گزشتہ 25 سالوں میں پہلی بار ہوگا کہ راجستھان اسمبلی میں بی جے پی کا کوئی مسلم ایم ایل اے نہیں ہے۔ وسندھرا راجے حکومت میں وزیر یونس خان جن کو ٹونک سے ٹکٹ دیا گیا وہ بھی کانگریس کے سچن پائلٹ سے ہار گئے ہیں۔
چار ریاستوں کے حالیہ اسمبلی انتخابات نے بہت کچھ صاف کر دیاہے۔نئی بحث اورنئے سیاسی فارمولے کی بات ہونے لگی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جےپی)اور وزیر اعظم نریندر مودی کے اوپر ناقابل شکست ہونے کا تمغہ ہٹ گیا۔اس انتخاب کے نتائج سے بات اگلےسال کے لوک سبھا انتخاب کی بھی ہونے لگی۔ کیا غیر بی جے پی اتحاد ممکن ہے؟ سیاسی باتوں کے علاوہ بات مسلمان اور انتخابی مدعوں پر بھی ہونے لگی ہے۔ کیا ہندوتوا، گائے، رام مندر مدعا بنےگا؟ملک میں مسلمان جو سیاسی طور پرحاشیے پر چلے گئے ہیں ان کی واپسی ہوگی؟ایک اہم سوال یہ ہے کہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ ریاستوں میں ان کی نمائندگی میں کتنا اضافہ ہوایا اس میں کمی آئی ؟
راجستھان : پچھلے اسمبلی میں کل 2 مسلمان ایم ایل اے تھے ،دونوں بی جے پی سے تھے۔ اس بار 8 مسلمان جیتے ہیں۔ جس میں کانگریس سے 7 اور ایک بہوجن سماج پارٹی سے ہیں۔ غور طلب ہے کہ گزشتہ 25 سالوں میں پہلی بار ہوگا کہ راجستھان اسمبلی میں بی جے پی کا کوئی مسلم ایم ایل اے نہیں ہے۔ وسندھرا راجے حکومت میں وزیر یونس خان جن کو ٹونک سے ٹکٹ دیا گیا وہ بھی کانگریس کے سچن پائلٹ سے ہار گئے ہیں۔ کانگریس نے 15 مسلمان امیدوار کھڑے کئے جس میں سے 7 نے جیت درج کی۔
راجستھان میں اگر پچھلے کچھ انتخاب پر نظر ڈالیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کا ایک مسلمان ایم ایل اے 1998،2003 میں تھا اور اس کے 2 مسلمان ایم ایل اے 2008 اور 2013 میں تھے۔ ویسے راجستھان 1993 میں 4، 1998 میں 12، 2003 میں 4 اور 2008 میں 10 مسلمان جیتے تھے۔ 2013 میں کانگریس کے 16 مسلمان امیدوار تھے لیکن کسی نے جیت درج نہیں کی تھی۔چند قابل ذکر مسلمان ایم ایل اے جو اس بار جیتے ہیں ان میں زاہدہ خان ہیں جو کامن اسمبلی سیٹ سے انتخاب لڑ رہی تھیں ان کو ایک لاکھ 10 ہزار 789 ووٹ ملےوہیں پوکھرن سیٹ پر غازی فقیر کے بیٹے صالح محمد جیتے۔
چھتیس گڑھ:اس ریاست میں اس بار پھر اکلوتا مسلم ایم ایل اے کانگریس کے اکبر بھائی ہیں۔انہوں نے کوردھا سیٹ سے 59284 ووٹ سے جیت درج کی ۔ اکبر بھائی پہلے بھی کئی بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ دوسرے مسلم امیدوار کانگریس کے بدرالدین قریشی 18080 ووٹ سے ویشالی نگر سے ہار گئے ۔ چھتیس گڑھ میں ویسے ہی مسلمان کم ہیں جو شہروں میں رہتے ہیں لیکن اکبر بھائی پھر بھی جیتتے رہتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پچھلے اسمبلی میں ایک بھی مسلمان نہیں ایم ایل اے نہیں تھا۔
مدھیہ پردیش:اس بار 2 مسلمان ایم ایل اے چنے گئے ۔عارف عقیل جو بھوپال شمال سے چنے گئے ہیں۔ عارف 1998 سے لگاتار اسی سیٹ سے ایم ایل اے ہیں۔اس بار بی جے پی نے ان کے خلاف فاطمہ رسول صدیقی کو اتارا جو پرانے کانگریسی ایم ایل اے رسول صدیقی کی بیٹی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عارف عقیل نے رسول صدیقی کو 1990 میں ہرایا تھا۔ اس بار عارف نے ان کی بیٹی کو ہرا یا۔
کانگریس سے دوسرے مسلم امیدوار عارف مسعودنے بھی جیت درج کی ہے،انہوں نے بھوپال سینٹرل سے کامیابی حاصل کی۔ عارف مسعود آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبر بھی ہیں۔مدھیہ پردیش میں پچھلے اسمبلی میں بی جے پی نے ایک مسلمان کو ٹکٹ دیا تھا جو عارف عقیل سے ہار گئے تھےاور کانگریس نے 5کو دیا تھا جس میں صرف عارف عقیل ہی جیتے تھے۔ یعنی پچھلی بار کل ایک مسلمان ایم ایل اے تھا جو اب بڑھکر دو ہو گئے ہیں۔ اس بار کانگریس نے 3مسلمان اتارے جس میں دونوں عارف جیتے اور سرونج سے مسرت شہید ہار گئے۔
یہ بھی پڑھیں :مسلم امیدواروں سے پارٹیوں کو پرہیزکیوں ہے؟
مدھیہ پردیش میں مسلمان اچھی تعداد میں ہیں لیکن پارٹیاں ان کو ٹکٹ کم دیتی ہیں۔اگر 1998 سے دیکھیے تو تب کانگریس نے 4 ٹکٹ دئے جس میں سے 2 جیتے اور ایک ایک آزاد۔ اس کے بعد 2003، 2008 اور 2013 میں کانگریس نے 5-5 لوگوں کوٹکٹ دئے لیکن جیت صرف ایک حصے میں آئی اور وہ عارف عقیل ہیں۔ بی جے پی نے 2013 اور 2018 میں ایک ایک ٹکٹ دیا لیکن دونوں ہار گئے۔ اگر اور پیچھے جائیں تو 1985 میں 7 اور 1994 میں 4 جیتے تھے وہیں 1993 میں ایک بھی مسلمان نہیں جیتا۔
تلنگانہ :تلنگانہ ریاست بننے کے بعد یہاں پہلی بار انتخاب ہوا ہے۔ کیونکہ 2014 میں انتخاب آندھر پردیش میں ہوا تھا۔ سب سے پہلے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے 7سٹنگ ایم ایل اے جو 2014 میں بھی جیتے تھے وہ اس بار پھر جیت گئے ہیں۔ اے آئی ایم آئی ایم نے اس بار8 مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا۔لیکن راجیندرنگرسیٹ سے اس کے امیدوار مرزا رحمت بیگ تیسرے نمبر پر رہے۔ اس کے علاوپرانے 7 ایم ایل اے نے جیت درج کی۔ جس میں اس کی اسمبلی میں فلور لیڈر اکبرالدین اویسی ایک بار پھر چندریان گٹا سے پانچویں بار جیت گئے۔ انہوں نے بی جے پی کی مسلم امیدوار شہزادی سید کو ہرایا۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے ایک اور مسلمان کھڑا کیا تھا حنیف علی بہادرپور سے،لیکن وہ اے آئی ایم آئی ایم کے محمد معظم خان سے ہار گئے۔ اس سیٹ پر 9 امیدوار تھے جس میں کانگریس، تلنگانا راشٹر کمیٹی کو ملاکر8مسلمان لڑ رہے تھے۔
حکمراں ٹی آر ایس کا ایک امیدوار جیتا ہے جس میں شکیل عامر محمد بودھان سیٹ جو نظام آباد میں ہے اور اے آئی ایم آئی ایم کے ایریا کے باہر ہیں وہاں سے جیتے ہیں۔ شکیل پچھلی بار بھی جیتے تھے۔ ٹی آر ایس نے ایک اور مسلمان میر عنایت علی باکری کو بہادرپور سے ٹکٹ دیا تھا لیکن وہ اے آئی ایم آئی ایم سے ہار گئے۔اس طرح تلنگانہ میں پچھلی بار کی طرح8 مسلمان ایم ایل اے ہیں۔
تلنگانہ میں اے آئی ایم آئی ایم اور ٹی آر ایس کا غیراعلانیہ اتحاد رہا۔ جن سیٹ پر دونوں آمنے سامنے نہیں تھے وہاں اے آئی ایم آئی ایم نے ٹی آر ایس کو سپورٹ کیا۔ اس ریاست میں 12فیصدمسلمان ہیں اور وزیراعلیٰ مسلمانوں میں مقبول ہیں اور ان کو امام ضامن باندھے ہوئے اکثر دیکھا جا سکتا ہے، امام اور مؤذن کو محنتانہ دینا شروع کیا اور کئی جگہ اردو میں تقریر بھی کی۔ انہوں نے ایک مسلمان محمد محمود علی کو ڈپٹی چیف وزیر بھی بنایا تھا۔