تیرہ سال تک حکومت کرنے کے بعد شیوراج کو ایسے سلوک کی امید نہیں رہی ہوگی۔ان کو جب بالکل سامنے کی نشست دی گئی جہاں ملک کے کونے کونے سے آئے بڑے یو پی اے لیڈر تھے،تو شروعات میں کچھ پریشان نظر آئے۔
بھوپال کے جمبوری میدان پر ملک بھر سے آئے بڑے سیاسی لیڈران کی موجودگی میں کمل ناتھ نے مدھیہ پردیش کے18 ویں وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف لیا ۔منگل کے روز ہوئے حلف برداری کے اس پروگرام کی کئی خصوصیات تھیں مگر ایک بات ایسی تھی جس نے لوگوں کو بہت متاثر کیا۔یہ تھا سیاست میں شائستگی اور تہذیب کا مظاہرہ- حزب اختلاف کے لیڈران کو جس طرح عزت دی گئی وہ حیران کن تھا ،کیوں کہ مدھیہ پردیش میں گزشتہ چند سالوں میں یہ روایات نہ صرف ختم ہو گئی تھیں بلکہ اس کی جگہ ایک ایسے کلچر نے لی تھی جس میں مخالف جماعت کے لیڈران کو نظر انداز کرنا اور ان کے ساتھ ہتک آمیز سلوک عام ہو گیا تھا۔
عالم یہ تھا کہ کانگریس کے منتخب رہنما سرکاری جلسوں میں نظر نہیں آتے تھے اور حکومت کے پروگرام پوری طرح بی جے پی کے پروگرام بن گئے تھے ۔ ایم پی اور ایم ایل اے تک اگر حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ہوتے تھے تو ان کی عام شکایت یہی ہوتی تھی کہ ان کے ہی حلقے کے پروگرام میں ان کو نہیں بلایا جاتا تھا یا دعوتی کارڈ پروگرام کے بعد پہنچتا تھا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ شیور راج سنگھ چوہان نے اپنی امیج ایک منکسرالمزاج شخص کی بنا لی تھی مگر اسکے پردہ میں یہ حقیقت تھی کہ ریاست میں بڑے بڑےکانگریسی رہنما، حتی کہ آئینی عہدے پر فائٖض فرد جیسے سابق ‘ لیڈر آف اپوزیشن ‘بھی یہ شکایت کرتے تھے کہ انکے ساتھ سرکار کا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔
سابق مرکزی وزیر جیوتیرادتیہ سندھیہ کا واقعہ تو پارلیامنٹ میں زیر بحث آیا تھا جب انکے حلقے میں ہائی وے پروجیکٹ کے افتتاح پر ان کو ہی نہیں بلایا گیا تھا اور وہاں نصب کئے گئے بورڈ پر بھی ان کا نام مٹا دیا گیا تھا۔ یہ تو جب ایوان میں معاملہ آیا اور تحریک استحقاق کی بات کی گئی، تب مرکزی وزیر نتن گڈکری نے معافی مانگ لی تھی۔ مگر صوبے میں یہ روش عام ہو چکی تھی۔ برسراقتدار پارٹی کا رویہ دیکھ کر افسران بھی کانگریس کے لیڈران کے ساتھ ایسا ہی انداز اختیار کرنے لگے تھے۔
پندرہ سال حکومت کے بعد جب بی جے پی حالیہ انتخابات میں ہار گئی تو کسی نے یہ امید نہیں کی ہوگی کہ انتی تلخی کے بعد کانگریس کے لیڈران بی جے پی رہنماؤں کے ساتھ نہ صرف اپنائیت کا مظاہرہ کریں گے بلکہ تعظیم و تکریم کے ساتھ پیش آ ئیں گے مگر کانگریس لیڈران نے بی جے پی کے رہنماؤں کو پروگرام کے لئے مدعو کرنے سے لے کر، ان کی شرکت اور نشست کا انتظام پہلے سے ہی طے کر لیا تھا۔
سابق وزرائےاعلیٰ جیسے کیلاش جوشی، بابولال گور کے ساتھ بہت ادب کا مظاہرہ کیا گیا۔ جوشی جو بزرگ بی جے پی رہنما ہیں وہ پیچھے بیٹھے تھے اور دگوجئے سنگھ خود ان کو آگے کی صف میں لے کر آئے۔ بابو لال گور اور شیوراج چوہان کو بھی اسٹیج پر بالکل سامنے،تمام بڑے لیڈران کے ساتھ نمایاں طور پر بیٹھایا گیا۔بابو لال گور جب آ رہے تھے تو ان کے استقبال کے لئے خود لیڈر گئے اور ان کو اسٹیج پر لے گئے۔
تیرہ سال تک حکومت کرنے کے بعد شیوراج کو حزب اختلاف میں آنے کے بعد ایسے سلوک کی امید نہیں رہی ہوگی۔ ان کو جب بالکل سامنے کی نشست دی گئی جہاں ملک کے کونے کونے سے آئے بڑے یو پی اے لیڈر تھے، تو شروعات میں کچھ پریشان نظر آئے۔اب نہ وہ سکیورٹی تھی، نہ وہ توجہ کا مرکز تھے۔ سب نظریں تو کمل ناتھ پر تھیں۔ مگر کچھ دیر بعد ہی جب کانگریس اور دوسرے غیر بی جے پی لیڈروں نے آگے بڑھ کر ان سے ملاقاتیں کیں تو وہ مطمئن نظر آنے لگے اور پھی کئی لیڈروں سے بغل گیر ہوئے۔
مخالف پارٹی کے لیڈر ان سے ایسے تپاک سے ملیں گے اور اس طرح مروت سے پیش آئیں گے، یہ شاید ان کو متوقع نہیں تھا۔یہ اور بات تھی کہ ایک پارٹی کے ہونے کے باوجود بابولال گور اور شیوراج نے آپس میں کوئی بات چیت نہیں کی۔ بہر حال ٹی وی کیمروں کے لئے وہ بڑا حیرت انگیزلمحہ تھا جب شیوراج چوہان، کمل ناتھ اور جیوتی رادتیہ سندھیا نے ساتھ آ کر ہاتھ اٹھائے ۔ پروگرام میں موجود لوگوں کا بھی یہ تاثر نظر آیا کہ ایسی روایات کو مستحکم کرنے کی اشد ضرورت ہے اور رہنما ایک تہذیبی معیار قائم کریں ۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر یہ خوش آئند ہے اگر سیاست داں غرور اور ذاتی عناد کو پس پشت رکھ، بہتر اخلاق کا مظاہرہ کریں۔
حلف برداری کے پروگرام میں بہت سے سادھو اور سنت بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ شہر قاضی بھوپال، آرچ بشپ اور سکھ مذہبی پیشوا بھی تھے۔ بہر حال اس سلوک کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ تلخیوں میں کچھ کمی آئے گی ،اور نہ صرف بی جے پی اس سےسبق لے گی بلکہ کانگریس کے رہنما بھی اسی اخلاق کا مظاہرہ آگے بھی کرتے رہیں گے۔
Categories: فکر و نظر