایک کاروباری کمپنی اور اس کے بعد شمال مشرق میں کچھ چائے باغان کی خرید کے ذریعے چائے صنعت میں داخل ہو کر انہوں نے اپنی قسمت کو آزمایا۔
شروعاتی سالوں میں کہیں بھی کامیابی نہیں ملنے کے بعد، 1990 کی دہائی میں دوائیوں کے لائق (فارما گریڈ) جلیٹن(ایک چپ چپا بےرنگ مادہ، جوٹھوس ہوکر کرسٹل کی تہہ کی شکل لے لیتا ہے)کی پیداوار کے فیصلے نے ان کے لئے خزانے کا تالا کھول دیا۔ان کی اسکیم کتنی شاندار تھی، اس کو ایک سیکنڈ میں سمجھا جا سکتا ہے۔ فارما گریڈ جلیٹن جینیرک دوا صنعت، جو اس وقت کافی تیزی سے بڑھ رہا تھی، کے تقریبا تمام آخری مصنوعات میں جیلنگ ایجنٹ کے طور پر کام میں لایا جاتا ہےچاہے سخت کیپسول ہو یا ملائم کیپسول، یہاں تک کہ غیرکیپسول ٹیبلیٹ کو باندھنے میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔
مانگکے باوجود ہندوستان کی سب سے بڑی فارماسیوٹکلس کمپنیوں میں سے کوئی بھی اس وقت اس کی پیداوار نہیں کرنا چاہتی تھی۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کیوں؟اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جینیرک دوائیوں میں پیسہ زیادہ ہے۔ لیکن ایک دوسری وجہ جس کا ذکر کم کیا جاتا ہے،یہ ہے کہ جلیٹن بنانے کے لئے استعمال میں لائے جانے والے شروعاتی مادوں میں سے ایک مادہ جانوروں کی ہڈیاں ہیں، جو عام طور پر پہلے سے ہی مردہ بھینس سے حاصل کی جاتی ہیں۔ زیادہ تر روایتی گجراتی کاروباریوں کے لئے یہ ایک سختی سے ممنوع ریاست تھی۔
دوسری طرف سندیسرا بندھو وں کے لئے یہ ایک موقع تھا۔ اور اس طرح سے اسٹرلنگ بایوٹیک کا جنم ہوا۔ جیسا کہ بجاج کیپٹل کے مارکیٹ انالسٹ ابھشیک گپتا نے 2008 میں کمپنی کے کاروباری ماڈل پر لکھا تھا :جلیٹن کی پیداوار میں استعمال میں لایا جانے والا شروعاتی کچا مال بھینس کی ہڈیاں، چونا اور ہائیڈروکلورک تیزاب ہیں۔ یہ کچا مال ہندوستان میں کثرت سے موجود ہے، کیوں کہ ہندوستان دنیا میں بھینس کے گوشت کے سب سے بڑے پروڈکشن میں سے ایک ہے۔ کچے مال کی کم قیمت کی وجہ سے اسٹرلنگ دنیا بھر میں جلیٹن کا سب سے کم لاگت پر پیداوار کرنے والا بن گیا ہے۔ 100 فیصد سے زیادہ صلاحیت کا استعمال اسٹرلنگ کو اپنے حریف کے مقابلے میں ایک ظاہری لاگت کا فائدہ دیتا ہے۔ ‘
سندیسرا بندھو وں نے جلیٹن پیداوار کی پہلی اکائی 1990 کی دہائی کے بیچ میں کرکھاڑی ضلع میں شروع کی، جو وڈودرا شہر سے تقریباً35 کلومیٹر دور اور ان کے ذریعے بعد میں امپاد گاؤں میں بنائے گئے فارم ہاؤس سے تقریباً20 کلومیٹر دور ہے۔اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ کرکھاڑی میں اپنی یونٹ کھولنے کے تقریباً ایک دہائی سے زیادہ وقت کے بعد، انہوں نے فارما کاروبار میں اچھا مظاہرہ کیا تھا۔ان کی کمپنی کا بازار سرمایہ تقریباً 4000 کروڑ روپے کا تھا اورریونیو تقریباً1000 کروڑ روپے کا تھا ؛ اس کے ساتھ ہی گھریلو بازار میں اس کی حصےداری 85 فیصدی اور دنیا بازار میں حصےداری 6 فیصد تھی۔
اس کے ساتھ ہی وہ دنیا بھر میں جلیٹن کے ٹاپ پانچ پروڈکشن میں تھے۔ شروعاتی کامیابی کے بعد سندیسرا بندھو ؤں نے جلد ہی دوسرے شعبے میں پاؤں پھیلانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔2003 کے بعدکے ‘وائبرنٹ گجرات ‘ کانفرنسوں میں ان کے ذریعے بڑی تعداد میں دوسرے نئے کاروباروں کا اعلان کیا جاتا تھا، جن میں سب سے اہم داہیج پتن پر ایک گرین فیلڈ (نیا)منصوبہ اور جنبوسر میں ایک خاص اقتصادی سیکٹر(سیز) منصوبہ تھا۔
آخرکار یہ دونوں منصوبہ بری طرح سے ناکام رہے اور اس عمل میں ان پر سینکڑوں کروڑ کا قرض جمع ہو گیا۔اسی سال داہیج اور جنبوسر میں سرمایہ کاری کے پیچھے کے گروپ کی کمپنیوں کو، اس کے قرض دہندہ کے ذریعے دیوالیہ کارروائیوں کے لئے نیشنل کمپنی لا ٹریبونل لے جایا گیا۔
احمد آباد واقع ایک بڑی کمپنی کے ایک سینئر ایگزیکٹو کا کہنا ہے،2000 کی دہائی کے شروعاتی سال ان گجراتی کاروباریوں کے لئے شاندار رہے۔ 2002 کے فسادات کے بعد مودی اور اہم کاروباریوں کے درمیان کے تعلقات بگڑ گئے، اس لئے ریاست کی صنعتی لہر پر سواری کرنے کے خواہش مند مقامی کاروباری منصوبہ حاصل کرنے اور آسان فنڈنگ پانے میں کامیاب ہو گئے۔ ‘
لیکن جس کو سندیسرا گروپ کے تاج کا اگلا ہیرا کہا جانے والا تھا، وہ تھا اس کے تیل کی کھو ج اور پروڈکشن ۔ اس کمپنی کو اسٹرلنگ گلوبل کا نام دیا گیا۔نومبر،2011 میں منٹ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں نتن سندیسرا نے کہا، 2001 سے 2002کی شروعات میں جب ہم نے تیل کے کاروبار میں اترنے کا فیصلہ کیا، اس وقت ہم اس کو بڑا بنانا چاہتے تھے اور بس چھوٹے کھلاڑی بنکر نہیں رہنا چاہتے تھے۔ ‘
نتن سندیسرا اس وقت گروپ کے صدر تھے۔ اور یہ پیمانہ کتنا بڑا تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2004 کے آخری حصے میں جب کمپنی کو چار ساحلی بلاک سے کچّے تیل کا پتا لگانے اور نکالنے کا لائسنس ملا، اس وقت نائیجیریا کے کاروبار میں 1.5 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔
طرز زندگی
وڈودرا میں رہنا سندیسرا بندھو ؤں، خاص طورپر چیتن کے جنوبی ممبئی کی طرز زندگی جینے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنی۔سیاست، کاروبار اور بالی ووڈ کا انوکھا میل امپاد گاؤں میں فیملی کے 60000 مربع فٹ کے فارم ہاؤس میں اتر آیا جو شہر کے ٹھیک باہری علاقے میں واقع تھا۔ چیتن کی بیوی دیپتی سندیسرا، خاص طور پر اس کا حصہ تھیں، ان کی سوشلائٹ دوستوں میں نیتو کپور (اداکارہ اور رشی کپور کی بیوی) نیلم کوٹھاری (اداکارہ اور ڈیزائنر) اور سنیتا کپور (ڈیزائنر اور انل کپور کی بیوی) شامل تھیں۔ سندیسرا بندھو کی فیملی سمیت ملک سے بھاگ جانے کے بعد سالوں سے دیپتی کے جنم دن کی پارٹیوں کو چھاپتے رہنے والے ممبئی کے ٹیبلائڈ پریس نے فیملی کی قسمت پر تبصرہ کیا۔2018 کی ممبئی مرر کی ایک رپورٹ میں کہا گیا؛
‘ ایسا لگتا ہے کہ سیلیبرٹیوں اور گھوٹالوں کے درمیان اٹوٹ رشتہ ہے۔ دہلی کی ایک عدالت کے ذریعے برودا اور ممبئی کی دیپتی سندیسرا، جن کو نیتو کپور، مہیپ اور سنیتا کپور اور نندتا مہتانی، سریلی گوئل، سیما خان اور نیلم کوٹھاری جیسی کئی دیگر نامی-گرامی عورتوں کی گہری دوست کے طور پر بھی جانی جاتی ہے، کے خلاف غیرضمانتی وارنٹ کے نکلے کچھ ہی دن ہوئے ہیں۔ ‘
لیکن جب مشکلیں کھڑی ہونی شروع ہوئیں، تب بھی سندیسرا فیملی نے اپنی بھڑکیلی طرز زندگی سے باز آنے کی کوئی زحمت نہیں اٹھائی۔انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے ذریعے بنا حساب والے پیسے کو لےکر سوال پوچھنے کے لئے وڈودرا کا باقاعدہ دورہ شروع کرنے (2011)-یہی وہ سال تھا جب ای ڈی ان کے دروازے تک پہنچی اور متنازعہ ‘ ڈائری 2011 ‘ کو ضبط کیا-کے دو سال بعد اور بینکوں کے ذریعے گروپ کے قرض کے ڈوب جانے کا خطرہ جتانے (2012) کے ایک سال بعد بھی وہ راج شاہی زندگی جی رہے تھے۔
مثال کے لئے، 2013 میں ٹائمس آف انڈیا کو دئے گئے ایک انٹرویو میں چیتن سندیسرا نے اس بارے میں بات کی کہ کس طرح سے شہر کے باہر بنا ان کے بنگلہ کو کس طرح شاہ رخ خان کی بیوی گوری خان اور رتک روشن کی بیوی سزین،کے ذریعے پھر سے ڈیزائن کرتے ہوئے اس کو نئی شکل دی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا،’میری بیوی گوری اور سزین سے پارٹیوں میں ملی اور ان کے درمیان دوستی ہے۔ ہم لوگ اپنے نئے بنگلہ کے لئے پیشہ ور انٹیریئر ڈیزائنر کی تلاشکر رہے تھے اور ہمیں پتا تھا کہ گوری اور سزین انٹیریئر ڈیزائننگ کرتی ہیں۔ انہوں نے ہمیں کچھ ڈیزائن دین اور ہمیں وہ پسند آئیں۔ ‘انہوں نے یہ بھی کہا، ‘یہ بنگلہ، دسمبر (2013) تک تیار ہو جائےگا، جس کے بعد ہم وہاں چلے جائیںگے۔ اس موقع پر ہم ایک دعوت رکھیںگے، جس میں گوری، سزین اور بالی ووڈ کے بڑے ستارے مدعو ہوںگے۔ ‘
لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سندیسرا کا طریقہ تھا، جس میں وڈودرا شہر پر اپنی چھاپ چھوڑنا شامل تھا۔
استھانا سے ملاقات
لیکن اس وقت تک یہ دونوں بھی کھل کر اپنی سیاسی وفاداری دکھانے کے معاملے میں زیادہ تر خاموش رہتے تھے، جبکہ اس وقت زیادہ تر گجراتی صنعت کاروں کو اس کا مظاہرہ کرنے میں کوئی پریشانی نہیں تھی۔یوں تو، سندیسرا بندھو ‘ریسرجینٹ گروپ آف گجرات ‘کے حصہ تھے-یہ نام 2002 کے گجرات فساد کے بعد کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری(سی آئی آئی)کے کچھ ممبروں کے خلاف اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کی طرف داری کرنے والے سو سے زیادہ مقامی صنعتی رہنماؤں کے ذریعے اپنایا گیا تھا-لیکن وہ اس تنظیم کا اہم چہرہ نہیں تھے۔
یہ کام مودی کے زیادہ قریب مانے جانے والے صنعت کاروں ،اڈانی گروپ کے گوتم اڈانی، ٹارینٹ گروپ کے سدھیر مہتہ، نرما کے کرسن پٹیل اور بکری انجینئرس کے انل بکری کے لئے چھوڑ دیا گیا تھا۔لیکن سندیسرا بندھو وڈودرا کو کچھ واپس لوٹانے اور وہ شہر، جس کو انہوں نے اپنا گھر بنایا تھا، کو بہتر بنانے میں یقین رکھتے تھے، جس کی وجہ سے ان کا تعارف ‘سپر کاپ ‘راکیش استھانا سے ہوئی۔
2008 میں استھانا کو وڈودرا کا پولیس کمشنر مقرر کیا گیا۔ اس وقت تک گودھرا ٹرین آگ زنی معاملے کی جانچ کے لئے بنی خصوصی تفتیشی ایجنسی، جس نے اس معاملے کے واقعات میں اہم تبدیلی کئے تھے، کے صدر کے طور پر ان کی ایک پہچان بن گئی تھی۔ سندیسرا فیملی اور وڈودرا کے پولیس سربراہ کے درمیان تعارف اور بعد میں اس تعارف کے گہری دوستی میں بدلنے کے جتنے منھ اتنے قصّے ہیں۔ایسی ہی ایک کہانی کے مطابق، 2008 میں استھانا کے پولیس کمشنر بننے کے بعد (اس سے پہلے انہوں نے انسپکٹر جنرل کے طور پر پانچ سال کام کیا)، نتن سندیسرا نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ نجی اور عوامی شراکت داری کے تحت پولیس صدر دفتر کی تجدیدکاری کو اسپانسرڈ کرنا چاہتے ہیں۔
یہ وہ دور تھا جب ملک بھر میں زیادہ تر ریاستی حکومتوں کے محکمہ جات میں نجی اور عوامی شراکت داری عام ہو چلی تھی۔ اس تجدیدکاری کے عمل کے دوران ہی استھانا اور سندیسرا کے درمیان قربتیں بڑھیں۔کم سے کم ایک ذرائع نے پولس صدر دفتر کی مرمت کے لئے فیملی کے ذریعے پیسے دئے جانے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ پولیس صدر دفتر میں اس بارے میں ایک تختی بھی لگائی گئی تھی، جس میں سندیسرا گروپ کو مالی شراکت دینے کا سہرا دیا گیا تھا۔ لیکن وڈودرا شہر پولیس کی ویب سائٹ پر اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
ایک دوسری کہانی کے مطابق استھانا کی چیتن سندیسرا سے ملاقات تب ہوئی، جب وہ ایک بار اسٹرلنگ ہیلتھ کیئر مال گئے تھے۔ یہ سندیسرا فیملی کے ذریعے شہر میں کھولا گیا ایک بہت بڑا تین منزلہ جم اور ہیلتھ کیئر سینٹر تھا۔دونوں کے درمیان رشتہ یہیں سے آگے بڑھا۔ اس شروعاتی دوستی کی وجہ سے ہی سندیسرا فیملی نے وڈودرا پولس بھون کی مرمت میں دلچسپی دکھائی۔
سندیسرا کے سماجی دائرے میں آنے والے دوسرے لوگ نتن ‘گربا ‘یا مذہبی موسیقی کے لئے سندیسرا اور اور استھانا دونوں کی مشترکہ محبت کے بارے میں بات کرتے ہیں، جس کی وجہ سے کمپنی نے وڈودرا میں 2010 کی نوراتری میں’ماں-آرکی’ گربا کو پھر سے شروع کرنے کے لئے پیسہ دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ استھانا نے اس پروگرام میں کئی بار شرکت کی۔اس وقت کے ٹائمس آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ اس گرباسے جمع ہونے والا سارا پیسہ وی ٹی ای ٹی کو دیا جائےگا۔
اس رپورٹ میں شہر کے اسٹاک ایکسچنج کے نائب صدر سدھیر شاہ کے حوالے سے کہا گیا ہے، ‘ جمعرات کو شہر کے پولیس کمشنر راکیش استھانا کی صدارت میں ہوئی وی ٹی ای ٹی کی میٹنگ میں ہم نے یہ اعلان کیا کہ گرباکے ذریعے اکٹھا کیا گیا پیسہ سیدھے وی ٹی ای ٹی کو عطیہ میں دیا جائےگا۔ ‘2010 سے 2012کے درمیان یہ وہ وقت تھا، جب بتایا جاتا ہے کہ استھانا کے بیٹے آنکش استھانا بطور انٹرن اسٹرلنگ بایوٹیک میں شامل ہوئے اور یہاں دو سال تک کام کیا-یہ الزام کامن کاز این جی او کے ذریعے گزشتہ سال سپریم کورٹ میں دائر ایک عرضی میں لگایا گیا ہے۔
حال کے مہینوں میں استھانا کی بیٹی کی شادی بھی سی بی آئی کی جانچکے دائرے میں آئی ہے، جس کی کچھ تقریبات مبینہ طور پر وڈودرا کے ٹھیک باہر امپاد میں سندیسرا کے فارم ہاؤس میں ہوئے۔سوال اٹھتا ہے کہ کیا استھانا اور سندیسرا کے درمیان کے تعلقات آپسی لین دین والے تھے؟ سی بی آئی کے اندر کم سے کم پانچ لوگوں کے مشتبہ ہونے کو لےکر کافی ثبوت ہیں، لیکن ابھی تک کچھ بھی ثابت نہیں ہوا ہے۔
گجرات کی ایک بڑی فارماسیوٹکلس کمپنی کے سینئر ایگزیکٹو بتاتے ہیں،’آپ کسی سے بھی پوچھیے، وہ آپ کو بتائےگا کہ کسی خاص شہر سے رشتہ رکھنے والے کاروباریوں کا مقامی افسروں کے ساتھ دوستانہ تعلق ہوتا ہے۔ یہ ضروری طور پر رشوت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ایک دوسرے سے پہچان کا معاملہ ہے۔ کیا انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے ذریعے چھاپا مارنے کی حالت میں ایک سینئر پولیس افسر کے آپ کے حق میں ہونے سے مدد ملتی ہے؟ یقینی طور پر ہاں، لیکن آخرکار یہ آپ کو بچا نہیں پائےگا۔ ‘
2011 میں ای ڈی کے ذریعے ضبط کی گئی’ڈائری 2011 ‘، جس میں کمپنی کے ریکارڈز ہیں، سے ایسا لگتا ہے کہ اب بھی کافی کچھ چھپا ہوا ہے۔2017 کے آخر میں سپریم کورٹ کے وکیل اور سماجی کارکن پرشانت بھوشن اور سیاسی کارکن یوگیندر یادو نے ایک پریس کانفرنس میں یہ الزام لگایا تھا کہ ڈائری کی انٹری سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ استھانا نے اسٹرلنگ بایوٹیک سے تقریباً3.5 کروڑ روپے دئے تھے، حالانکہ اس بات کو لےکر ایک رائے نہیں ہے کہ ریکارڈ میں درج آر اے کا مطلب راکیش استھانا ہے یا اس کا استعمال رننگ اکاؤنٹ کے لئے کیا گیا ہے۔
ابھی حال میں، سی بی آئی کے تیسرے سب سے سینئر افسر (اے کے شرما) کی قیادت میں سی بی آئی کی اندرونی تفتیش اس بات کا پتا لگانے کے لئے شروع ہوئی کہ کیا استھانا نے سی بی آئی کے اندر اپنے اثر کا استعمال سندیسرا اور اسٹرلنگ بایوٹیک کے دوسرے ڈائریکٹرس کے خلاف آمدنی محصول کی کارروائیوں کو ٹالنے اور ان میں روکنے کے لئے کیا؟
سندیسرا گروپ کا زوال
سندیسرا سامراجیہ میں دراڑ دو مرحلوں میں آیا اور جانچ ایجنسی کا ماننا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں۔اس میں پہلا تھا اس کا سب سے بڑا جیلٹن کاروبار اسٹرلنگ بایوٹیک کا زوال ۔ آلودگی سے جڑے کئی مسائل کی وجہ سے وڈودرا کے باہر کااس کا کارخانہ تقریباً ایک سال تک بند رہا۔اس جھٹکے سے یہ کمپنی کبھی نکل نہیں پائی۔ اگست، 2008 میں کمپنی کے شیئرز کی قیمت 196.50 روپے فی شیئر تھی، جہاں سے یہ لڑھککر تقریباً ایک سال سے تھوڑے زیادہ عرصے میں اکتوبر، 2009 میں 90.20 روپے پر چلی آئی اور 2012 تک اس کی قیمت کوڑیوں کے برابر رہ گئی۔
اسی وقت کے آس پاس سے (2006) سے سندیسرا بندھو ؤں نے بڑے قرض لینے شروع کر دئے۔ اس میں سے زیادہ تر قرض آندھرا بینک کی قیادت والے قرض دہندوں کے ایک گروپ کے ذریعے دیا گیا۔آندھرا بینک کے انوپ پرکاش گرگ پر ای ڈی کے ذریعے سندیسرا بندھو ؤں سے نقد پیسے لینے کے الزامات میں معاملہ درج کیا گیا ہے۔اس بات کو لےکر کئی عام تخمینہ ہیں کہ انہوں نے کتنا قرض لیا اور اس کا کتنا فیصد گروپ کی کس کمپنی کو گیا۔
لیکن اگر موٹے طور پر تخمینہ لگایا جائے، تو سندیسرا گروپ نے 2006 اور 2011 کے درمیان تقریباً 6000 کروڑ روپے قرض کے طور پر لئے۔اس کا ایک بڑا حصہ (3000 کروڑ روپے) اسٹرلنگ بایوٹیک کو گیا، لیکن باقی پیسہ ظاہر ی طور پر دوسرے کاروباروں کی توسیع کرنے میں خرچ کیا گیا-جن میں اسٹرلنگ سیز(900 کروڑ روپے)نائیجیریا میں ا اسٹرلنگ تیل(1500 کروڑ روپے) اور پی ایم ٹی مشینس (300 کروڑ روپے)شامل ہے۔
ان میں سے کتنا قرض غلط کاروباری فیصلے کی نذر چڑھ گیا اور کتنے کا نقصان، جیسا کہ سی بی آئی اور ای ڈی کو شک ہے، پیسے کو دوسری طرف موڑ دینے کی وجہ سے ہوا؟ امید کی جا سکتی ہے کہ چل رہی تفتیش سے اس کے بارے میں پتا چلےگا۔2012 آتےآتے تک گروپ کا مستقبل تاریک نظر آنے لگا۔ مئی، 2012 میں ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کے ایک گروپ نے اسٹرلنگ بایوٹیک کے ذریعے 2007 میں بیچے گئے ایک پانچ سال کے غیر ملکی کرنسی بدلنے والا بانڈس (کنروٹل بانڈس)کی باز ادائی طے وقت پر کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے سندیسرا گروپ کو لندن کی کورٹ میں گھسیٹا۔
اس وقت نتن سندیسرا نے میڈیا کے سامنے اس کو ‘سیالیت کی عارضی گڑبڑی’قرار دیتے ہوئے اس بات سے پوری طرح سے انکار کر دیا تھا کہ کمپنی قرض نہ چکا پانے کے کسی طرح کے بحران کا سامنا کر رہی ہے۔دوسرے لوگ اتنے پر امید نہیں تھے۔ اسٹرلنگ بایوٹیک پر قرض کے بوجھ پر لکھتے ہوئے بازار تجزیہ کار دیپک شنائی نے لکھا تھا،’ تقریباً 184 ملین(18.4 کروڑ) ڈالر کا آج (16 مئی 2012) باز دائیگی کی تاریخ ہے-کل قرض 993.6 کروڑ روپے(9.936 ارب)ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پیسہ اسٹرلنگ بایوٹیک کو نہیں ملا ہے۔ حالیہ نتیجہ صرف جنوری، فروری، مارچ کے سہ ماہی میں 92 کروڑ روپے کا قرض دکھاتے ہیں، یہاں تک کہ دسمبر کے سہ ماہی میں بھی نقصان دکھایا جا رہا ہے۔ ان کا جلیٹن کا اہم دھندہ آلودگی مخالف اصولوں کی وجہ سے شدیدطور پر متاثر ہوا ہے اور ان کے مصنوعات کو سستی چینی مقابلہ نے کافی نقصان پہنچایا ہے۔ہم بھلے اسٹرلنگ بایوٹیک کے جہاز کو ڈوبا ہوا مان چکے ہیں، لیکن اس کے ذریعے قرض نہ چکانا بڑے طوفان کو جنم دے سکتا ہے۔
2017 تک یہ واضح ہو گیا کہ دوسرے کاروباروں میں پاؤں پھیلانے کی گروپ کی کوششیں ناکام ہو گئی تھیں-خاص طور پرر داہیج پتن اور جنبوسر سیز منصوبہ۔ان کے نائیجیریا تیل کاروبار کو لےکر خطرہ کے اشارہ 2015 سے ملنے لگے تھے۔ اس سال کمپنی نے بہادر چہرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تیز کھوج میں 3 ارب امریکی ڈالر سرمایہ کاری کرنے اور 2017 تک روزانہ 1 لاکھ بیرل تیل تک پہنچ جانے کی اسکیم ہے۔
2016 کے جون میں تیل صنعت کی ایک ویب سائٹ پیٹرو واچ نے یہ خبر دی کہ کس طرح سے نائیجیریا میں کمپنی کے کئی ملازمین نے، جن کا الزام تھا کہ ان کو مہینوں سے پیسے نہیں ملتے ہیں، نے ٹوئٹر کے ذریعے وزیر خارجہ سشما سوراج سے مدد کی دہائی لگائی۔اس خبر میں کہا گیا،’ ارب پتی نتن سندیسرا کی ملکیت والی ا سٹرلنگ تیل ایکسپلوریشن اینڈ انرجی کے ذریعے مبینہ طور پر ڈرائے-دھمکائے جانے سے نائیجیریا میں کمپنی کے ملازمین کو حکومت ہند سے مدد مانگنے کے لئے مجبور کر دیا ہے۔
سات مہینوں تک تنخواہ نہیں ملنے کے بعد، اسٹرلنگ کے ملازمین نے وزیر مملکت خارجہ جنرل (ریٹائر)وی کے سنگھ سے ٹوئٹر پر رابطہ کیا۔15 جون کو سنگھ نے جواب دیا،'(ہندوستانی)سفارت خانہ پوری کوشش کر رہا ہے اور آپ کے مسئلہ کا حل کرےگا۔ ‘ایک دن پہلے وائرلائن لاگنگ انجینئر مہاویر دیوان، جن کو اسٹرلنگ کے لاگوس آفس سے برخاست کر دیا گیا تھا، نے ٹوئٹر پر لکھا کہ کمپنی کے چیف دیپک بروٹ نے ان کو دھمکی دی اور ان سے فوراً ہندوستان چلے جانے کے لئے کہا۔
12 جون کو ارجن کمار نے وزیر خارجہ سشما سوراج کو ٹوئٹ کیا؛ ہم 6-7 مہینے سے غلاموں کی طرح ہفتے میں سات-سات دن بنا تنخواہ کے کام کر رہے ہیں۔ اب وہ ہماری تنخواہ اور بقایا نہیں دے رہے ہیں۔ اگر کوئی شکایت کرتا ہے، تو کمپنی کے انتظامیہ کے ذریعے اس کو اور اس کی فیملی کو دھمکی دی جاتی ہے۔ ‘اکتوبر 2017 میں سندیسرا گروپ کے انتظامیہ، اس کے دونوں بھائیوں، دیپتی سندیسرا اور نامعلوم ذاتی آدمیوں اور عوامی خادموں کے خلاف پروینشن آف کرپشن ایکٹ اور پروینشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ، 2002 کے تحت سی بی آئی کے ذریعے دو معاملے درج کرنے کے ساتھ ہی سندیسرا گروپ پر آخری ہتھوڑا چلا۔
تب درج ہوئی ایک ایف آئی آر میں کہا گیا،’ایک قابل اعتماد ذرائع سے یہ اطلاع ملی ہے کہ اسٹرلنگ بایوٹیک لمیٹڈ، اس کے اوپر تحریر شدہ ڈائریکٹر اور دیگر نے ملکر بےایمان ارادے کے ساتھ آندھرا بینک اور عوامی شعبے کے دیگر بینکوں کو دھوکہ دینے کے لئے مجرمانہ سازش کی۔ ‘اس میں آگے کہا گیا ہے، اسٹرلنگ بایوٹیک نے 5،00 کروڑ روپے سے زیادہ کے قرض کا استعمال کیا ہے، جو کہاین پی اے میں بدل گئے ہیں۔
پچھلے مہینے درج کی گئی ای ڈی کی ایف آئی آر اور بھی واضح ہے۔ اس کے مطابق کل لیا گیا قرض اور زیادہ (8000 کروڑ) ہے۔ اور اس میں یہ تفصیلی طریقے سے یہ بتایا گیا ہے کہ بینکوں کو دھوکہ دینے کے لئے مجرمانہ سازش رچی گئی۔ای ڈی نے ایک بیان میں کہا، ‘انہوں نے بینکوں سے قرض لینے کے لئے اپنی اہم کمپنیوں کی بیلنس شیٹ میں اعداد و شمار کی ہیراپھیری کی۔ قرض پا لینے کے بعد انہوں نے قرض کے پیسے کو مختلف شیل کمپنیوں کے ذریعے ان مقاصد میں لگا دیا، جن کے لئے یہ قرض نہیں دئے گئے تھے۔ ‘
لیکن جب تک سی بی آئی پہلا معاملہ درج کر پاتی، کافی دیر ہو چکی تھی۔ سندیسرا فیملی ملک سے باہر بھاگ چکی تھی-پہلے مبینہ طور پر دبئی اور اب نائیجیریا۔کیا ان کے روابط اور ان کے ذریعے دئے گئے رشوتوں نے ان پر گرفت کسنے سے پہلے ہی ان کو بچکر نکل جانے میں مدد کی؟اس کا جواب وقت دےگا، لیکن جنوری، 2018 میں اسٹرلنگ معاملے سے جڑے چھوٹے کاروباریوں کی ضمانتی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے اڈیشنل سیشن عدالت سدھارتھ شرما نے یہی سوال ای ڈی سے پوچھا۔
شرما کے لفظ تھے، ‘پورا نظام ہی خراب ہے۔ آپ (ای ڈی)صرف چھوٹی مچھلیوں کو پکڑ رہے ہیں۔ میں اس بات کو لےکے حیرت زدہ ہوں کہ آخر آج تک ملزم کمپنی(گجرات کی فارما کمپنی ا سٹرلنگ بایوٹیک)کے کسی افسر، چارٹرڈ اکاؤنٹ اور دیگر کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا ہے۔ اپنی پسند کے حساب سے لوگوں کو مت چنیے۔ ‘یہ لفظ آگے بڑھانےوالے تھے اور اس جانب اشارہ کر رہے تھے کہ آنے والے سالوں میں اس معاملے میں تفتیش کس طرح چلےگی۔
Categories: فکر و نظر