بہار کا گیا ضلع بھلےہی مذہبی وجوہات سے دنیا بھر میں مشہور ہے، لیکن پچھلے کچھ سالوں میں اس ضلع پر ایک اور تمغہ چسپاں ہو گیا ہے۔ گیا اکلوتا ضلع بن گیا ہے، جہاں کے سب سے زیادہ بچے بچہ مزدور بنکر دوسری ریاستوں کی فیکٹریوں میں کام کرنے کو مجبور ہیں۔
گیا/پٹنہ : گزشتہ سال دشہرہ کا وقت تھا۔ گیا ضلع کے بودھ گیا بلاک کے کھرانٹی گاؤں کی مہادلت (مسہر)ٹولے میں مٹی کے گھر میں رہ رہے غریبن مانجھی کے پاس ان کے دور کا ایک رشتہ دار آیا۔ اس نے ان کے 10 سالہ بیٹے سنجے(بدلا ہوا نام)کو اپنے ساتھ جئے پور لے جانے کی بات کہی۔ غریبن مانجھی نا کرتے، اس سے پہلے ہی اس نے جاتے ہی 2 ہزار روپیے بھیجنے اور 3 ہزار روپے ہرمہینے دینے کا وعدہ بھی کر دیا۔
250 سے 300 روپے کی یومیہ مزدوری پر اپنا اوردوسرے8 ممبروں کا پیٹ پال رہے غریبن کو یہ سودا ٹھیک لگا۔ چونکہ،پیشکش کرنے والا شخص بھی دور کا رشتہ دار تھا، تو غریبن کے لئے یہ راحت ہوئی کہ بیٹا وہاں چین سے رہےگا۔ لیکن، ایسا ہوا نہیں۔ سنجے کو جئے پور کے جس چوڑی کارخانہ میں نوکری پر لگایا گیا، وہ اذیت خانہ ثابت ہوا۔بقول سنجے، صبح آٹھ بجے سے رات ایک بجے تک کانچ کی چوڑیوں پر موتی چپکانا پڑتا تھا۔ تین وقت کھانا ملتا تھا۔ رات کو بھوک سے کم کھانا ملتا تھا، تاکہ نیند نہ آ جائے۔ ایک بجے رات میں کام ختم کرکے سوتا اور پھر صبح اٹھ جانا پڑتا تھا۔ بہت تھکان رہتی تھی۔ لیکن وہ لوگ کوئی فریاد نہیں سنتے تھے۔ ‘
اس نے 6 مہینے تک وہاں کام کیا۔ اس بیچ مقامی این جی او اور جئے پور پولیس نے ملکر سنجے سمیت کئی بچوں کو اس کارخانہ سے محفوظ نکالکر بہار پہنچا دیا۔ غریبن مانجھی کی طرح ہی اسی ٹولے کی دیوکی مانجھی کے پاس بھی ایسے ہی سبزباغ کی پیشکش آئی تھی۔ وہ بھی انکار نہیں کر پائے اور اپنے 15 سال کے بیٹے مکیش (بدلا ہوا نام)کو جئے پور بھیج دیا۔ 6 مہینے بعد پولیس اور این جی او کی کوششوں سے وہ بھی گھر لوٹ آیا۔
مکیش سے بھی صبح 8 بجے سے رات 1 بجے تک کام کرایا جاتا تھا۔ مکیش نے کہا، ‘وہاں دل نہیں لگتا تھا۔ تہوار وں میں چھٹی بھی نہیں ملتی تھی۔ فیکٹری سے باہر نکلنے نہیں دیا جاتا تھا۔ وہیں رہتے تھے اور وہیں کھاتے تھے۔ ‘بچہ مزدوری کے لئے سنجے اور مکیش کی اسمگلنگ کے یہ معاملے ان ہزاروں معاملوں کا حصہ ہے، جو اب گیا کے لئے بہت عام ہو گئے ہیں۔
جھارکھنڈ اور اتر پردیش کی سرحد سے سٹا گیا ضلع مذہبی وجوہات سے دنیا بھر میں مشہور ہے، لیکن پچھلے کچھ سالوں میں اس ضلع پر ایک تمغہ اور چسپاں ہو گیا ہے۔ گیا بہار کا اکلوتا ضلع بن گیا ہے، جہاں کے سب سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر بنکر دوسری ریاستوں کی فیکٹریوں میں کام کرنے کو مجبور ہیں۔زیادہ تر بچہ مزدوروں کو چوڑی کی فیکٹریوں میں کام کروایا جاتا ہے، کیونکہ ان کے ہاتھ بہت چھوٹے اور نرم ہوتے ہیں اور چوڑیوں پر باریک نقاشی کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ بچہ مزدور جئے پور کی چوڑی فیکٹریوں میں کھپائے جاتے ہیں۔ جئے پور کے علاوہ یہاں سے بچوں کو حیدر آباد اور تلنگانہ بھی لے جایا جاتا ہے۔بہار کے مزدور محکمہ سے ملے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2015سے2016 میں الگ الگ صوبوں سے 1101 بچہ مزدور آزاد کرائے گئے تھے۔ سال 2016سے2017 میں یہ اعداد و شمار 1050 اور سال 2017سے2018 میں 920 رہے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں، جو چائلڈ لیبر ٹریکنگ سسٹم میں درج ہوپائے ہیں۔
ان اعداد و شمار کے ساتھ گیا سے لے جائے گئے بچہ مزدوروں کے اعداد و شمار کو ملائیں، تو پائیںگے کہ 20 سے 40 فیصد بچے گیا کے ہوتے ہیں۔مزدور محکمہ کے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2015سے2016 میں بچائے گئے بچہ مزدوروں میں اکیلے گیا کے 160 بچے تھے۔اس کے بعد کے 2016سے2017 میں بچائے گئے 1050 بچوں میں گیا کے 284 بچے شامل تھے۔ سال 2017سے2018کے اعداد و شمار بھی اس سے کچھ الگ نہیں ہیں۔
بہار کے سوشل ویلفیئر ڈائریکٹرراج کمار کہتے ہیں،’ہاں، یہ صحیح ہے۔بچہ مزدوروں کی سب سے زیادہ اسمگلنگ گیا سے ہی کی جاتی ہے۔ اس لئے گیا کو ہم نے فوکس ضلع بنایا ہے۔ ‘چائلڈ لیبر کے لئے گیا سے ہی سب سے زیادہ بچوں کی اسمگلنگ کی وجہ کی جانچ کرنے پر ایک وجہ بر آمد بچوں کےسرنیم میں ملتا ہے۔دوسری ریاستوں سے بر آمد کرکے لائے جا رہے زیادہ تر بچےمسہر (مانجھی)، پاسوان، روی داس وغیرہ پسماندہ ذاتوں کے ہوتے ہیں۔
ان میں بھی مسہر ذات کے بچے سب سے زیادہ تقریباً50 فیصد ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سال 2015سے2016 اور 2016سے2017 کے اعداد و شمار کو لیا جا سکتا ہے۔ مزدور محکمہ سے ملے اعداد و شمار کے مطابق اس سال بر آمد کئے گئے کل 160بچہ مزدوروں میں سے مسہر ذات کے 76 بچے تھے۔ وہیں، سال 2016سے2017 میں بچائے گئے 284 بچہ مزدوروں میں مسہر ذات کے بچوں کی تعداد 118 تھی۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق، بہار میں ایس سی کی آبادی 1 کروڑ 65 لاکھ 67 ہزار 325 ہے۔ ان میں سے 30.4 فیصد آبادی گیا میں بستی ہے۔بہار میں بسنے والی ایس سی کمیونٹی میں خواندگی کی شرح محض 48.65 فیصد ہے، جو ملک کے باقی تمام ریاستوں سے کم ہے۔ بہار کو چھوڑکر ملک کے کسی بھی ریاست کی ایس سی کمیونٹی میں خواندگی کی شرح 50 فیصد سے کم نہیں ہے۔
ان اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ یہ کمیونٹی تعلیم کے معاملے میں حاشیے سے بھی باہر کھڑی ہے۔ دوسری طرف، وہ اقتصادی مورچے پر بھی بےحد کمزور ہیں۔ ان کے پاس اپنی زمین نہیں ہے۔ کمائی کا اکلوتا ذریعہ یومیہ مزدوری ہے۔ لیکن، مزدوری بھی ان کو مہینے میں زیادہ سے زیادہ 20 دن ہی ملتی ہے۔ غریبن مانجھی کہتے ہیں،کھیتی کے سیزن میں کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ کھیت میں کام کرنے کا اناج یا نقد 200 روپیے ملتے ہیں۔ جب کھیتی نہیں ہوتی ہے، تو مکان بنانے میں اینٹ ریت کا کام کرتے ہیں۔ اس میں 250 سے 300 روپے یومیہ ملتا ہے، لیکن مہینہ بھر کام نہیں ملتا ہے۔ اتنے پیسے میں گھر کیا چلےگا؟ ‘
کھرانٹی کی مسہر ٹولی کے رہنے والے راجدیو مانجھی کے 12 اور 13 سال کے دو بچے جئے پور گئے تھے۔ راجدیو مانجھی نے کہا،یہی سوچکر ان کو جانے سے نہیں روکے کہ دونوں باہر جائیںگے، کچھ کمائیںگے، تو ہاتھ میں دوچار پیسہ آئےگا۔ ‘مفلسی میں جی رہے ان کمیونٹیز کے بچے کسی ریاست کی فیکٹری سے بچا لئے جاتے ہیں، تو ان کے رشتہ داروں کو راحت سے زیادہ مشکلیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ کیونکہ ایسی صورت میں ان کو اپنے بچوں کو لانے کے لئے کافی دوڑ دھوپ کرنی پڑتی ہے۔
دیوکی مانجھی پورے معاملے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں،کارخانہ کے مالک کی طرف سے جب ہمارے پاس فون آیا تھا کہ میرے بچے کو پولیس نے بر آمد کیا ہے، تو مجھے جئے پور جانا پڑا۔ جئے پور میں 10 دن رہا۔ وہاں سے کہا گیا کہ بچے کو پٹنہ بھیجا جائےگا اور وہیں سے میرے سپرد کیا جائےگا۔ میں پٹنہ آیا، تو بتایا گیا کہ بچے کو گیا بھیجا جائےگا۔ گیا میں بھی دوتین دن دوڑدھوپ کرنا پڑا، تب جاکر اس کو سونپا گیا۔ ‘
انہوں نے کہا،بچے کو گھر تک لانے میں ہی 3 سے 4 ہزار روپے خرچ ہو گئے۔ ادھر ادھر سے لےکر کام کرنا پڑا۔ اور پریشانی جو ہوئی، اس کے بارے میں ہم کیا بتائیں۔ ‘دیوکی مانجھی کا معاملہ استثنا نہیں ہے۔فیکٹریوں سے بچائے گئے تمام بچوں کے سرپرستوں کو اسی پریشانی سے گزرنا پڑتا ہے۔چائلڈ لیبر سے آزاد کرائے گئے بچوں کے لئے ریاستی حکومت کی طرف سے کئی طرح کی اسکیمیں چلائی جا رہی ہیں۔ اس کے تحت چائلڈ لیبر سے آزاد بچوں کو مزدور محکمہ کی طرف سے بلاتاخیر 3 ہزار روپے کی مدد دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ متعلقہ ضلع انتظامیہ کی طرف سے 5 ہزار روپے دینے کا اہتمام ہے۔
دوسری طرف، جون 2016 میں بہار کی نتیش حکومت نے ایسے بچوں کے لئے ایک نئی اسکیم شروع کی ہے۔ اس کے تحت چائلڈ لیبر سے چھڑائے گئے بچوں (14 سال تک کی عمر )کے نام پر 25 ہزار روپے جمع کئے جاتے ہیں اور بچےکی عمر جب 18 سال ہو جاتی ہے، تو سود سمیت وہ رقم بچےکے اکاؤنٹ میں ڈال دیا جاتا ہے۔بچہ مزدوری کو روکنے کے لئے حکومت کی تمام اسکیموں کے باوجود افسوس کی بات ہے کہ گیا سے بچہ مزدوروں کی اسمگلنگ تھم نہیں رہی ہے۔الٹا بچائے گئے بچے دوبارہ-تبارا فیکٹریوں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک کیس کھرانٹی کی مسہر ٹولی میں ملا۔ یہاں رہ رہے معذور بچے شیو(بدلا ہوا نام) کو 6-7 مہینے پہلے پولیس نے جئے پور سے آزاد کراکر لایا تھا۔ وہ اب اپنی ماں کے ساتھ یوپی میں اینٹ بھٹہ میں کام کرنے چلا گیا ہے۔شیو کے بھائی جے رام مانجھی نے بتایا، ہفتے بھر پہلے ماں اس کو اپنے ساتھ اینٹ بھٹہ میں کام کرانے لےکر گئی ہے۔
کھرانٹی کی مسہر ٹولی کا جب ہم نے دورہ کیا تھا، تو راستے میں ایک اسکول بھی آیا۔ اسکول پکا تھا۔ اسکول میں جب ہم پہنچے، تو وہاں محض 10سے15 بچے ہی نظر آئے اور وہ بھی کھیل رہے تھے۔ جبکہ اسکول کے رجسٹر میں 250 بچوں کے نام ہیں۔اسکول کی پرنسپل کنتی سنہا نے اسکول میں بچوں کی حاضری کم ہونے کی بات قبول کی اور کہا، ہم تو کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ بچے آئیں، لیکن سرپرستوں میں بیداری کی کمی ہے۔
بچہ مزدوری کے خلاف کارروائی پرسوشل ویلفیئر کے ڈائریکٹر راج کمار نے کہا، ہم نے جئے پور کی چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے ساتھ میٹنگ کر کے فیکٹریوں کے مالکوں کے خلاف چائلڈ لیبر(پریونشن)ایکٹ، بانڈینڈ لیبر ایکٹ، انڈین پینل کوڈ اور جوینائل جسٹس ایکٹ کی دفعات کے ساتھ ایف آئی آر درج کرانے کو کہا ہے۔ اس سے فیکٹریوں کے مالکوں پر جرم ثابت ہوگا، تو 6سے7 سال کی سزا ہوگی۔ اس سے ان میں ڈر پیدا ہوگا۔
انہوں نے آگے کہا، گیا سمیت 4 ضلعوں میں رہائشی گھر بھی بنا رہے ہیں۔ ان میں آزاد کرائے گئے بچوں کو روز گار مبنی ٹریننگ دی جائےگی۔انتظامیہ کی طرف سے حالانکہ ایسے وعدےیادعوے کوئی نئی بات نہیں ہے اور ان کا زمینی حشر بھی جگ ظاہر ہے۔ پھر بھی امید کی جانی چاہیے کہ انتظامیہ اعلان کرنے میں جتنی سنجیدگی دکھاتی ہے، اتنی ہی سنجیدگی سے ان کو نافذ بھی کرےگی ۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: گراؤنڈ رپورٹ