کسان حکومت سے بھی ناراض ہیں ۔ ان کو امید تھی کہ حکومت آلو کے لیے بھی ایم ایس پی طے کرے گی،لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب جو حال ہے اس میں ان کی لاگت بھی نہیں نکل رہی ۔
نئی دہلی:پنجاب میں لگاتار تیسرے سیزن میں آلو کی بڑے پیمانے پر ہوئی فصل نے کسانوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ کولڈ اسٹوریج بھرے ہوئے ہیں اور خریدار بھی نہیں مل رہے ہیں۔ نتیجے میں کسانوں کو آلو یا تو کھیت میں ہی سڑنے کے لیے چھوڑنا پڑ رہا ہے یا پھر مفت میں دینا پڑ رہا ہے۔ دی ٹربیون کے مطابق؛ بھاری گھاٹے کی وجہ سے ان میں سے کئی کسانوں نے تو اب آلو کی کھیتی چھوڑنے کا ہی فیصلہ کر لیا ہے۔
کسان حکومت سے بھی ناراض ہیں ۔ ان کو امید تھی کہ حکومت آلو کے لیے بھی ایم ایس پی طے کرے گی،لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب جو حال ہے اس میں ان کی لاگت بھی نہیں نکل رہی ۔ ادھر کولڈ اسٹوریج والے بھی پریشان ہیں۔ آلو کی نئی فصل بازار میں آ چکی ہے اور پرانی فصل لینے کے لیے کوئی تیار نہیں ،اس لیے کئی کسانوں نے اپنا آلو کولڈ اسٹوریج میں ہی چھوڑ دیا۔
کولڈ اسٹوریج کے مالک جسوندر سنگھ سانگھا جس نے 440 ہکٹیئر پر آلو کی کھیتی کی تھی، اس میں سے پچھلے سال کی فصل (تقریباً 700 ٹن آلو)ان کے کولڈ اسٹوریج میں پڑی ہوئی ہے۔انھوں نے کہا ،’ مجھے پچھلے 4-3 سال میں 4 سے 6 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ اس سے اچھا ہے کہ ہم لوگوں کو مفت میں فصل دے دیں یا سڑنے کے لیے چھوڑ دیں۔’
غور طلب ہے کہ اس سے پہلے ناسک ضلع میں قرض اور کم قیمت ملنے کی وجہ سے گزشتہ دنوں دو پیاز کسانوں نے خودکشی کر لی تھی۔ مرنے والوں کی پہچان تاتیابھاؤ کھیرنر (44) اور منوج دھونڈگے (33) کے طور پر ہوئی تھی۔ وہ شمالی مہاراشٹر کے باگلان تالکا کے رہنے والے ہیں۔ ناسک ضلع کا ہندوستان میں پیاز پیداوار کا 50 فیصد حصہ ہے۔ ضلع کے کسان دعویٰ کر رہے ہیں کہ اچھی فصل ہونے کی وجہ سے ان کو ان کی پیداوار کی اچھی قیمت نہیں مل رہی ہے۔
مرنے والوں کے رشتہ داروں نے دعویٰ کیا کہ وہ کم قیمت ملنے کی وجہ سے اپنی 500 کوئنٹل پیاز بیچ نہیں پا رہے تھے۔ مرنے والے کسان کی فیملی نے بتایا کہ کھیرنر پر 11 لاکھ روپے کا بقایا قرض تھا۔ ایک دوسرے معاملے میں 33 سالہ منوج دھونڈگے نے زہریلا کیمیکل پی کر جمعہ کو مبینہ طور پر خودکشی کر لی۔ دھونڈگے کی فیملی نے بتایا کہ ان پر 21 لاکھ روپے کا بقایا قرض تھا اور وہ تھوک بازار میں پیاز کی کم قیمت ملنے کی وجہ سے اپنی پیداوار بیچ نہیں پائے۔
واضح ہو کہ مہاراشٹر سے لگاتار یہ خبریں آ رہی ہیں کہ پیاز کے کسان اپنی پیداوار کو کم قیمت پر بیچنے کے لیے مجبور ہیں۔ حال ہی میں یولا تحصیل میں انڈرسل کے باشندے چندرکانت بھیکن دیش مکھ نے پیاز کی کم قیمت ملنے پر وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس کو 216 روپے کا منی آرڈر بھیجا تھا۔دیش مکھ نے بتایا تھا کہ یولا میں پانچ دسمبر کو ہوئے اگریکلچرل پروڈکشن مارکیٹ کمیٹی (اے پی ایم سی) کی نیلامی میں 545 کلوگرام پیاز کی فروخت کے بعد ان کو یہ رقم حاصل ہوئی۔
اس کو جو قیمت دی گئی وہ فی کلوگرام کے لئے 51 پیسے تھے اور اے پی ایم سی کی فیس کو کاٹنے کے بعد اس کو 216 روپے کی ادائیگی کی گئی اور اس سے متعلق انہوں نے فروخت کی رسید بھی دکھائی۔وہیں ناسک ضلع کے سنجے ساٹھے نامی کسان کو اپنی 750 کیلو پیاز محض 1.40 روپے فی کیلو کے حساب سے بیچنی پڑی۔ اس بات کو لے کر ناراض کسان نے انوکھے طریقے سے اپنی مخالفت درج کرائی ۔ اس نے پیاز بیچنے کے بعد ملے 1064 روپے کو وزیر اعظم نریندر مودی کو بھیج دیا۔
اس کے علاوہ مہاراشٹر کے احمد نگر ضلع کے ایک کسان نے پیا ز کی قیمتوں میں آئی زبردست گراوٹ اور پیاز بیچنے کے بدلے میں ملنے والی معمولی رقم کو لے کر اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔ کسان نے پیازبیچنے پر ملے 6 روپے کو وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کو منی آرڈر کے ذریعے بھیجا ہے۔ شریس ابھالے نامی کسان نے اتوار کو بتایا کہ ضلع کے سنگ منیر تھوک بازار میں 2657 کلو پیاز ایک روپے فی کلو کی شرح سے بیچنے اور بازار کے خرچ نکالنے کے بعد اس کے پاس محض 6 روپے بچے۔
صرف مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ مدھیہ پردیش میں بھی تھوک منڈی میں پیاز کی کم قیمت ملنے سے کسان پریشان ہیں۔ مدھیہ پردیش کی سب سے بڑی نیمچ منڈی میں پیاز پچاس پیسے فی کلوگرام اور لہسن دو روپے فی کلوگرام تھوک کے بھاؤ بکنے کی وجہ سے کسان یا تو اپنی فصل واپس لے جا رہے ہیں یا پھر منڈی میں ہی چھوڑ کر جا رہے ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں