فکر و نظر

اے ایف ایس پی اے فوج کو من مانی کرنے کا حق نہیں دیتا

اے ایف ایس پی اے فوجیوں کو امن کے لئے خطرہ مانے جانے والوں پر گولی چلانے کی آزادی دیتا ہے،لیکن یہ ان کو فرضی انکاؤنٹریا دوسرے طرح کے ظلم کرنے کا حق فراہم نہیں کرتا۔

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

ہندوستان کی سپریم کورٹ نے فوج کے 350 جوانوں کے ذریعے ان کے خلاف منی پور، کشمیر اور کچھ دوسری  ریاستوں میں فرضی’انکاؤنٹر’میں غَيرقانونی قتل کے معاملوں میں دائر ایف آئی آر کو رد  کرنے کی عرضی کو خارج کر دیا ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا کہ  قانون کی حکومت، شہری آزادی اور انسانی حقوق کی حمایت کرنے والے ہر آدمی کے ذریعے استقبال کیا جانا چاہیے۔یہ مبینہ غير قانونی قتل جن ریاستوں میں ہوئے، ان کو مسلح فوج(خصوصی طاقتیں)ایکٹ،1958(اے ایف ایس پی اے) کے تحت ‘disturbed areas’اعلان کیا گیا تھا۔

اس ایکٹ کو ایک عارضی تدبیر کے طور پر لایا گیا تھا، لیکن جیسا کسی نے تبصرہ کیا تھا، اگر 60 سال کے بعد بھی ایک’عارضی’ایکٹ وجود میں ہے، تو اس بات کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے کہ ایک مستقل ایکٹ کیسا ہوتا؟اے ایف ایس پی اےفوج کے جوانوں کو امن کے لئے خطرہ مانے جانے والے لوگوں پر گولی چلانے کے معاملے میں حفاظتی شیلڈمہیا کرتا ہے۔لیکن یہ یقیناً فرضی انکاؤنٹریا دوسری طرح کے ظلم کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔سپریم کورٹ میں1979 سے 2012 تک منی پور میں فوج اور پولیس کے جوانوں کے ذریعے 1528غیرقانونی قتل معاملوں  کا ذکر کرتے ہوئے ایک عرضی- Extra Judicial Execution Victims Family Association and Human Rights Alert vs Union of India-دائر کی گئی تھی۔

اس میں گزارش کی گئی تھی کہ ان کی جانچ سی بی آئی ذریعے کرائی جائے۔  کورٹ نے ریٹائر جج سنتوش ہیگڑے کی صدارت میں ان میں سے کچھ شکایتوں کی جانچ کے لئے ایک کمیٹی کی تشکیل کی۔  اس کمیٹی کے ایک ممبر جے ایم لنگدوہ بھی تھے۔اس کمیٹی نے ان میں سے کئی معاملوں کو پہلی نظر میں درست پایا۔نتیجتاً کورٹ نے فوج اور پولیس کے کئی جوانوں کے خلاف ایف آئی آر دائر کرنے اور ان کے خلاف سی بی آئی تفتیش کا حکم دیا۔اس حکم کے بعد ہی فرضی انکاؤنٹرکے ملزم فوج، نیم فوجی دستہ اور پولیس کے جوانوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔


یہ بھی پڑھیں :منی پور انکاؤنٹر:فوجی جوانوں کے ’استحصال‘ کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی تشویش ناک کیوں ہے؟


میری رائے میں اس عرضی کو خارج کرکے کورٹ نے صحیح فیصلہ لیا ہے۔  فوج کے جوانوں کو یہ ضرورمعلوم ہونا چاہیے کہ وہ قانون سے اوپر نہیں ہیں اور جب تک ہمارے یہاں آرٹیکل 21 کے تحت جان اور جسمانی آزادی کے حق سمیت دوسرے اصل حقوق کی گارنٹی لینے والا ایک آئین ہے، تب تک ان کو کچھ بھی کرنے کی چھوٹ نہیں ملی ہے۔1945 میں دوسری جنگ عظیم کے بعد نیوریمبرگ مقدمہ میں فیلڈ مارشن کیٹیل اور جنرل جاڈل سمیت دیگر نازی جنگی مجرموں نے اپنی حمایت میں’حکم تو حکم ہوتے ہیں ‘ [orders are orders] کی دلیل سامنے رکھی، لیکن ان کی عرضی کو ٹھکرا دیا گیا اور کئی مجرموں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔

یہ پایا گیا کہ کیٹیل اور جاڈل نے جنگ کے دوران ظلم کرنے کے کئی احکام پر دستخط کئے تھے، جو جنگی قوانین کے خلاف تھا۔  انہوں نے یہ دلیل دی کہ انہوں نے ایسا اپنے سینئر ایڈولف ہٹلر کی ہدایتوں پر کیا۔  لیکن عالمی ٹریبونل نے کہا کہ کسی دوسرے کے غیر-قانونی احکام پر کام کرنا کسی کو جرم سےآزاد نہیں کرتا۔نازی جرمنی اور ہٹلر کے لوگوں کے ذریعے کئے گئے ظلم وستم  کا مقابلہ اس سے پہلے یا اس کے بعد کی کسی چیز سے نہیں کیا جا سکتا ہے، لیکن’نیوریمبرگ اصول ‘دنیا بھر میں سیکورٹی فورس کے رویے کو پرکھنے کی کسوٹی بن گیا ہے۔

اس معاملے میں فیصلہ دینے والی بنچ کے صدر جسٹس مدن بی لوکر اگلے مہینے سبکدوش ہو رہے ہیں۔  ہندوستان کی عدالتی تاریخ میں ان کو ہمیشہ آزادی کی حفاظت کرنے والے جج کے طور پر یاد کیا جائے‌گا-مثال کے لئے داتارام سنگھ بنام اتر پردیش معاملے میں دیا گیا ان کا فیصلہ، جہاں انہوں نے جسٹس کرشنن ایّر کے ذریعے راجستھان حکومت بنام بالچند معاملے میں دئے قائم اصولوں کو پھر دوہرایا کہ جیل کی جگہ بیل عام اصول ہے۔یہ ان ججوں سے پوری طرح سے الٹا ہے، جنہوں نے ابھجیت ایّر مترا کی ضمانت عرضی کو خارج کیا، جن کا واحد’جرم ‘ایک طنزیہ ٹوئٹ کرنا تھا (جس کے لئے انہوں نے فوراً معافی مانگ لی تھی)۔  وہ آج بھی جیل میں سڑ رہے ہیں۔

(مضمون نگار سپریم کورٹ کے سابق جج ہیں ۔نوٹ :اس مضمون کے لکھے جانے کے وقت  ابھجیت ایّر متراجیل میں تھے ۔بعد میں ان  کو 40 دن جیل میں رہنے کے بعد اڑیسہ حکومت کے ذریعے معافی مل گئی تھی۔)