ہم ساوتری بائی پھولے کو صرف ڈاک ٹکٹ کے لئے یاد نہ کریں۔یاد کریں تو اس لئے کہ اس وقت کا سماج کتنا گھٹیا اور ظالم تھا۔ اس سماج میں ایک دلیر خاتون بھی تھیں جن کا نام ساوتری بائی پھولے تھا۔
وہ دو ساڑی لےکر جاتی تھیں۔ راستے میں کچھ لوگ ان پر گوبر پھینک دیتے تھے۔ گوبر پھینکنے والے براہمنوں کا ماننا تھا کہ شودر-اتی شودروں کو پڑھنے کا حق نہیں ہے۔ گھر سے جو ساڑی پہنکر نکلتی تھیں وہ بدبو سے بھر جاتی تھی۔ اسکول پہنچکر دوسری ساڑی پہن لیتی تھیں۔ پھر لڑکیوں کو پڑھانے لگتی تھیں۔
یہ واقعہ 1 جنوری، 1848 کے آس پاس کا ہے۔ اسی دن ساوتری بائی پھولے نے پونے شہر کے بھیڑےواڑی میں لڑکیوں کے لئے ایک اسکول کھولا تھا۔ آج ان کا جنم دن ہے۔ آج کے دن ہندوستان کی تمام خواتین اور مردوں کو ان کے اعزاز میں انہی کی طرح کا ٹیکہ لگانا چاہیے۔ کیونکہ اس خاتون نے خواتین کو ہی نہیں مردوں کو بھی ان کی نادانی اور حماقت سے آزاد کیا ہے۔
اس سال 2جنوری کو کیرل میں الگ الگ دعووں کے مطابق 30 سے 50 لاکھ عورتیں 600 کیلومیٹر راستے پر دیوار بنکر کھڑی تھیں۔ 1848 میں ساوتری بائی اکیلے ہی ہندوستان کی کروڑوں عورتوں کے لئے دیوار بنکر کھڑی ہو گئی تھیں۔ کیرل کی اس دیوار کی بنیاد ساوتری بائی نے اکیلے ڈالی تھی۔ اپنے شوہر جیوتی با پھولے اور سگنابائی سے ملکر۔
ان کی سوانح عمری سے گزریے، آپ فخر محسوس کریںگے۔ ساوتری بائی کی تصویر ہر اسکول میں ہونی چاہیے چاہے وہ سرکاری ہو یا پرائیویٹ۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی خاتون نہیں ہوئی۔ جس براہمن واد نے ان کے اوپر گوبر پھینکا، ان کے شوہر جیوتی با کے پڑھنے کی وجہ سے والد کو اتنا دھمکایا کہ والد نے بیٹے کو گھر سے ہی نکال دیا۔ اس ساوتری بائی نے ایک براہمن کی جان بچائی جب اس سے ایک خاتون حاملہ ہو گئی۔ گاؤں کے لوگ دونوں کو ہی مار ڈالنا چاہتے تھے۔ ساوتری بائی پہنچ گئیں اور دونوں کو بچا لیا۔
یہ بھی پڑھیں : رقیہ بیگم کا سوال،اس تہذیب یافتہ سماج میں ہماری حیثیت کیا ہے؟
ساوتری بائی نے پہلا اسکول نہیں کھولا، پہلی استانی نہیں بنیں بلکہ ہندوستان میں عورتیں اب ویسی نہیں دکھیںگی جیسی دکھتی آئی ہیں۔ اس کا پہلا جیتا جاگتا بنیادی چارٹر بن گئیں۔ انہوں نے ہندوستان کی مری ہوئی اور مار دی گئی عورتوں کو دوبارہ سے جنم دیا۔ مردوں کا چور سماج پونے کی بیواؤں کو حاملہ کرکے خودکشی کے لئے چھوڑ جاتا تھا۔ ساوتری بائی نے ایسی حاملہ بیواؤں کے لئے جو کیا ہے اس کی مثال دنیا میں شاید ہی ہو۔
1892 میں انہوں نے مہیلا سیو امنڈل کے طور پر پونے کی بیوہ خواتین کی اقتصادی ترقی کے لئے ملک کی پہلی خاتون تنظیم بنائی۔اس تنظیم میں ہر 15 دنوں میں ساوتری بائی خود تمام غریب دلت اور بیوہ خواتین سے گفتگو کرتیں، ان کے مسائل سنتی اور اس کو دور کرنے کی تدبیر بھی سجھاتی۔
میں نے یہ حصہ فارورڈ پریس میں سجاتا پارمیتا کے مضمون سے لیا ہے۔ سجاتا نے ساوتری بائی پھولے کی سوانح عمری تفصیل سے لکھی ہے۔ آپ اس کو پڑھیےاور ٹیچر ہیں تو کلاس روم میں پڑھکر سنائیے۔یہ حصہ زور زور سے پڑھیے-پھولے میاں بیوی نے 28 جنوری 1853 میں اپنے پڑوسی دوست اور تحریک کے ساتھی عثمان شیخ کے گھر میں بال ہتیا پرتی بندھک گریہہ قائم کی۔ جس کی پوری ذمہ داری ساوتری بائی نے سنبھالی۔ وہاں تمام بےسہارا حاملہ خواتین کو بغیر کسی سوال کے شامل کرکے ان کی دیکھ بھال کی جاتی، ان کی زچگی کر کے بچوں کی پرورش کی جاتی، جس کے لئے وہیں پالنا گھر بھی بنایا گیا۔ یہ مسئلہ کتنا بڑا تھا اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض 4 سالوں کے اندر ہی 100 سے زیادہ بیوہ خواتین نے اس گھر میں بچوں کو جنم دیا۔
دنیا میں لگاتار ترقی یافتہ اور بولڈ ہو رہی ناری وادی سوچ کی ایسی پختہ بنیاد ساوتری بائی اور ان کے شوہر جیوتی با نے ملکر ڈالی۔ دونوں آکسفورڈ میں نہیں گئے تھے۔ بلکہ غلط رواج کو پہچانا، مخالفت کی اور حل پیش کیا۔ میں نے کچھ نیا نہیں لکھا ہے۔ جو لکھا تھا اس کو ہی پیش کیا ہے۔ بلکہ کم لکھا ہے۔ اس لئے لکھا ہے تاکہ ہم ساوتری بائی پھولے کو صرف ڈاک ٹکٹ کے لئے یاد نہ کریں۔ یاد کریں تو اس بات کے لئے کہ اس وقت کا سماج کتنا گھٹیا اور ظالم تھا۔ اس ضعیف الاعتقاد سماج میں کوئی منطقی اور دل والی ایک خاتون بھی تھی جس کا نام ساوتری بائی پھولے تھا۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر