گراؤنڈ رپورٹ : راجستھان کی آبادی میں تقریباً55 لاکھ لوگ خانہ بدوش کمیونٹی سے آتے ہیں لیکن بی جے پی اور کانگریس کے پاس ان کو لےکر نہ کوئی پالیسی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی نیت۔
شریڈونگرگڑھ/بیکانیر: اسٹیل کا ایک ٹفن کھولکر 45 سال کی چاولی دیوی چار کلپ نکالتی ہیں۔ ان کلپس میں حال ہی میں فیملی میں پیدا ہوئے بچوں کی نال بندھی ہیں۔ ایک چھوٹی سی سلور کی ڈبی بھی کھولتی ہیں اور جڑولی(بچوں کے بال، جو کل دیوی کو چڑھائے جاتے ہیں)دکھاتی ہیں۔ اس کے بعد تمام اہل خانہ کے پاسپورٹ سائز فوٹو ایک ایک کرکے چارپائی پر سجا دیتی ہیں۔چاولی دیوی کی جانکاری میں ان کی پہچانکے دستاویزیہی نال اور جڑولی ہیں۔ اپنے شوہر اور خود کے بچوں کے بال اور نال بھی کچھ وقت پہلے تک سنبھالکر رکھے تھے، لیکن سڑک کنارے ایک درخت کے نیچے گھر ہونے کی وجہ سے تاعمر سنبھالکر نہیں رکھ پائیں۔
چاولی دیوی ساٹھیا خانہ بدوش کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ خود کے پاس نہ تو ووٹر آئی ڈی ہے اور نہ ہی پہچان کا کوئی دوسرا دستاویز۔ کہتی ہیں،’میرے پاس تو کچھ نہیں ہے، شوہر کا بھی صرف آدھار کارڈ اور ووٹر آئی ڈی کارڈ ہے۔ ‘چاولی دیوی اور ان کی کمیونٹی کی پانچ فیملی بیکانیر ضلع کے شریڈونگرگڑھ میں پچھلے پانچ سال سے اسی طرح ببول کے ایک درخت کے نیچے رہ رہی ہیں۔ ان پانچ فیملی میں 20 بچے ہیں جن کا پیٹ یہ عورتیں بھیک مانگکر بھرتی ہیں۔
چاولی دیوی جیسے لاکھوں لوگ راجستھان میں ہیں جو خانہ بدوش کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اندازہ کے مطابق راجستھان کی آبادی کا تقریبا 8 فیصدیعنی تقریباً55 لاکھ لوگ خانہ بدوش کمیونٹی سے آتے ہیں۔ اندازہ اسی لئے کیونکہ راجستھان حکومت نے کبھی کوئی رپورٹ پبلک میں نہیں رکھی جس سے خانہ بدوشوں کی 32 ذاتوں کی تعداد کا پتہ چل سکے۔ان کی حالت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست کی حکومت یہ تک نہیں جانتی کہ ان کی خالص آبادی کتنی ہے؟ پھر بی جے پی-کانگریس کےمنشور میں چند لائنوں میں سمیٹ دئے گئے ان لاکھوں لوگوں کے ساتھ انصاف کیسے ہوگا؟
دونوں پارٹیوں کے منشور میں خانہ بدوشوں کے لئے کیا ہے؟
بھارتیہ جنتا پارٹی نے خانہ بدوشوں کے لئے بجٹ میں اضافہ کرنے اور خانہ بدوش بورڈ بنانے کا وعدہ کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ راجستھان میں پچھلی گہلوت حکومت نے بورڈ بنایا تھا اور 50 لاکھ روپے کا بجٹ بھی پاس کیا تھا۔بی جے پی کی وسندھرا حکومت نے اپنی مدت کار میں اس بورڈ کے لئے ایک روپے بھی جاری نہیں کئے۔ وسندھرا راجے نے بنا بجٹ دیے ہی جگمال سانسی کو بورڈ کا صدر بنایا جن کی 2017 میں ایک سڑک حادثے میں موت ہو گئی۔
بی جے پی نے اپنے منشور میں رہائش کے لئے زمین دینے اور ریاعتی شرح پر زمین کے پٹہ دینے کی بھی بات کہی ہے، لیکن شریڈونگرگڑھ میں سڑک کنارے رہنے والے پرکاش ساٹھیا کہتے ہیں،’30 سال پہلے حکومت نے40X40کا ایک پلاٹ دیا تھا، لیکن آج تک کوئی پٹہ نہیں ملا۔ زمین کا کوئی کاغذ بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ ہم کیسے ثابت کریں کہ ہمیں زمین ملی تھی؟ ‘پرکاش فی الحال جانوروں کے کھر کاٹنے اور ان کو صاف کرنے کا پشتینی کام کرتے ہیں۔ روزگار نہیں ہونے کی وجہ سے اب کئی خانہ بدوش کمیونٹی مجرمانہ اور غیر قانونی کاموں میں ملوث ہو گئی ہیں۔
بی جے پی نے اپنے منشور میں رہائشی اسکول کھولنے، پہچانکے دستاویز بنانے اور ان کے تبا ہ ہوتے آرٹ کو تحفظ دینے کی بھی بات کہی ہے، لیکن یہ وعدے ہوائی زیادہ لگتے ہیں کیونکہ جب تک خانہ بدوشوں کی تعداد اور ان کی اقتصادی-سماجی حالت پر کوئی حقیقت ہی نہیں ہوگی تو ان کے لئے چلائی اسکیموں کا فائدہ ان تک کیسے پہنچےگا؟
وہیں، کانگریس نے اپنے منشور میں خانہ بدوشوں کے لئے صرف ایک لائن دی ہے۔ کہا ہے، خانہ بدوشوں کو اہلیت کی بنیاد پر بی پی ایل میں جوڑیںگے اور مفت پٹہ دیا جائےگا۔ مگر یہ وعدہ بھی سچ کم ہوائی زیادہ لگتا ہے کیونکہ راجستھان میں ہزاروں خانہ بدوش چراگاہوں اور سرکاری زمینوں پر بسے ہوئے ہیں، ایسے میں یہ کوئی واضح وعدہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کو پٹہ کس طرح دیے جائیںگے؟ پچھلی دونوں حکومتوں میں ان کے پٹہ دینے کے حکم منظور ہوئے تھے، لیکن اصولوں میں دھندلاپن ہونے کی وجہ سے تقریباً تمام خانہ بدوش بنا پٹہ کے ہی رہ رہے ہیں۔
کانگریس اور بی جے پی کے منشور پر خانہ بدوشوں کے درمیان پچھلے 14 سال سے کام کر رہے سماجی کارکن پارس بنجارہ کہتے ہیں،’یہ ہمیں بیوقوف بنانے والی باتیں ہیں۔ بی جے پی کہتی ہے، خانہ بدوشوں کو ریاعتی شرح پر زمین کے پٹہ دےگی۔ اگر خانہ بدوشوں کے پاس زمین خریدنے کے پیسے ہوتے تو کب کے یہ لوگ کہیں بس چکے ہوتے۔ ہم نے خانہ بدوشوں کے فائدے کے لئے Special Component Plan(ایس سی پی) کی مانگ کی تھی لیکن دونوں پارٹیوں نے اس پر کوئی بات نہیں کی ہے۔ ‘
پارس آگے کہتے ہیں،’راجستھان میں متوقع کل آبادی کا 8 فیصدخانہ بدوش ہیں۔ پورے طبقے کو کہیں سیاسی نمائندگی نہیں ہے اگر ان کا کوئی رہنما ہی نہیں ہوگا تو ان کے مسائل کو کون اٹھائےگا؟ خانہ بدوشوں کے لئے ایک مستقل خانہ بدوش کمیشن بنانے کی مانگ تھی، لیکن اس پر بھی دونوں پارٹیاں خاموش ہیں۔ ‘
اسی طرح خانہ بدوشوں کے آرٹ کے تحفظ کے لئے خانہ بدوش ثقافتی اکادمی کی مانگ بھی تھی تاکہ ان کی وراثت محفوظ کئے جا سکیں۔سماجی کارکن نکھل ڈے بتاتے ہیں،’ خانہ بدوشوں کے پاس شمشان کی زمین تک نہیں ہے۔ راجستھان سمیت پورے ملک میں آندھر پردیش اور کیرل حکومت کی طرز پر ہوم اسٹیٹ ایکٹ بنایا جائے۔ جس سے ان کی رہائش گاہ اور پشوباڑے کے لئے زمین مل سکے۔ ہوم اسٹیٹ ایکٹ میں اگر حکومت کے پاس زمین نہیں ہوتی تو حکومت بےگھروں کے لئے زمین خریدکر دیتی ہے۔ ‘
بی جے پی نے بورڈ بنانے کا جھوٹا وعدہ کیوں کیا ہے جبکہ بورڈ پہلے سے ہی بنا ہے؟
بھارتیہ جنتا پارٹی خانہ بدوش سیل کے صدر ہیرالال جوگی کہتے ہیں،’ملک کی آزادی کے بعد پہلی بار خانہ بدوشوں کے بارے میں کسی نے سوچا ہے۔ ہاں، بورڈ پہلے سے بنا ہوا ہے، اب ہماری پارٹی اپنے حساب سے بورڈ بنانا چاہ رہی ہے۔ ہم اپنا ایجنڈہ بنا رہے تھے تبھی ہمارے بورڈ کے چیئر مین کی موت ہو گئی اور ہمارا بورڈ کام نہیں کر سکا۔ اب ہم سیل کے ذریعے خانہ بدوشوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ بنائیںگے۔ قومی خانہ بدوش-نیم خانہ بدوش کمیشن کی رپورٹ کو نافذ کرنے کی مانگ مرکزی حکومت کو پہنچا دی ہے۔ ‘
وہیں، کانگریس کی مدت کار میں خانہ بدوش بورڈ کے صدر رہے گوپال کیشاوت(جو فی الحال عام آدمی پارٹی کے ٹکٹ پر شاہ پورا سے انتخاب لڑ رہے ہیں)کہتے ہیں،’ کانگریس اور بی جے پی خانہ بدوشوں کے نام پر صرف سیاست کر رہی ہے۔ یہ لوگ کچھ نہیں کرنے والے۔ دونوں پارٹیاں ابھی تک پٹہ اور بی پی ایل سے باہر ہی نہیں نکلی ہیں۔ جبکہ ان کو تعلیم اور صحت کی ضرورت ہے۔ ‘
جون 2008 میں آئی رینکے کمیشن کی رپورٹ کو بنانے والے بال کرشن رینکے کہتے ہیں،’ منشور میں کیا ہے یہ کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک ان لوگوں کو گھر، تعلیم، پٹہ، صحت کا انتظام نہ ہو۔ حکومت نے بھیک مانگنے اور وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ میں جانوروں کو نچانا غیر قانونی تو کیا لیکن جن خانہ بدوش کا ذریعہ معاش ہی ان سے چلتا تھا حکومت نے ان کی بازآبادکاری ہی نہیں کی۔ ‘
رپورٹ کو پارلیامنٹ میں10 سال بعد بھی نہیں رکھنے پر رینکے کہتے ہیں،’اس جمہوریت میں طاقت ور کی چلتی ہے۔ جو منظم اور بیدار ہیں ان کے سامنے جمہوریت ناچتی ہے۔ خانہ بدوش ابھی بیدار اور منظم نہیں ہیں اسی لئے ان کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دے رہا جبکہ ملک کی کل آبادی کا 10 فیصدآبادی خانہ بدوشوں کی ہے۔ ریاستی حکومتیں بورڈ بناتی ہیں، لیکن ان کو بجٹ نہیں دیتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومتیں ان کی تعداد تک بھی نہیں جانتیں۔ کارپوریٹ کو زمین دینے کے لئے زمین-حصول قانون حکومت لے آتی ہیں، لیکن خانہ بدوشوں کے لئے پٹہ نہیں دیتے۔ ‘
حفاظت کا کوئی وعدہ نہیں
بی جے پی-کانگریس کے منشور میں خانہ بدوشوں کی حفاظت کے سوال پر بھی کچھ نہیں ہے۔ حفاظت اسی لئے کہ خانہ بدوشوں کا بنجارا اور گاڑیا لوہار جیسی ذاتیں جانور میلوں سے زراعت لائق بیل خریدکر کسانوں کو بیچتے ہیں، لیکن بی جے پی حکومت میں گئورکشا کے نام پر ہوئے تشدد سے اب یہ کام متاثر ہوا ہے۔ راجستھان میں ان پر جانور اسمگلنگ کے سینکڑوں جھوٹے معاملے درج ہوئے ہیں۔ وہیں، بھیلواڑا ضلع کے شاہ پورا بلاک میں 2014 میں ڈھیکولا میں رہنے والے بنجاروں کے 42 گھر جلا دئے گئے تھے۔
کون ہیں خانہ بدوش
ذریعہ معاش کی تلاش میں ایک مقام سے دوسرے مقام پر گھومنے والے کمیونٹی خانہ بدوش ہیں۔ راجستھان حکومت کے مطابق بنجارا، کالبیلیا، ریباری، سانسی، کنجر، گاڑیا لوہار، ساٹھیا ذاتوں سمیت کل 32 خانہ بدوش ذاتیں ہیں۔بھیکھورام ایداتے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں خانہ بدوش ذاتیں 666 ہیں۔ سامال ڈھونے والے،جانور پالنےوالےیا شکاری، مذہبی کھیل دکھانے والے اور تفریح کرنے والے لوگ ان میں بنیادی طور پر آتے ہیں۔رینکے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، ملک بھر میں 98 فیصد خانہ بدوش بنا زمین کے رہتے ہیں،57 فیصدی جھونپڑی میں اور 72 فیصدلوگوں کے پاس اپنی پہچانکے دستاویز تک نہیں ہیں۔ 94 فیصدخانہ بدوش بی پی ایل زمرہ میں نہیں ہیں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: گراؤنڈ رپورٹ