خبریں

آئی ٹی قانون کی منسوخ دفعہ کے تحت گرفتاریوں کا سلسلہ جاری، سپریم کورٹ نے کہا ایسا کرنے والوں کو جیل بھیج دیں‌گے

سپریم کورٹ نے  آئی ٹی قانون کی دفعہ 66اے کے تحت مبینہ گرفتاریوں پر مرکزی حکومت کو نوٹس دیا۔ درخواست گزاروں کا الزام ہے کہ  قانون ختم ہونے کے باوجود 22 سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے ہیں۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار کو مرکز سے اس عرضی سے متعلق جواب طلب کیا، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ  کے ذریعے انفارمیشن  ٹکنالوجی ایکٹ  کی منسوخ کی گئی دفعہ 66 اے کے تحت مقدمہ درج کئے گئے ہیں۔ منسوخ کی گئی دفعہ 66اے کے تحت کسی بھی آدمی کو ویب سائٹ پر مبینہ طور پر ‘ توہین آمیز ‘ مواد شیئر  کرنے پر گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ اس اہتمام کو 24 مارچ 2015 کو سپریم کورٹ  نے رد کر دیا تھا۔

رضاکار تنظیم ‘ پی یو سی ایل ‘ کے وکیل سنجے پارکھ نے کہا کہ سپریم کورٹ  کے ذریعے آئی ٹی قانون کی دفعہ 66 اے کو 2015 میں رد  کئے جانے کے باوجود اس کے تحت 22 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جسٹس آر ایف نریمن کی قیادت والی ایک بنچ  نے کہا کہ آئی ٹی قانون کی دفعہ 66 اے کو ختم کرنے کے اس کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی تو متعلقہ افسروں کو گرفتار کرکے جیل بھیجا جائے‌گا۔

جسٹس نریمن نے کہا، ‘ اگر انہوں نے (درخواست گزار) جو الزام لگائے ہیں وہ صحیح ہیں تو آپ لوگوں کو کڑی سے کڑی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے‌گا۔ انہوں نے ان لوگوں کی فہرست دی ہے جن پر مقدمہ چلایا گیا ہے۔ ہم ان تمام لوگوں کو جیل میں بھیج دیں‌گے جنہوں نے گرفتاری کا حکم دیا تھا۔ ہم سخت قدم اٹھانے والے ہیں۔ ‘ عدالت نے مرکزی حکومت کو جواب دینے کے لئے چار ہفتوں کا وقت دیا ہے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق پی یو سی ایل کا کہنا ہے کہ انہوں نے میڈیا رپورٹس، نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو اور آن لائن ڈیٹا بیس میں درج معاملوں کی بنیاد پر اپنی ریسرچ کی ہے۔ اپنی عرضی میں انہوں نے کہا، ‘ حالانکہ یہ اعداد و شمار پورے جوڈیشیل سسٹم  پر تفصیلی کوریج نہیں دیتا، لیکن پھر بھی یہ اس بات کی تصدیق کے لئے کافی ہے کہ شریہ سنگھل معاملے کے بعد بھی آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66 اے کا استعمال ہو رہا ہے۔ ‘

معلوم ہو کہ آئی ٹی قانون کی دفعہ 66 اے میں ترمیم کے لئے قانون کی طالبہ شریہ سنگھل نے 2012 میں پہلی مفاد عامہ عرضی دائر کی تھی۔ جسٹس جے چیلمیشور اور آر ایف نریمن کی ایک بنچ نے 2015 میں خیال اور اظہار کی آزادی کو ‘ بنیادی ‘ بتاتے ہوئے کہا تھا، ‘ عوام کا جاننے کا حق انفارمیشن  ٹکنالوجی ایکٹ  کی دفعہ 66 اے سے سیدھے متاثر ہوتا ہے۔ ‘

مہاراشٹر کے تھانے ضلع کے پال گھر سے شاہین اور رینو کی گرفتاری کے بعد شریہ نے یہ عرضی دائر کی تھی۔ شاہین اور رینو نے شیوسینا رہنما بال ٹھاکرے کی موت کے مدنظر ممبئی میں بند کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی۔ اس بارے  میں کئی شکایتوں کے مدنظر سپریم کورٹ  نے 16 مئی 2013 کو ایک مشورہ جاری کر کے کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر کچھ بھی قابل اعتراض پوسٹ کرنے والوں کی گرفتاری پولیس انسپکٹر جنرل یا پولیس ڈپٹی کمشنر سطح کے سینئر افسر کی اجازت کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)