پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس ٹرینڈ کی بڑی پذیرائی ہوئی اور وہاں سےدیوناگری میں نام لکھوانے کے لئے لوگ ہندوستانی دوستوں کو پیغام بھیجنے لگے۔ یہ ایک خیر سگالی کا جذبہ تھا، جس سے ٹوئٹر سرابور نظر آیا۔
گزشتہ دنوں ٹوئٹر پر’مائی نیم ان اردو‘(MyNameInUrdu#) کی دھوم رہی۔ اس کی شروعات ٹوئٹر پر اردو میں اپنانام لکھنے سےہوئی لیکن اس کا مقصدمذہب کی بنیاد پر نفرت اور تعصب کے خلاف آواز اٹھاناتھا۔دراصل ایک خاتون پربھا راججن کو اردو نہیں آتی، انہیں اردو کا رسم الخط اچھا لگاتو انہوں نے شوقیہ ٹوئٹر پر اپنا نام اردو میں شیئر کیا۔
یہ تو بس آغاز تھا۔اس کے بعد انہیں موصول ہونے والے معتددنفرت بھرے پیغامات کی بھرمار ہو گئی۔ ان پیغامات کو پڑھ کر پربھا کو اندازہ ہوا کہ کئئ لوگ اردو میں لکھے ان کے نام کی وجہ سے ان کو مسلمان سمجھ رہے تھے اور یہ نفرت در اصل اس مذہبی شناخت کے لیےتھی۔
#MyNameInUrdu is needed because of this kind of hate. Say no to hate. https://t.co/jwHJL1UcHs
— Prabha پر بھا প্রভা பிரபா (@deepsealioness) January 7, 2019
پربھا کو یہ سمجھ میں آیا کہ کئی لوگ نفرت میں اس قدر غرق ہیں کہ ان کے لئے اس کا کھلا اظہاربھی شرمندگی کا باعث نہیں ہے۔ لیکن وہ پیچھے ہٹنے والی نہیں تھیں۔ اس کے بعد ٹوئٹر پر ‘مائی نیم ان اردو،’ کی دھوم مچ گئی۔ انگنت لوگوں نے جن کو اردو نہیں آتی، انہوں نے گوگل یا دوستوں کی مدد سے اپنا نام اردو میں لکھوا کر اپنے ہینڈل سے ٹوئٹ کرنا شروع کیا۔
Why did you call me Muslim? Why are you hating me for no reason? Why are you bringing another religion? Why can’t a Hindi woman ask for her rights without being trolled? Why are you so against Hindu women? Are we not hindu enough for you?
— Prabha پر بھا প্রভা பிரபா (@deepsealioness) January 9, 2019
ہر طرف یہی نظارہ تھا کہ لوگ اپنے دوستوں سے اردو میں اپنا نام لکھنے یا اس کو درست کرنے کی درخواست کر رہے تھے، تا کہ وہ فوری طور پر اسے اپنے اکاؤنٹ میں لکھ سکیں۔
Can someone share my name written in Urdu? #MyNameInUrdu @deepsealioness
— Abhishek Baxiابھیشیک अभिषेक (@baxiabhishek) January 6, 2019
اکیلے ایک خاتون جورنگ دے ترنگا کے نام سے ٹوئٹ کرتی ہیں انہوں نے 300 لوگوں کے نام اردو رسم الخط میں لکھ کر دیے۔
Won't sleep today.
Will be available 24×7 for those who wants translation of their names.#MyNameInUrdu @deepsealioness— Congress For 2019. (@RangDeTiranga) January 6, 2019
اس مہم کی شروعات اس لیے ہوئی کہ پربھا کو سمجھ میں آیا کہ انسان کے نام یا اس کی زبان سے ہی اس کی مذہبی شناخت کا اندازہ لگانے اور صرف اس بنا پر نفرت پھیلانے کا رویہ کس حد تک رائج ہو چکا ہے۔سپریم کورٹ میں وکالت کر رہے، انس جو بقراط کے نام سے ٹوئٹ کرنے ہیں انہوں نے لکھا، میں بہت پہلے سے یہ کہتا رہا ہوں کہ اردو مزاحمت کی زبان ہے اوریہی بدلاؤ کی زبان بنے گی۔ ان کا ماننا ہے کہ ،اس زبان میں وہ ساری خوبیاں ہیں جو اسے بغاوت کی زبان بنائے۔
سوزین نے بھی اپنا نام اردو رسم الخط میں لکھا۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، میں نے اس مہم کو اس انداز میں دیکھا کہ لوگ ان ہندوتوا’ٹرالز ‘کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں جو اقلیتوں کو ان کا نام دیکھتے ہی ٹارگیٹ کرتے ہیں۔سوزین مستقل اقلیتوں پر ہونے والے حملوں اور تشدد کے بارے میں لکھتی، ٹوئٹ کرتی رہی ہیں اور اس کی وجہ سے انہیں لگاتار ٹوئٹر پر ٹرولز کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ہندوستان میں غیر اردوداں طبقے نے جس طرح اپنے نام اردو رسم الخط میں لکھنا شروع کئے، اس سے ہر طرف اردو ہی نظر آنے لگی، اس کا اثر بیرون ملک بھی پڑا۔چوں کہ ٹوئٹر پہ ہر پیغام کے ساتھ صارف کا نام بھی نظر آتا ہے، ٹائم لائن پر اردو کی بہار آ گئی۔
دریں اثنا پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس کی بڑی پذیرائی ہوئی اور وہاں سے دیوناگری میں نام لکھوانے کے لئے لوگ ہندوستانی دوستوں کو پیغام بھیجنے لگے۔ یہ ایک خیر سگالی کا جذبہ تھا، جس سے ٹوئٹر سرابور نظر آیا۔
How can I write my name in hindi if someone could help me PLEASE #MyNameInHindi
— Tatheer Fatima तत्हीर फ़ातिमा (@Tatheer16447805) January 7, 2019
بے شک یہ خوشی کی بات ہے کہ لوگ نفرت کے خلاف کھڑے ہونے کو تیار ہیں اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ کس طرح کسی کی مذہبی پہچان تعصب کے نشانے پر ہے-اس مہم سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ عملی طور پر اسٹینڈ لینے کے لئے تیارہوتے ہیں-مگر یہ بھی سچ ہے کہ سماج میں مذہبی منافرت اور تعصبات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔سوزین کہتی ہیں کہ یہ بات سب کو جاننا چاہئے کہ کسی مذہب یا ذات میں پیدا ہونے کی بنیاد پر ہم میں سے بہت سے لوگوں کو معاشرے میں خصوصی رعایات اور اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں اور اس کو ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ دوسروں کے حقوق کےلئے بولنا، ان کے ساتھ کھڑا ہونا ضروری ہے۔
ڈاکٹر جوناتھن نے ایک اپنے ایک ٹوئٹر تھریڈمیں یہ سمجھایا کہ کیسے کسی بھی مسئلے پر بحث کے دوران پیش کئے جا رہے حقائق کے بجائے لوگ فرد کے نام پر دھیان دیتے ہیں اور رائے قائم کر لیتے ہیں، اس بنیاد پر عیسائی یا مسلمان پر نفرت آمیز جملوں اور گالیوں کی بوچھار شروع ہو جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقلیتی تجربہ ہے جس کو اکثریت کو سمجھنے کی ضرورت ہے-جب تک آپکا نام زینب یا جوناتھن نہیں ہوگا، آپ کو یہ نہیں جھیلنا پڑیگا۔
اسی مہم کے دوران لوگوں نے اپنا تجربات بیان کئے کہ کس طرح دفاتر، ہاسپٹل یا کلاس روم میں اپنا نام بتانے کے بعد لوگوں کو کس طرح یہ محسوس کرایا گیا کہ وہ غیر ہیں۔ ظاہر ہے کہ ‘مائی نیم ان اردو’ایک علامتی مہم ہے، ان لوگوں کے خلاف جو انسان کی مذہبی اور لسانی شناخت کی بنا پر لوگوں سے تعصب کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحیح طریقے سے آواز اٹھائی جائے تو ہزاروں لوگ ساتھ آ سکتے ہیں اور کارواں بن سکتا ہے۔
اس رجحان سے اردو کے تئیں لوگوں کی دلچسپی کا بھی اندازہ ہوتا ہے ساتھ ہی یہ بھی کہ اچھے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے۔اب یہ ضروری ہے کہ علامتی جد و جہد سے آگے بڑھ کر، عملی زندگی میں ایسا ماحول بنے کہ نفرت اور تعصب کا رویہ اختیار کرنے والے کمزور ہوں اور جو لوگ ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں ان کو معاشرے میں پسپائی اور شرمندگی کا احساس ہو۔
Categories: فکر و نظر