ان نتائج سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر ان تین ریاستوں میں اپوزیشن متحد ہو کر لڑتی تو بی جے پی کو اس ے زیادہ بڑی ہار کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔خصوصاً مدھیہ پردیش میں جہاں شیوراج سنگھ چوہان کوبے دخل کرنے میں کانگریس کو مشقت کرنی پڑی ۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے اچھے دن آگئےہیں ۔چھتیس گڑھ،مدھیہ پردیش اورراجستھان میں کانگریس نے بی جے پی کو جس انداز میں شکست دی اُس سے کسی حد تک یہ تصویر واضح ہوگئی کہ آنے والے ہندوستان کا مستقبل کیا ہو سکتاہے۔پانچ ریاستوں کےنتائج کے ساتھ ہی مرکز میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی)کو تین ریاستوں میں زبر دست شکست کا سامنا کرناپڑا۔
گوکہ پولنگ پانچ ریاستوں کی بہ حیثیت مجموعی 678نشستوں پرہوئی تاہم مدھیہ پردیش ،چھتیس گڑھ اور راجستھان میں چونکہ بی جے پی اقتدارمیں تھی،اس لئے ان صوبوں سے بھارتیہ جنتاپارٹی کی بے دخلی اور کانگریس کا یہاں اقتدار پر قبضہ مودی و شاہ کی جوڑی کے ہوش اُڑانے کیلئے کافی ہے۔ان متذکرہ ریاستوں کے نتائج کو ان معنوں میں خوش آئند کہا جاسکتا ہے کہ عام انتخابات سے ٹھیک پہلے ایک طرح کی تبدیلی صاف طورپرمحسوس کی جانے لگی ہے۔
ان نتائج سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر ان تین ریاستوں میں اپوزیشن متحد ہو کر لڑتی تو بی جے پی کو اس ے زیادہ بڑی ہار کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔خصوصاً مدھیہ پردیش میں جہاں شیوراج سنگھ چوہان کوبے دخل کرنے میں کانگریس کو مشقت کرنی پڑی ۔ جس انداز میں بی جے پی کوچھتیس گڑھ میں ہار کا سامنا کرناپڑا،اُس سے کہیں زیادہ خطرناک مدھیہ پردیش کے نتیجے ہو سکتے تھے۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے مدھیہ پردیش کی230 سیٹوں کے الیکشن میں سیاسی جماعتوں کو حاصل ہونے والے ووٹ فیصد پر نگاہ کرنا ضروری ہے۔
الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے لحاظ سے مدھیہ پردیش کی 230 سیٹوں کے الیکشن میں بہوجن سماج پارٹی نے بہ حیثیت مجموعی پانچ فیصدووٹ حاصل کئے۔حالانکہ بہوجن سماج پارٹی کااس ریاست سے صرف 2امیدوار ہی کامیاب ہوسکا۔اسی طرح سماجوادی پارٹی نے مجموعی طور پر1.3 فیصد ووٹ حاصل کیا ۔حالانکہ سماجوادی پارٹی یہاں صرف ایک نشست پر ہی کامیاب ہوسکی۔اسی طرح عام آدمی پارٹی نے اس صوبہ میں0.7فیصد ووٹ اپنے نام کیا،باوجودیکہ اس کا کوئی ایک امیدوار بھی کامیابی حاصل نہ کرسکا۔
خلاصہ یہ کہ اگربی ایس پی کا5فیصد،ایس پی کا1.3فیصداور آپ کا0.7فیصد ووٹ مجتمع ہوکر کانگریس کے ‘ہاتھ’ کو مضبوط کرنے کا سبب بن گیا ہوتاتو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کی سیاسی تصویر کیسی ہوتی ۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان کے باوجود کانگریس کومدھیہ پردیش کے40.9فیصد لوگوں کا ووٹ مل جانا ایک بڑی بات ہے۔حالاں کہ مدھیہ پردیش کے41فیصد رائے دہندگان نے بھارتیہ جنتاپارٹی کے حق میں ووٹ ڈالا۔ ووٹنگ فیصدکو دیکھ کر یہ سمجھاجاسکتا ہے کہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی جڑ کتنی مضبوط ہے۔
مدھیہ پردیش کو کئی سیاسی مبصرین گجرات کے بعد ‘ہندوتوا’ کا دوسرا سب سے بڑا تجربہ گاہ کہتے رہے ہیں،ایسے میں سماج کے کمزور طبقات کی شدید ناراضگی اور کسانوں کی بدحالی کے باوجود ریاست کے41فیصد رائے دہندگان کا شیو راج حکومت پر اعتماد ظاہر کرنا کچھ اشارے ضرور فراہم کرتا ہے۔چھتیس گڑھ کا الیکشن کانگریس کے لیے ایک بڑی جیت اس طرح ہے کہ یہاں بی جے پی کو نمایاں طور پرشکست کا سامنا کرنا پڑا۔90حلقوں کے لیے ہونے والے اس الیکشن میں حکمراں جماعت کو15سیٹ ملنا اور کانگریس کو 68سیٹ ملناکہیں نہ کہیں دکھاتا ہے کہ عوام بی جے پی سے اوبنے لگی ہے۔
چھتیس گڑھ میں کانگریس کا ووٹنگ فیصد بھی بی جے پی کے مقابلہ میں خاصا بہتر رہا،جہاں کانگریس نے43فیصد ووٹ حاصل کیے وہیں بی جے پی نے مجموعی طور پر33فیصدووٹ حاصل کیے۔حالانکہ یہاں بی ایس پی اوراجیت جوگی کی پارٹی بھی میدان میں تھی اور ان دونوں نے مل کرمجموعی لحاظ سے11فیصد سے زیادہ ووٹ اپنے حق میں کرلیا پھر بھی کانگریس یہاں اپنی طاقت دکھانے میں کامیاب رہی۔اب اگرراجستھان کی بات کریں توریاست کے199حلقوں میں ہونے والے الیکشن میں یوں تو کانگریس نے اکیلے 99نشستیں حاصل کیں جبکہ بی جے پی 73 سیٹوں پر سمٹ گئی لیکن یہاں بھی بہوجن سماج پارٹی 6نشستوں پر کامیابی کے ساتھ مجموعی طورپر 4فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
ووٹنگ فیصد کے لحاظ سے راجستھان میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان فاصلہ زیادہ نہیں ہے۔کانگریس نے مجموعی طورپر39.3فیصد ووٹ حاصل کئے،جبکہ بی جے پی کویہاں38.8 فیصد ووٹ ملے۔اس طرح ووٹ کایہ تناسب واضح طورپریہ بتارہاہے کہ جیت بھلے ہی کانگریس کی ہوئی ،لیکن مقابلہ آسان نہیں رہا۔تلنگانہ کے 119حلقہ ہائے انتخاب کے نتائج ٹی آرایس کے حق میں نہ صرف یہ کہ حوصلہ افزارہے بلکہ’سیکولرزم بنام فرقہ پرستی’ کی جنگ میں سیکولرزم کے علم برداروں کی بڑی جیت ثابت ہوئی۔
ٹی آرایس نے شاندار طریقے سے واپسی ہی درج نہیں کرائی بلکہ اہم بات یہ بھی ہے کہ ریاست میں بی جے پی کاایک طرح سے ناطقہ ہی بندہوگیا۔بی جے پی 119سیٹوں والی اسمبلی میں سے صرف ایک سیٹ پرجیت درج کرسکی۔گویا بہت واضح طور پر بی جے پی کو تلنگانہ میں قبول ہی نہیں کیا گیا۔حالاں کہ یہ بھی ایک سوال ہے کہ آخر تلنگانہ میں کانگریس اور تیلگودیشم پارٹی کااتحاد کیوں بے اثر رہا۔
نارتھ ایسٹ کی ریاست میزورم میں علاقائی جماعت کی شاندار کامیابی اور کانگریس کی اقتدار سے بے دخلی کو’تبدیلی اقتدار’ کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔یہاں کانگریس کو اقتدار مخالف لہر کا سامناکرناپڑ گیا اوریوں میزونیشنل فرنٹ پریہاں کے رائے عامہ نے زیادہ اعتما دکیا۔نتیجہ کے طور پر 40رکنی اسمبلی میں کانگریس 5سیٹیں بچانے میں ہی کامیاب ہو سکی جب کہ 26نشستوں پر مقامی فرنٹ نے کامیابی درج کی۔ یہاں بھی بی جے پی کی حالت اچھی نہیں رہی بہ مشکل تمام اس کو ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔
مجموعی طور پر کانگریس نے 3اہم ریاستوں کو اپنے قبضے میں لیا۔ حالانکہ میزورم اس کے ہاتھ سے نکل گئی۔ کانگریس کے برعکس بی جے پی کو اس الیکشن میں کیا ملاتو3اہم ریاستیں اس کے ہاتھ سے نکل گئیں باقی 2ریاستوں میں اس کوصرف ایک ایک سیٹ پر کامیابی ملی۔
Categories: فکر و نظر