اگریکلچر منسٹری نے 20نومبر کو پارلیامانی کمیٹی کو دی گئی وہ رپورٹ واپس لے لی ، جس میں کہا گیا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے کسان کھاد اور بیج نہیں خرید سکے تھے ۔ کمیٹی کو دی گئی نئی رپورٹ میں وزارت نے کہا کہ نوٹ بندی کا زراعتی شعبے میں اچھا اثر پڑا۔
نئی دہلی : اگریکلچر منسٹری نے پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی سے زراعت پر نوٹ بندی کے اثرات سے متعلق اپنی رپورٹ واپس لے لی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے نومبر 2016میں 500اور 1000کے نوٹوں کو بند کرنے کے فیصلے سے کسان کمیونٹی بری طرح متاثر ہوئی تھی ۔ کمیٹی کے کچھ ممبروں نے یہ جانکاری دی ہے۔سینئر کانگریسی رہنما ایم ویرپا موئلی کی صدارت والی کمیٹی کی منگل کو میٹنگ ہوئی تھی ۔ اس میں ریزرو بینک کے گورنر ارجت پٹیل نے اقتصادی صورت حال کے بارے میں پریزنٹیشن دیا تھا۔
کمیٹی میں شامل اپوزیشن کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وزارت نے 20 نومبر کو کمیٹی کے سامنے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے کسانوں کو بیج اور کھاد خریدنے میں پریشانی ہوئی تھی ۔اپوزیشن کے ممبروں نے بتایا کہ وزارت زراعت نے 20 نومبر کو دی گئی رپورٹ کو واپس لے لیا ہے اور اب کمیٹی کو نئی رپورٹ دی گئی ہے۔ نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوٹ بندی کا کسانوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
این ڈی ٹی وی کی ایک خبر کے مطابق، وزارت کی نئی رپورٹ کے بیک گراؤنڈ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نوٹ بندی کا زراعتی شعبے پر اچھا اثر پڑا۔ اس کے مطابق، بیج کی فروخت میں اضافہ ہوا، کھاد کی فروخت بڑھی اور 2016میں ربی کا رقبہ بھی بڑھا۔ذرائع کے مطابق وزارت نے متعلقہ کمیٹی کو مطلع کیا ہے کہ ڈیٹا تیارکرنے میں غلطی کی وجہ سے پہلے نوٹ میں گڑبڑی ہوئی ۔ کمیٹی کو دیے گئے پہلے نوٹ میں وزارت نے کہا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے زراعتی شعبے میں نقدی کی کمی آئی اور کسان کھاد-بیج خریدنے میں ناکامیاب رہے۔
Certain media channels and newspapers have been running a story that the agriculture ministry has accepted that farmers have been adversely affected by demonetisation and were unable to purchase seeds due to unavailability of cash. This is far from truth. The truth is this: pic.twitter.com/UPsnfbBX0D
— Radha Mohan Singh (@RadhamohanBJP) November 21, 2018
حالاں کہ وزیر زراعت رادھا موہن سنگھ نے 23 نومبر کو ٹوئٹر پر ان دعووں کو خارج کیا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے کسان کھاد،بیج نہیں خرید پائے تھے ۔واضح ہوکہ وزارت نے اس سے پہلے پارلیامانی کمیٹی کو بھیجے اپنے جواب میں یہ ماناتھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے کسانوں پر بہت برا اثرا پڑا تھا۔وزارت نے کمیٹی کو دی رپورٹ میں کہا تھاکہ نوٹ بندی کی وجہ سے ہندوستان کے لاکھوں کسان سردی کی فصلوں کے لیے کھاد اوربیج نہیں خرید پائے تھے ۔
وزارت زراعت کے ذریعے سونپی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوٹ بندی ایسے وقت پر ہوئی جب کسان اپنی خریف فصلوں کی خرید اور ربی فصلوں کی بوائی میں لگے ہوئے تھے ۔ ان دونوں کاموں کے لیے کثیر تعداد میں نقد کی ضرورت تھی لیکن نوٹ بندی کی وجہ سے ساری نقدی بازار سے ختم ہوگئی تھی۔وزارت نے مزید کہا کہ ،ہندوستان کے 26.3کروڑ کسان زیادہ تر نقدی پر منحصر کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے ربی فصلوں کے لیے لاکھوں کسان بیج اور کھاد نہیں خرید پائے تھے ۔ یہاں تک کہ بڑے زمینداروں کو بھی کسانوں کو مزدوری دینے اور کھیتی کے لیے اشیا خریدنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نقدی کی کمی وجہ سے نیشنل سیڈ کارپوریشن بھی تقریباً 1.38 لاکھ کوئنٹل گیہوں کے بیج نہیں بیچ پایا تھا۔ یہ حالت تب بھی نہیں ٹھیک ہوپائی جب حکومت نے کہا تھا کہ 500 اور 1000کے پرانے نوٹ گیہوں کے بیج بیچنے کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں ۔ پارلیامانی کمیٹی کی بیٹھک کے دوران اپوزیشن پارٹیوں کے کئی ممبروں نے اس کو لے کر کافی تیکھے سوال کیے ۔ ذرائع نے بتایا کہ آل انڈیا ترنمول کانگریس کے دینیش ترویدی نے پوچھا کہ کیا حکومت کو سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای )کے اس رپورٹ کی جانکاری تھی ، جس میں کہا گیا ہے کہ نوٹ بندی کے بعد جنوری اپریل 2017 کے بیچ 15 لاکھ لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں ۔
حالاں کہ لیبر منسٹری نے نوٹ بندی کی تعریف کرتے ہوئے رپورٹ فائل کی ہے۔ واضح ہوکہ مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات میں زرعی بحران ایک اہم مدعا ہے ۔سبھی پارٹیوں نے اپنے منشور میں کسانوں کی حالت کو بہتر بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔دریں اثنا 29 اور 30 نومبر کو ملک بھر سے ہزاروں کسان قرض میں راحت اور اپج کی مناسب قیمت سمیت کئی مانگوں کو لے کر دباؤ بنانے کے لیے دہلی میں دو دن کے مظاہرہ کے لیے جمع ہوئے ہیں ۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں