نریندر مودی حکومت نے گزشتہ سال دسمبر مہینے میں سپریم کورٹ کے سینئر جج اے کے سیکری کو لندن واقع کامن ویلتھ سکریٹر یٹ آربٹرل ٹریبونل میں نامزد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسی وقت آلوک ورما معاملے کی سماعت چل رہی تھی۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر جج جسٹس اے کے سیکری نے لندن واقع کامن ویلتھ سکریٹر یٹ آربٹرل ٹریبونل (سی ایس اے ٹی) میں صدر / ممبر کے خالی عہدے پر ان کو نامزد کرنے کے حکومت کے فیصلے کو ٹھکرا دیا ہے۔ دی وائر کو وزارت خارجہ کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نریندر مودی حکومت نے پچھلے مہینے سپریم کورٹ کے سینئر جج اے کے سیکری کو لندن واقع سی ایس اے ٹی میں صدر / ممبر کے خالی عہدے پر نامزد کرنے کا فیصلہ کیا۔
حالانکہ انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق اے کے سیکری نے حکومت کے اس فیصلے کو ٹھکرا دیا ہے۔ اے کے سیکری نے اتوار شام کو وزارت قانون کو خط لکھکر حکومت کی اس تجویز کو ٹھکرایا ہے۔ معلوم ہو کہ سپریم کورٹ کے ذریعے آلوک ورما کی سی بی آئی ڈائریکٹر عہدے پر بحالی کے بعد گزشتہ جمعرات کو نریندر مودی کی رہنمائی والی سلیکشن کمیٹی نے 2:1 کے فیصلے سے ان کا تبادلہ کر دیا تھا۔ کمیٹی میں مودی کے علاوہ سپریم کورٹ کے جج اے کے سیکری اور حزب مخالف کے رہنما ملکارجن کھڑگے تھے۔
سلیکشن کمیٹی کے تین ممبروں میں سے وزیر اعظم مودی اور جسٹس اے کے سیکری سی وی سی جانچکی بنیاد پر آلوک ورما کو بطور سی بی آئی ڈائریکٹر کے عہدے پر بنے رہنے کے خلاف تھے۔ سلیکشن کمیٹی کے اس فیصلے کی کافی تنقید ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ آلوک ورما کے معاملے میں سی وی سی کی تفتیش کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے ریٹائر جج جسٹس اے کے پٹنایک نے بیتے جمعہ کو کہا کہ ورما کے خلاف بد عنوانی کا کوئی ثبوت نہیں تھا اور وزیر اعظم نریندر مودی کی رہنمائی والی کمیٹی نے ان کو ہٹانے کے لئے بہت جلدبازی میں فیصلہ لیا۔
آلوک ورما کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے اے کے سیکری کا ووٹ اہم تھا کیونکہ وہ مودی اور کھڑگے کے علاوہ اعلیٰ سطحی سلیکشن کمیٹی کے تیسرے ممبر تھے۔ میٹنگ میں جسٹس سیکری کا حکومت کے مساوی نظریہ تھا جبکہ کھڑگے نے سخت ناراضگی ظاہر کی تھی۔ سی ایس اے ٹی اپنے 53 ممبر ممالک کے درمیان تنازعوں کا آخری موڈریٹر ہے۔
اس میں صدر سمیت 8 ممبر ہوتے ہیں جن کو کامن ویلتھ حکومتوں کے ذریعے اعلی بااخلاق کردار والے ایسی شخصیتوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کے پاس کامن ویلتھ ممالک میں اعلیٰ عدالتی عہدوں پر کام کرنے کا تجربہ ہو یا جو کم سے کم 10 سالوں کے تجربہ کے ساتھ وکیل ہو۔ ‘ سپریم کورٹ کے ذرائع نے دی پرنٹ کو بتایا کہ سینٹرل لاء اینڈ جسٹس منسٹر روی شنکر پرساد نے پچھلے مہینے چیف جسٹس رنجن گگوئی کو خط لکھکر جسٹس سیکری کو اس عہدے پر نامزد کرنے اور ان کی رضامندی لینے کے وزارت خارجہ کے فیصلے سے واقف کرایا تھا۔
اس بات کو لےکر لوگ سوال اٹھا رہے تھے کہ اگر جسٹس سیکری اور چیف جسٹس رنجن گگوئی کو حکومت کے اس فیصلے کے بارے میں پتا تھا تو کیا ان کو اخلاقی بنیاد پر اس اعلیٰ سطحی کمیٹی میں نہیں ہونا چاہیے جس نے آلوک ورما کو سی بی آئی ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹایا؟ کیا یہ مفادات کے ٹکراؤ کا معاملہ نہیں ہے؟
غور طلب ہے کہ اے کے سیکری 6 مارچ کو سپریم کورٹ سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔
Categories: خبریں