حکومت سرکاری بینکوں میں ایک لاکھ کروڑ روپے کیوں ڈال رہی ہے؟ کسان کا لون معاف کرنے پر کہا جاتا ہے کہ پھر کوئی لون نہیں چکائےگا۔ یہی بات صنعت کاروں کے لئے کیوں نہیں کہی جاتی؟
کیا آپ کو معلوم ہے کہ بینکوں کو پھر سے 410 ارب روپے دئے جا رہے ہیں؟ وزیر خزانہ جیٹلی نے پارلیامنٹ سے اس کے لئے اجازت مانگی ہے۔ یہی نہیں حکومت نے بینکوں کو دینے کے لئے بجٹ میں 650 ارب روپے کا اہتمام رکھا تھا۔ بینکوں کی زبان میں اس کو کیپٹل انفلو کہا جاتا ہے۔
حکومت بینکوں کو ایک سال میں 1 لاکھ کروڑ روپے کیوں دینا چاہتی ہے؟ آپ کسی بھی تجزیے کو پڑھیے، یہی جواب ملےگا کہ بینکوں نے پہلے جو لون دئے تھے وہ چکائے نہیں کئے گئے۔ پھر سے لون دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ اس لئے حکومت اپنی طرف سے بینکوں کو پیسے دے رہی ہے تاکہ بازار میں لون کے لئے پیسے دستیاب ہو سکیں۔کس نے لون لےکر نہیں چکائے ہیں اور کس کو نیا لون دینا ہے، ان دو سوالوں کے جواب سے سب کچھ صاف ہو جائےگا۔ کیا یہ کیپٹل انفلو کے نام پر قرض معافی نہیں ہے؟
ریزرو بینک آف انڈیانے 11 سرکاری بینکوں کوپرامپٹ کریکٹو ایکشن کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔ ان سبھی سے کہا گیا تھا کہ وہ این پی اے کھاتوں کی پہچان کریں، لون وصول کریں ، جو لون نہ دے اس کمپنی کو بیچ دیں اور نیا لون دینا بند کر دیں۔بینکوں کا این پی اے جب خاص حد سے زیادہ ہو گیا تب یہ روک لگائی گئی کیونکہ بینک ڈوب سکتے تھے۔ اب ہنگامہ ہوا کہ جب بینک لون نہیں دیںگے تو معیشت کی رفتار رک جائےگی۔ پر یہ صنعت کار سرکاری بینکوں سے ہی کیوں لون مانگ رہے ہیں، پرائیویٹ سے کیوں نہیں لیتے؟
ان کے لئے حکومت سرکاری بینکوں میں ایک لاکھ کروڑ روپے کیوں ڈال رہی ہے؟ کسان کا لون معاف کرنے پر کہا جاتا ہے کہ پھر کوئی لون نہیں چکائےگا۔ یہی بات ان صنعت کاروں سے کیوں نہیں کہی جاتی ہے؟ستمبر 2018 میں بینکوں کا نان پرفارمنگ اسیٹ 8 لاکھ 69 ہزار کروڑ روپے کے ہو گئے ہیں۔ جون 2018 کے مقابلے میں کچھ گھٹا ہے کیونکہ تب این پی اے 8 لاکھ 74 ہزار کروڑ روپے تھے۔ لیکن ستمبر 2017 میں بینکوں کے این پی اے 7 لاکھ 34 ہزار کروڑ روپے تھے۔
بینکوں کا زیادہ تر این پی اے انہی صنعت کاروں کے لون نہ چکانے کی وجہ سے ہے۔ کیا واقعی ریزرو بینک کی سختی کی وجہ سے بینکوں نے لون دینا بند کر دیا ہے؟بزنس اسٹینڈرڈ میں تمل بندھوپادھیائے کا ادارتی مضمون چھپا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ بینک سیکٹر کا قرض دینے کی رفتار بڑھی ہے۔ 15 فیصد ہو گیا ہے۔ جی ڈی پی کی رفتار سے ڈبل۔ پھر حکومت کو کیوں لگتا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔ بینکوں کو اور زیادہ قرض دینا چاہیے۔1 لاکھ کروڑ روپے جب سرکاری بینکوں کو ملےگا تب وہ ریزرو بینک کی نگرانی سے آزاد ہو جائیںگے۔ لون دینے کے لئے ان کے ہاتھ پھر سے کھل جائیںگے۔
حکومت بینکوں کو 1986 سے پیسے دیتے رہی ہے، لیکن اس کے بعد بھی بینک کبھی سرمایہ کے بحران سے باہر نہیں آ سکے۔ 1986 سے 2017 کے درمیان ایک لاکھ کروڑ روپے بینکوں میں دئے گئے ہیں۔ 11 سال میں ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ کی رقم دی جاتی ہے۔ اب اتنی ہی رقم ایک سال کے اندر بینکوں کو دی جائےگی۔
بزنس اسٹینڈرڈ کے ایک اور مضمون میں دیب آشیش بسو نے لکھا ہے کہ یہ سیدھاسیدھا عطیہ تھا۔ ا س کے بینکوں کے مظاہرہ میں اصلاح سے کوئی لینا-دینا نہیں تھا۔ دس لاکھ کروڑ کا این پی اے ہو گیا، اس کے لئے نہ تو کوئی رہنما قصوروار ٹھہرایا گیا اور نہ بینک کے اعلیٰ افسر۔رہنما ہمیشہ چاہتے ہیں کہ بینکوں کے پاس پیسے رہیں تاکہ دباؤ ڈالکر اپنے چہیتوں کو لون دلوایا جا سکے، جو کبھی واپس ہی نہ ہو۔
دیب آشیش بسو نے مودی حکومت کے شروعاتی فیصلوں میں سے ایک کی طرف دھیان دلایا ہے۔ چار ریاستوں میں 23 ضلع کوآپریٹو بینکوں کو بحال کرنا تھا۔ ان سبھی کے پاس لائسنس نہیں تھے۔ 23 میں سے 16 بینک یوپی میں تھے۔اصولوں کے مطابق ان سب کو بند کر دیا جانا تھا مگر حکومت نے ان کو چلانے کی اجازت دی۔ بسو نے لکھا ہے کہ حکومت اس متنازعہ فیصلے سے کیا اشارہ دینا چاہتی تھی؟دیب آشیش بسو نے اس کے بارے میں تفصیل سے نہیں لکھا ہے مگر اس جانکاری کو اورپھیلانے کی ضرورت ہے۔ بنا لائسنس کے کوآپریٹوبینک کھلوا دینے کا کھیل کیا ہے، اس کو میں بھی سمجھنے کی کوشش کروںگا۔
تمل بندھوپادھیائے نے لکھا ہے کہ کیا بینکوں کو قرض دینا آتا ہے؟ شاید نہیں۔ اگر پتا ہوتا تو وہ اس بحران میں نہیں ہوتے۔ معیشت کی حالت پر الزام عائد کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اسی ماحول میں پرائیویٹ بینک بھی کام کرتے ہیں۔ ان کے این پی اے کی حالت اتنی بری کیوں نہیں ہے؟انہوں نے لکھا ہے کہ حکومت بینکوں کو جو لاکھ-لاکھ کروڑ دیتی ہے وہ کسانوں کے قرض معافی سے کوئی الگ نہیں ہے۔ اگر حکومت اسی طرح سے بینکوں میں سرمایہ کاری کرتی رہی تو کیا صنعت کاروں پر قرض چکانے کا دباؤ ہلکا نہیں ہوگا، ویسے ہی جیسے کسان قرض نہیں دیںگے۔
بزنس اسٹینڈرڈ کی ایک اور رپورٹ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھشیک واگھ مرے اور سنجیب مکھرجی کی رپورٹ ہے کہ یوپی انتخابات میں کسانوں کی قرض معافی کے وعدے کے بعد سے اب تک سات ریاستوں میں قریب پونے دو لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ قرض معافی کا اعلان ہو چکا ہے۔ لیکن مہاراشٹر، یوپی، پنجاب اور کرناٹک میں 40 فیصد کسانوں کا ہی لون معاف ہوا ہے۔ دو ریاست بی جے پی کی ہیں اور دو کانگریس کی۔
اتر پردیش میں مختصر اور سَرحَدی کسانوں کے ایک لاکھ تک کے قرض معاف ہونے تھے۔ اپریل 2017 میں فیصلے کا اعلان ہو گیا۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ 86 لاکھ کسانوں کو فائدہ ہوگا۔ اس پر 364 ارب روپے خرچ ہوںگے۔لیکن 21 مہینے گزر جانے کے بعد محض 44 لاکھ کسانوں کی ہی قرض معافی ہوئی ہے۔ یہی نہیں قرض معافی کے بعد سے ان چار ریاستوں میں زراعت پر دیا جانے والا قرض بھی کم ہو جاتا ہے۔ اس رپورٹ کو پڑھیے تو کافی کچھ سمجھ آئےگا۔
انگریزی نہیں پڑھنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ مدعوں کو سمجھنے کے لئے الگ الگ اور کئی قسم کے وسائل کا سہارا لیں۔ تبھی سمجھ آئےگا کہ دس لاکھ کروڑ کا لون نہیں چکانے والے چند مٹھی بھر لوگ موج کر رہے ہیں۔ ان کو اور لون ملے اس کے لئے حکومت 1 لاکھ کروڑ روپے سرکاری بینکوں کو دے رہی ہے۔کسانوں کے لون معاف ہوتے ہیں، کبھی پورے نہیں ہوتے ہیں، ہوتے بھی ہیں تو ان کو قرض ملنے سے روکا جانے لگتا ہے۔ صنعت کاروں کو لون دینے میں دقت نہیں ہے، دقت ہے لون نہیں چکانے اور اس کے بعد بھی نیا لون دینے کے لئے حکومتوں کے بچھ جانے سے۔
پھر کیوں کسانوں کی بات آتی ہے تو مڈل کلاس لطیفے بنانے لگتا ہے۔ اچھا ہے الگ الگ وسائل سے دس-پانچ مضمون پڑھ لیں ، بحث کا معیار لطیفہ سے بہتر ہو جائےگا۔
(یہ مضمون رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر