فکر و نظر

فرقہ وارانہ بیان بازی اور اسٹارپرچارکوں کے باوجود تلنگانہ میں بی جے پی کی دال گلتی نظر نہیں آرہی

خصوصی رپورٹ : تلنگانہ کے انتخابات میں بی جے پی کے کوئی اثر پیدا کر پانے کا امکان کم ہے، لیکن یہ صاف ہے کہ پارٹی کا مقصد موجودہ انتخابی تشہیر کے سہارے ریاست میں اپنا مینڈیٹ بڑھانا ہے۔

ایک انتخابی ریلی میں بی جے پی صدر امت شاہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

ایک انتخابی ریلی میں بی جے پی صدر امت شاہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے صدر امت شاہ کے ذریعے دھواں دھار انتخابی تشہیر اور آنے والے دنوں میں اسٹارپرچارکوں کے مجوزہ انتخابی پروگراموں کے باوجود تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں پارٹی کے قابل ذکر مظاہرےکی امید نظر نہیں آ رہی ہے۔بی جے پی کے فطری فرقہ وارانہ تیور کے ساتھ شاہ نے 25 نومبر کو انتخابی مہم کی شروعات کی۔ انتخابی مہم کی شروعات کرتے ہوئے یہاں بھی ان کا انداز انتخاب میں جا رہے دوسری ریاستوں والا ہی تھا۔

اتوار کی ریلی میں بی جے پی صدر نے کانگریس پر مبینہ طور پر ‘اربن نکسل ‘کو حمایت دینے کے لئے حملہ بولا۔انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ تلنگانہ راشٹریہ سمیتی (ٹی آر ایس)اویسی بھائیوں کے کنٹرول میں ہے۔یہ پینترا ملک کے دوسرے حصوں میں تو انتخابی فائدہ پہنچا سکتا ہے، لیکن تلنگانہ میں ایسی گنجائش نہیں ہے۔اس سے بھی اہم بات ہے کہ بی جے پی نے دو اہم سیاسی جماعتوں کانگریس اور ٹی آر ایس کے ذریعے چلائی گئی مہم سے الگ انتخابی مدعوں پر اپنی انتخابی تشہیر چلائی ہے۔

کانگریس ٹی آر ایس حکومت پر اس کے اہم وعدے-پانی، فنڈ اور روزگار دینے-کو پورا کرنے میں ناکام رہنے کا الزام لگا رہی ہے۔  اس کے جواب میں ٹی آر ایس نے اب آندھر پردیش کی حکمراں جماعت تیلگو دیشم کے ساتھ کانگریس کے اتحاد کا استعمال آندھر مخالف جذبات کو ابھارنے کے لئے شروع کر دیا ہے۔ایسی حالت میں، شاہ کی’اربن نکسل’کے خلاف بیان بازی اور مسلم کمیونٹی میں پسماندہ طبقوں کو ریزرویشن دینے کی باتیں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔

یہ سب کو یاد ہوگا کہ اپریل،2017 میں تلنگانہ اسمبلی نے ریاست کے مسلمانوں کا ریزرویشن بڑھاکر 12فیصد کرنے کا بل بنا کسی ہنگامے اور تنازعے کے پاس کر دیا۔اس وقت بھی بی جے پی نے اس مدعے کا استعمال کرکے کمیونٹی کو بانٹنے کی کوشش کی، جس میں وہ ناکام رہی۔  اس کے تمام پانچ ایم ایل اے کو اس مدعے پر شور-شرابہ کرنے کے لئے اسمبلی کے اس سیشن سے سسپنڈ کر دیا گیا تھا۔

حاشیے پر چھوٹی بی جے پی

تاریخی طور پر متحد آندھر پردیش اور تلنگانہ کی نئی ریاست تلنگانہ میں بی جے پی کی محدود موجودگی رہی ہے۔  2014 کے انتخاب میں بی جے پی تلنگانہ کی 119 سیٹوں میں سے صرف 5 سیٹیں جیت پائی۔یہ ساری سیٹیں اس کو حیدر آباد میں ملی تھیں۔  اس بار بھی اس کی سیٹوں کی تعداد اسی کے آس پاس رہنے کی امید ہے۔

اہم مقابلہ ٹی آر ایس اور کانگریس کی قیادت والی پرجاکٹمی کے بیچ میں ہے۔  آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین(ایم آئی ایم)کا ٹی آر ایس کے ساتھ سمجھوتہ ہے۔  سہ رخی اسمبلی کی حالت میں پارٹی’ کنگ میکر‘ کا کردار نبھا سکتی ہے۔بی جے پی اپنے محدود اثر کا بھی استعمال کر پانے کی حالت میں نہیں ہے، کیونکہ یہ ٹی آر ایس یا کانگریس میں سے کسی کے ساتھ اتحاد نہیں کر سکتی ہے۔  ویسے یہ ضرور ہے کہ ٹی آر ایس-مخالف ووٹ کا بٹوارا پرجاکٹمی کے لئے پریشانی پیدا کر سکتا ہے۔

شروعات میں ٹی آر ایس کی آسان جیت کی پیشن گوئی کی جا رہی تھی، لیکن اس کے برعکس اب وہاں تجزیہ کاروں کے ذریعے حکمراں جماعت اور حزب مخالف اتحاد کے درمیان کانٹے کا ٹکر بتایا جا رہا ہے۔  اس لئے 11 دسمبر کو چھوٹے-چھوٹے فرق سے جیت-ہار ہو سکتی ہے۔اگر بی جے پی اپنے ووٹ فیصد کو 7.1 فیصدسے بڑھانے میں کامیاب رہتی ہے، تو یہ اتحاد کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

لیکن یہاں اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ پچھلے انتخاب میں بی جے پی کے ووٹ فیصد سے پارٹی کی موجودہ مقبولیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔اس وقت پارٹی کا تیلگو دیشم پارٹی کے ساتھ اتحاد تھا، جس کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ اس کے ووٹ فیصد میں اضافہ ہوا ہو۔

اسٹارپرچارکوں کی فوج

لیکن اس کے باوجود پارٹی نے 7 دسمبر کے ریاستی انتخابات کو لےکر اپنے ہتھیار کھڑے نہیں کئے ہیں۔  پارٹی نے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت کئی اسٹار پرچارکوں کو تلنگانہ کے انتخابی تشہیر میں اتارنے کی تیاری کر رکھی ہے۔  مودی اور شاہ کے علاوہ اس فہرست میں کئی مرکزی وزیر، وزیراعلیٰ اور فلمی دنیا کی ہستیاں شامل ہیں۔ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ اپنی مہم میں بی جے پی ریاست کے انتخابی ڈسکورس کے حساب سے تبدیلی لائے‌گی جو کہ اہم طور پر فلاحی  اسکیموں کی عمل آوری پر مرکوز ہے۔

بی جے پی صدر امت شاہ کے ساتھ سوامی پریپورننند(فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

بی جے پی صدر امت شاہ کے ساتھ سوامی پریپورننند(فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہونے والے متنازعہ سوامی پریپورننند نے ایک کے بعد ایک کئی فرقہ وارانہ بیان دئے ہیں۔انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کانگریس ریاست میں’عیسیٰ مسیح کی حکومت کو لانا چاہتی ہے ‘اور ٹی آر ایس نظام  سلطنت کی تعریف کر رہے ہیں۔  اس لئے اکثریت ہندو کو حفاظت کی ضرورت ہے۔

پرجاکٹمی نے کئی مواقع پر سب کو حیرانی میں ڈالتے ہوئے بی جے پی اور ٹی آر ایس کے درمیان’خفیہ سمجھوتہ’کا دعویٰ کیا ہے۔  ہو سکتا ہے کہ شروع میں کے چندرشیکھر راؤ کے دل میں انتخاب کے بعد بی جے پی کے ساتھ اتحاد کا خیال رہا ہو، لیکن انہوں نے اس پلان  سے توبہ کر لیا ہے۔وہ بی جے پی اور کانگریس دونوں کی ہی جم کر تنقید کر رہے ہیں۔  حال ہی میں وہ یہاں تک کہہ گئے کہ مودی کو ایک’بیماری’ہے جس سے ‘فرقہ وارانہ پاگل پن‘ ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ راؤ نے مرکز میں علاقائی جماعتوں والے ایک’وفاقی مورچے ‘کا خیال بھی دیا ہے۔ انہوں نے اس سال اپریل میں یہ آئیڈیا دیا اور اس کے بعد سے وہ کئی بار اس کو دوہرا چکے ہیں۔اس مورچے کے متعلق وہ کتنے سنجیدہ ہیں، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے، لیکن کم سے کم فی الحال ٹی آر ایس کا بی جے پی کے ساتھ جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

دوسری طرف ٹی آر ایس کی ایم آئی ایم کے ساتھ قربت کو دیکھتے ہوئے بی جے پی بھی اس کے ساتھ گٹھ جوڑ نہیں کر سکتی۔  اگر وہ ٹی آر ایس کے ساتھ اتحاد کرتی ہے، تو اس کو اپنی کچھ مانگ چھوڑنی پڑ سکتی ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ 17 ستمبر کو ‘تلنگانہ مکتی دیوس‘کے طور پر نہ منایا جائے۔اس کے ساتھ ہی اس کو مسلمانوں کے لئے ریزرویشن بڑھانے والے بل کی مخالفت کرنا بھی بند کرنا پڑے‌گا۔  ان میں سے کسی بھی مسئلے پر راؤ کے جھکنے کا امکان کم ہے۔لیکن بھلےہی بی جے پی کا تلنگانہ انتخاب پر کوئی اثر پڑنے کا امکان کم ہے، یہ صاف ہے کہ پارٹی کا مقصد اپنے موجودہ انتخابی تشہیر کے سہارے ریاست میں اپنا مینڈیٹ بڑھانا ہے۔