سینئر وکیل راجیو دھون نے کہا کہ جسٹس یو یو للت نے وکیل رہتے ہوئے بابری مسجد سے متعلق ایک ہتک عزت کے معاملے میں اتر پردیش کے سابق وزیراعلیٰ کلیان سنگھ کی طرف سے پیروی کی تھی۔ اس کے بعد جسٹس للت نے خود کو اس معاملے سے الگ کر لیا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ میں ایودھیا زمین تنازعہ معاملے کی سماعت کے دوران جمعرات کو آئینی بنچ کے پانچ ممبروں میں سے ایک جج جسٹس یو یو للت نے خود کو سماعت سے الگ کر لیا۔ دراصل اس معاملے کے ایک فریق سنی وقف بورڈ کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل راجیو دھون نے کورٹ میں کہا کہ آئینی بنچ کے جج جسٹس یو یو للت نے وکیل رہتے ہوئے بابری مسجد سے متعلق ایک ہتک عزت کے معاملے میں اتر پردیش کے سابق وزیراعلیٰ کلیان سنگھ کی طرف سے پیروی کی تھی۔
انہوں نے کہا، ‘ میں صرف آپ کے علم میں یہ بات لا رہا ہوں۔ ہمیں اس بات سے کوئی اعتراض نہیں ہے کہ وہ اس معاملے کی سماعت کریںگے۔ یہ پوری طرح سے آپ کے اوپر منحصر ہے۔ ‘ راجیو دھون کے ذریعے کورٹ میں یہ جانکاری دینے کے بعد چیف جسٹس رنجن گگوئی نے بتایا کہ جسٹس یو یو للت نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی سماعت کے لئے آئینی بنچ کا حصہ نہیں ہوںگے۔ اس طرح یو یو للت نے خود کو اس معاملے کی سماعت سے الگ کر لیا۔
اس کے بعد کورٹ نے اس معاملے کی اگلی سماعت کے لئے 29 جنوری کی تاریخ طے کی۔ این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق، چیف جسٹس رنجن گگوئی اب اس پر فیصلہ لیںگے کہ معاملے کی سماعت روزانہ ہونی ہے یا نہیں۔ اب ایودھیا معاملے کی سماعت کر رہی آئینی بنچ میں چیف جسٹس کے علاوہ، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس این وی رمنا اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ شامل ہیں۔
Supreme Court fixes January 29 as the next date of hearing https://t.co/AIQ6k0g20U
— ANI (@ANI) January 10, 2019
راجیو دھون نے یہ بھی کہا تھا کہ صحیح طریقے سے پروسیس کی تقلید کئے بغیر ہی اس معاملے کو آئینی بنچ کے سامنے لایا گیا ہے۔ اس پر جسٹس گگوئی نے کہا، سپریم کورٹ کے اصولوں کے مطابق چیف جسٹس کی ایڈمنسٹریٹیو اختیارات کی بنیاد پر ایودھیا زمین تنازعہ معاملے کو آئینی بنچ کے پاس بھیجا گیا ہے۔ رنجن گگوئی نے کہا، ‘ بنچ سماعت کی تاریخ طے کرنے کے لئے اکٹھا ہوئی ہے، معاملے کی سماعت کے لئے نہیں۔ ‘
گزشتہ 29 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ رام جنم بھومی-بابری مسجد زمین کے مالکانہ حق تنازعہ معاملے میں دائر اپیلوں کو جنوری، 2019 میں ایک مناسب بنچ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ زمین تنازعہ معاملے میں یہ اپیل الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی ہے۔ مناسب بنچ معاملے میں اپیل پر سماعت کی تاریخ طے کرےگی۔
چیف جسٹس نے کہا تھا، ‘ ہم جنوری میں مناسب بنچ کے سامنے ایودھیا تنازعہ معاملے کی سماعت کی تاریخ طے کریںگے۔ ‘ اس سے پہلے تین ججوں کی ایک بنچ نے 2:1 کی اکثریت سے 1994 کے اپنے فیصلے میں مسجد کو اسلام کا لازمی حصہ نہ ماننے سے متعلق تبصرہ پر نظرثانی کا مدعا 5 رکنی آئینی بنچ کے پاس بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔
ایودھیا زمین تنازعہ معاملے کی سماعت کے دوران یہ مدعا اٹھا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بنچ نے تب کہا تھا کہ دیوانی اصول پر ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائےگا۔ بنچ نے یہ بھی کہا تھا کہ اس معاملے میں پچھلے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف کل 14 اپیلیں دائر ہیں۔ ہائی کورٹ نے چار دیوانی مقدموں پر اپنے فیصلے میں 2.77 ایکڑ زمین کو تینوں فریق ،وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑا اور رام للا کے درمیان برابر برابر تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔
حال ہی میں خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو دیے ایک انٹرویو میں، وزیر اعظم نریندر مودی نے واضح کیا تھا کہ رام مندر مدعے پر ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرنے کا کوئی بھی فیصلہ تب تک نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ عدالتی عمل ختم نہیں ہو جاتا ہے۔ مودی نے کہا تھا، ‘ عدالتی عمل کو ختم ہونے دیں۔ عدالتی عمل ختم ہونے کے بعد حکومت کے طور پر ہماری ذمہ داری جو بھی ہوگی، ہم سبھی کوشش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے بی جے پی کے مینی فسٹو میں کہا ہے کہ اس مدعے کا حل آئین کے دائرے میں ڈھونڈ لیا جائے گا۔
Categories: خبریں