سرکاری وکیل اجیت کمار نے کورٹ میں خود یہ بات قبول کی کہ درخواست گزار کی طرف سے حج کمیٹی کو لےکر جو سوال اٹھائے گئے ہیں، وہ صحیح ہیں۔
نئی دہلی :جھارکھنڈ ریاستی حج کمیٹی کو جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے تحلیل کرتے ہوئے نئی کمیٹی کی تشکیل کا حکم دیا ہے۔ واضح ہو کہ جھارکھنڈ ریاستی حج کمیٹی کی تشکیل میں حج کمیٹی ایکٹ 2002 کی تعمیل نہیں کرنے کو لےکر ہائی کورٹ میں یہ عرضی یہاں کے سماجی کارکن شمیم علی عرف ایس علی نے دائر کی تھی۔ اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس راجیش شنکر نے جمعرات کو حکم دیا کہ حج کمیٹی کو تحلیل کرتے ہوئے نئی کمیٹی کی تشکیل جلد کی جائے۔
درخواست گزار کی طرف سے وکیل مختار خان نے کورٹ میں اپنی دلیل رکھتے ہوئے کہا کہ حج کمیٹی ایکٹ کی دفعہ 18 کے مطابق مقامی بلدیاتی کوٹہ سے تین مسلم ممبر لینے ہیں،لیکن اس میں دو فرضی وارڈ کونسلر کو ممبر بنا دیا گیا۔ وہیں مسلم دانشور کوٹہ سے 3 ممبروں کو لینا ہے، لیکن 2 کو ہی ممبر بنایا گیا۔ لیکن دونوں ممبر مسلم دانشور ہیں کہ نہیں اس کا ذکر نہیں کیا گیاہے۔
یہ بھی پڑھیں :کیا جھارکھنڈمیں حج کمیٹی کی تشکیل نو سنگھ اور بی جے پی کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے؟
دی وائر نے گزشتہ دنوں اس بارے میں ایک گراؤنڈ رپورٹ شائع کی تھی جس میں ان باتوں کو نشان زد کیا گیا ہے۔پارلیامنٹ، اسمبلی، ودھان پریشد سے تین ممبروں کو لیا جانا ہے۔راجیہ سبھا اور اسمبلی سے دو ممبر کو لیا گیا۔ جبکہ ودھان پریشد کے کوٹہ کو اسمبلی سے بھرنا تھا جیسی حکومت نے اس سے پہلے کیا ہے۔ لیکن وہ کوٹہ خالی چھوڑ دیا گیا۔
بیانڈ ہیڈلائنس کی ایک خبر کے مطابق حکومت کی طرف سے دلیل دیتے ہوئے سرکاری وکیل اجیت کمار نے کورٹ میں خود یہ بات قبول کی کہ درخواست گزار کی طرف سے حج کمیٹی کو لےکر جو سوال اٹھائے گئے ہیں، وہ صحیح ہیں۔سرکاری وکیل اجیت کمار نے کہا کہ حکومت کی طرف سے حج کمیٹی کی تشکیل میں چوک ہوئی ہے۔ قوانین پر صحیح سے عمل نہیں ہوا ہے۔
غور طلب ہے کہ مرکزی اقلیتی فلاح و بہبودکے وزیر مختار عباس نقوی بھی اس حج کمیٹی کے ممبر تھے۔ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی جان پہچانکے لوگوں کو حج کمیٹی کا ممبر بنا دیا تھا۔دی وائر نے اپنی گراؤنڈ رپورٹ میں اس بات کو نمایاں کیا تھا کہ کمیٹی میں بی جے پی کے 7 اور سنگھ کے مسلم راشٹریہ منچ سے 3 لوگ شامل ہیں۔ساتھ ہی مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کو جھارکھنڈ اسٹیٹ حج کمیٹی کا ممبر بنائے جانے پر بھی سوال کھڑا کیا جا رہا ہے۔
Categories: خبریں