دارالعلوم دیوبند کو دہشت گردی کا مرکز بتانے والے لوگوں کو ان کے اپنے ادارے بھونسلا ملٹری اسکول کی یاد دلانا ضروری ہے۔یہ وہ ادارہ ہے جہاں دہشت گردی کی ٹریننگ پاکر ابھینو بھارت جیسی تنظیم نے ہندوستان کی منتخب شدہ حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش کی تھی۔
محض تین دن کے وقفے سے سنگھ پریوار کے دو اہم لیڈروں نے ایک ہی جیسا بیان دیا ہے۔دونوں نے دارالعلوم دیوبند کو دہشت گردی کا مرکز بتایا ہے۔قابل ذکر ہے کہ یہ نیا شوشہ ایودھیا میں رام مندر کے نام پر ہندوؤں کی بھیڑ جمع نہ کرپانے کے چند دن بعد چھوڑا گیا ہے۔ پہلا بیان 28 نومبر کو مرکزی وزیر گری راج سنگھ کا آیا جس میں انہوں نے دارالعلوم دیوبند کو”دہشت گردی کا گڑھ”بتایا۔ اُن کے اس بیان کی پیروی کرتے ہوئےیکم دسمبر کو ان کے سنگھی ساتھی اور وشو ہندو پریشد کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سریندر جین نے بیان دیا کہ اگر دارالعلوم دیوبند نہیں ہوتا تو دہشت گردی بھی نہیں ہوتی۔
دونوں ہی بیانات شرارت سے پُر ہیں اور مسلمانوں کو نفسیاتی دباؤ میں رکھنے کی سازش۔ اردو اخبارات ان دنوں دونوں ہی بیانات پر رد عمل سے بھرے پڑے ہیں۔ ہر چھوٹا بڑا مسلم قائد دارالعلوم دیوبند کے دفاع میں بیان دے رہا ہے۔ علماء مدارس کے اوصاف گنوانے میں لگ گئے ہیں۔ جنگ آزادی میں اکابرین کی قربانیوں کا ورد ہو رہا ہے۔ دہشت گردی مخالف مہم میں دیوبند اور دیگر مدارس کی کوششوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ ملک کے تئیں مسلمانوں کی وفاداری کی قسمیں کھائی جارہی ہیں۔
یہ سب کرنے کی بجائےگری راج سنگھ، ڈاکٹر سریندر جین اور پورے سنگھ پریوار کو ان کے اپنے ایک ادارے کی یاد دلانی چاہیے جو واقعتاً دہشت گردی کا اڈہ بنا ہوا ہے۔ اس ادارے کا نام بھونسلا ملٹری اسکول ہے۔ یہ ادارہ 1937 میں اپنے قیام سے لے کر آج تک متنازعہ ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جہاں سے دہشت گردی کی ٹریننگ پاکر ابھینو بھارت جیسی تنظیم نے ملک بھر میں انتشار پھیلا کر، فوج کے موجودہ اور سبکدوش افسروں کو ملا کر اور غیر ملکی حکومتوں کا سہارا لے کر ہندوستان کی منتخب شدہ حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش کی تھی۔ بھونسلا ملٹری اسکول پہلے مہاراشٹر کے شہر ناسک میں قائم ہوا تھا اور1996 میں اس کی ایک شاخ ناگپور میں قائم ہوئی۔ اسے ڈاکٹر بال کرشن شیورام جی مونجے نے قائم کیا تھا جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے بنیاد گزاروں میں سے تھے اور اس تنظیم کے موسس کے۔ بی۔ ہیڈگیور کے سیاسی گرو بھی۔
ڈاکٹر مونجے یوروپی فاشسٹ مسولینی کے زبردست مداح تھے اور اپنا اسکول قائم کرنے سے پہلے انہوں نے اٹلی کا سفر کیا تھا۔ بھونسلا ملٹری اسکول “سینٹرل ہندو ملٹری ایجوکیشن سوسائٹی”کے تحت چلتا ہے جسے ڈاکٹر مونجے نے ہی 1935، یعنی اسکول شروع کرنے سے دو سال قبل، قائم کیا تھا۔ اسکول کا قیام انگریز حکمرانوں کی ایما پر ایسے وقت عمل میں آیا تھا جب تحریک آزادی اپنے شباب پر تھی۔ عام ہندوستانیوں نے انگریزوں کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔علماء ہند جن میں دارالعلوم دیوبند سے وابستہ علماء بھی شامل تھے کی جانب سے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری ہو چکا تھا۔ ہندوستانی تاریخ کے اس نازک موڑ پر اِس اسکول کا مقصد ہندو نوجوانوں کو فوجی تربیت دے کر انگریز حکومت کو فوجی افسر فراہم کرنا تھا۔ ان افسروں کا استعمال 1940 کی دہائی میں خاص طور پر سبھاش چندر بوس کے ذریعہ چھیڑی گئی تحریک حریت کو کچلنے کے لئے کیا گیا۔
اسکول کی ویب سائٹ پر فخریہ یہ تحریر ہے کے اس کی عمارت کا سنگ بنیاد اس وقت بمبئی ریاست کے انگریز گورنر سر راجر لملے نے رکھا تھا اور اس کا افتتاح گوالیار کے سابق مہاراجہ شری رام جیواجی راؤ سندیا نے کیا تھا۔ مصنف اور سیاسی مبصر سبھاش گاتاڈے کے مطابق ان مہاراجہ کا تعلق اُس خاندان سے تھا جس نے اٹھارہ سو سنتاون میں نہ صرف انگریزوں کا ساتھ دیا تھا بلکہ رانی لکشمی بائی کی شکست میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔
حالیہ برسوں میں آر ایس ایس کے اس ملٹری اسکول کا نام2008 کے مالیگاؤں، حیدرآباد کی مکہ مسجد اور اجمیر دھماکوں کے واقعات کے بعد سامنے آیا۔ ان واقعات کو انجام دینے والے کلیدی ملزمین لیفٹننٹ کرنل سریکانت پرساد پروہت و دیگر کے بارے میں یہ عقدہ کھلا کہ انہوں نے اسی اسکول میں ہندتوا دہشت گردوں کو ٹریننگ دی تھی۔ یہ اسکول اپریل 2006 کے نانڈیڑ دھماکہ میں بھی ملوث پایا گیا۔ تہلکہ نیوز میگزین نے 30 دسمبر 2006کے شمارے میں لکھا ہے کہ جن دو ملزمین ہمانشو پانسے اور ماروتی واگھ کا نارکو ٹیسٹ کیا گیا انہوں نے بتایا کہ انھیں بھونسلا ملٹری اسکول میں 40 دن تک خصوصی فوجی تربیت دی گئی جس میں آئی ای ڈی (امپرووائیزڈ ایکسپلوسو ڈیوائس) یعنی دھماکہ خیز مواد کا استعمال شامل تھا۔ اس ٹریننگ کے بعد ان لوگوں نے 2003 میں پونے میں اور پربھنی کی غوثیہ مسجد میں دھماکے کئے۔
2001 میں دی گئی اس تربیت کا تفصیلی بیان مہاراشٹرا کے سابق ڈائریکٹر جنرل ایس ایم مشرف کی کتاب “کرکرے کا قاتل کون؟”میں موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں؛
بھونسلا ملٹری اسکول میں 40 دن تک چلے اس ٹریننگ کیمپ میں ملک بھر سے آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے 115 کارکنان شامل ہوئے۔ انہیں اسلحوں کے استعمال اور بم بنانے اور دھماکہ کرنے کی تربیت دی گئی۔ جن لوگوں نے ٹریننگ دی ان میں فوج کے موجودہ اور سبکدوش افسران نیز انٹلیجنس بیورو کے سینئر افسران شامل تھے۔
ابھینو بھارت اور سنگھ پریوار کی دیگر تنظیموں کے کارکنان کی حرکتوں کے بعد ہی ملک میں پہلی بار ہندو دہشت گردی کا راز فاش ہوا اور لال کرشن اڈوانی جیسوں کا منھ بند ہوا جو یہ کہتے پھرتے تھے کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں مگر ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے۔ کرنل پروہت، پرگیہ سنگھ ٹھاکر، اسیمانند وغیرہ پر اب تک مقدمہ چل رہا ہے۔2014میں بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ان کے خلاف مقدمے کو ہلکا کرنے کی کوششوں کے باوجود الزامات اتنے سنگین ہیں کہ مقدمہ واپس لینا ممکن نہیں ہو پا رہا ہے۔2014 میں ایک جج نے اپنے کو اس مقدمے سے یہ کہہ کر الگ کر لیا تھا کہ اس پر غیر ضروری دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔
مگر قابل غور امر یہ ہے کہ بھونسلا ملٹری اسکول کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس اسکول کے فارغین جو کہ “رام ڈنڈی” کہلاتے ہیں ایک بڑی تعداد میں انڈین آرمی، نیوی اور ایئر فورس میں شامل ہیں۔ اسکول کی ویب سائٹ پر چند معروف رام ڈنڈیوں کے نام درج ہیں جو فوج، بحریہ اور فضائیہ کے اعلیٰ عہدوں سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ ان میں تین لیفٹننٹ جنرل، ایک ایئر مارشل، ایک بریگیڈیئر اور کئی کرنلس کے نام موجود ہیں۔ انگریزوں کے ساتھ تعاون کرنے اور دہشت گردی کے واقعات میں براہ راست ملوث ہونے والے اس اسکول کے برعکس دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس کے علماء نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ جنگ آزادی میں مدارس سے وابستہ افراد نے جان و مال کی قربانیاں دیں۔ اس کے باوجود دارالعلوم کو دہشت گردی کا اڈہ بتایا جا رہا ہے۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی اس سے بہتر مثال شاید کوئی اور نہیں ہوسکتی۔
Categories: فکر و نظر